ویرانی ہی ویرانی ہے بستی میں!
سکتہ ہے یا حیرانی ہے بستی میں .... ویرانی ہی ویرانی ہے بستی میں .... کل شام مغرب کے بعد مجھے اپنے گھر واقع جی او آر شادمان کالونی سے نکل کر سروسز ہسپتال جیل روڈ لاہور کے سامنے ایک میڈیکل سٹور پر جانا پڑا۔ میں نے محسوس کیا سڑکیں میرے دل کی طرح ویران ہیں۔ اتنی ویران سڑکیں شاید اپنی زندگی میں کبھی میں نے دیکھی ہوں۔ ہو کا عالم تھا۔ واپس گھر آتے ہوئے میں ڈر رہا تھا اس قدر ویرانے میں میرے ساتھ کوئی واردات ہی نہ ہو جائے۔ سچ لکھنے کی عادت بھی ہے۔ یا یوں کہہ لیں سچ لکھنے کی کوششیں ضرور کرتا ہوں۔ لہٰذا جھوٹ پسند معاشرے میں ہم ایسے لوگوں کا وہی حشر ہوتا ہے جو اگلے روز اپنے مخصوص انداز میں مسکراہٹیں بانٹنے والے چن مکھن علامہ ناصر مدنی کا ہوا۔ ان کا قصور یہ تھا انہوں نے ایک "ڈبہ پیر" پر کچھ زیادہ ہی تنقید کر دی تھی۔ معاشرے میں عدم برداشت کی حالت یہ ہے ہم اپنے خلاف ایک لفظ ایک جملہ تک اب برداشت نہیں کرتے۔ یہ سلسلہ برسوں پہلے شروع ہوا تھا اب اپنے عروج پر ہے۔ ایک ریٹائرڈ پولیس افسر ذوالفقار چیمہ کے ساتھ میری بڑی دوستی تھی۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ شاید 1994ءکی ہے۔ میں نے کئی بار ان کے حق میں لکھا۔ بس ایک بار مجھ سے یہ "جرم" ہو گیا اپنے کالم میں ازرہ مذاق میں لکھ بیٹھا "ذوالفقار چیمہ بہت اچھے انسان ہیں، یہ بات انہوں نے مجھے خود بتائی ہے ".... ہلکا پھلکا یہ جملہ بھی ان سے برداشت نہ ہوا، وہ بھول گئے اس سے پہلے ان کے حق میں کتنی بکواس میں کر چکا ہوں ....
ایک ڈبہ بیر کے بارے میں علامہ ناصر مدنی نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا "حضور آپ کی پھونکوں سے سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے پھر ایک پھونک کورونا وائرس پر بھی مار دیں۔ تا کہ دنیا اس عذاب سے نجات حاصل کر سکے".... اس میں غلط کیا تھا؟ پیر آف پھونک شریف ان کے اس فرمان پر اتنے سیخ پا ہوئے اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے ان پر بدترین تشدد کروایا۔ جس کا مطلب یہ تھا خود پیر صاحب کو بھی اپنی "پھونکوں " پر اعتماد نہیں تھا ورنہ معصوم سے مولانا ناصر مدنی ان کی ایک پھونک کی مار تھے۔ پہلے ہم یہ سمجھے وہ چونکہ پچھلے کچھ عرصے سے موجودہ حکمرانوں کی کچھ غلط پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں تو ممکن ہے ان پر یہ ظلم حکمرانوں نے ڈھایا ہو۔ پر دل نے یہ بات اس لئے نہیں تسلیم کی وہ "سول حکمرانوں " پر تنقید کر رہے تھے اور "سول حکمران" چاہے کتنے ہی گندے کتنے ہی ظالم کیوں نہ ہو وہ اپنے کسی مخالف کے ساتھ کمینگی کی انتہا تک نہیں جاتے.... میں کچھ عرصے سے علامہ ناصر مدنی کو لوگوں کو ہنساتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اس دور میں لوگوں کو رلانے والے بہت ہیں جو یہ کام ایک "عبادت" سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگوں میں محبتیں اور قہقہے تقسیم کرنے والوں کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے انہیں احساس دلاتے ہیں کہ وہ ان کی اس "عبادت" میں خلل ڈال رہے ہیں ....
میرا بیٹا ہر دوسرے چوتھے روز علامہ ناصر مدنی کی کوئی نہ کوئی وڈیو مجھے سینڈ کرتا ہے جسے دیکھ کر میں بھی اس طرح مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا جیسے بے شمار لوگ ان کی باتیں سن کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اگر کوئی ظرف والا انسان ہو، ناصر مدنی اپنے مخصوص انداز میں اس پر تنقید کریں، مجھے یقین ہے وہ غصہ کرنے کے بجائے انجوائے کرے گا.... پچھلے دنوں انہوں نے کچھ حکومتی پالیسیوں بلکہ عوام دشمن حکومتی پالیسیوں پر مخصوص انداز میں تنقید کی جس سے ان کے چاہنے والوں کو تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلے جا رہا ہے اور اس وجہ سے ان کے اپنے "قبیلے" میں ان کے خلاف حسد بڑھتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر حکومت کی جانب سے حج کے اخراجات بڑھانے کے خلاف انہوں نے اپنی ایک تقریر میں شدید ردعمل دیا، اور بالکل ٹھیک دیا۔ جس انداز میں حکومت نے حج مہنگا کیا سچی بات ہے مجھے خدشہ پیدا ہو گیا تھا حکومت کہیں ہماری نمازوں پر ٹیکس نہ لگا دے۔ میں نے سوچا تھا میں اس پر لکھوں گا۔ پر بیچ میں ایک دو کالم ایک وزیر کے کچھ خفیہ و ظاہری کارناموں پر ایسے لکھنے پڑ گئے جو "بربادی صحافت"کی نذر ہو گئے۔ میں سوچ رہا تھا موجودہ حکمران ان دنوں میڈیا کے ساتھ جو ہتک آمیز سلوک کر رہے ہیں مولانا ناصر مدنی سے گزارش کروں گا اپنی کسی تقریر میں کچھ روشنی اس پر بھی ڈالیں۔ ان کے مخصوص انداز کی وجہ سے ہمیں اتنا پڑھا نہیں جاتا جتنا انہیں سنا جاتا ہے ....
بدقسمتی سے وزیر اعظم کے اردگرد کچھ ایسے مفاد پرست عناصر اکٹھے ہو گئے ہیں، اور ضرورت سے زیادہ اپنی جی حضوری کرنے پر وزیر اعظم بھی انہیں اپنے اردگرد اکٹھا رکھنے پر اتنے مجبور ہو گئے ہیں، ان دنوں کام کی کوئی ان کے کان میں ڈالنے والا کوئی رہا ہی نہیں .... المیہ یہ ہے وہ سمجھتے ہیں میں دنیا کا اہل ترین حکمران ہوں۔ میری حکمرانی میں پاکستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ جگہ جگہ دودھ اورشہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ جو سب کو دیکھائی دے رہی ہیں میڈیا کو دکھائی نہیں دے رہیں۔ میڈیا کے خلاف ان کے کچھ اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے وہ سارے میڈیا کو "بکاﺅ مال" سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے کسی روز وہ یہ حکم جاری کر دیں "سوشل میڈیا کے سرکاری اشتہارات بند کر دیئے جائیں "۔ حالانکہ سوشل میڈیا کا سرکاری اشتہارات سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ پر وہ ایسے وزیر اعظم ہیں جو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی روز ایک اور "یوٹرن" وہ یہ بھی لے لیں کہ گزشتہ تیس چالیس برسوں سے پاکستان میں سارا گند شریف برادران یا زرداری کا نہیں میڈیا کا پھیلایا ہوا ہے۔ میڈیا کے خلاف جو سوچ وہ رکھتے ہیں اس کے منفی اثرات یہ مرتب ہو رہے ہیں اکثر سرکاری ادارے صرف وزیر اعظم کی اس سوچ کے مطابق، ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اچھے صحافیوں سے بھی اب دور رہنے لگے ہیں، جس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کوئی ادارہ ان دنوں کسی "معجزے" کے تحت ہی کوئی اچھا کام کر لے عوام کو اس کا پتہ ہی نہیں چلنا....
سچ پوچھیں مجھے تو کبھی کبھی اپنے محترم وزیر اعظم بھی "پھونکوں والی سرکار" ہی لگتے ہیں جو سچ سننا اور برداشت کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، اور سچ بولنے والوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے ہیں جو "پھونکوں والی سرکار" نے علامہ ناصر مدنی کے ساتھ کیا۔ انہیں شاید یقین ہو گیا ہے یہ ان کا پہلا اور آخری اقتدار ہے جس کے بعد ان کی سیاست بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانی ہے۔ پھر میڈیا کی انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ویسے وہ واقعی اس یقین میں مبتلا ہیں تو ہم ان کے کچھ احمقانہ اقدامات کی وجہ سے ان سے پہلے ہی اس یقین میں مبتلا ہو چکے ہیں جس روز پنجاب میں وزیر اعلیٰ بزدار کی انہوں نے تقرری فرمائی۔ یہ ہمارے اس یقین کا پہلا دن تھا کہ یہ ان کا پہلا اورآخری اقتدار ہے۔ مجھے یاد ہے اس روز نون لیگ کے اہم ترین ایک رہنما نے فون پر مجھ سے کہا"آپ کے اپنے محبوب وزیر اعظم سے رابطہ رہتا ہے، ہماری طرف سے ان کا خاص طور پر شکریہ ادا کیجئے گا کہ انہوں نے بزدار صاحب جیسے نکمے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بزدار کابینہ کے اس وزیر کا بھی شکریہ ادا کیجئے گا جو ایک گاﺅں کے دورے پر ایک بوڑھی عورت کو یہ بتا رہے تھے "یہ بزدار صاحب ہیں، پنجاب کے وزیر اعلیٰ جیسے شہباز شریف ہوا کرتا تھا".... گزارش بس اتنی ہے شہباز شریف کو خان صاحب کی وفاقی و صوبائی کابیناﺅں کے کچھ اراکین نہیں بھول رہے، عوام کیسے بھولیں گے؟