نئے ایرانی صدر : نئے چیلنجوں کے رُوبرو
اگست2021کے پہلے ہفتے جناب ابراہیم رئیسی ساداتی نے نَو منتخب ایرانی صدر کی حیثیت میں حلف اُٹھا لیا۔ جون2021 کے دوران ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں امریکی اور مغربی میڈیا میں نہائت منفی پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اس پروپیگنڈہ میں مرکزی عنصر یہ پھیلایا اور اُبھارا گیا کہ ایرانی صدارتی انتخابات میں شفافیت، انصاف اور برابری کو اپنا واضح کردار ادا کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جارہا ہے اور یہ کہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ کا جبریہ کردار ہر سُو غالب ہے۔
ایران مخالف قوتوں نے اس بات کو بھی بڑھاوا دیا کہ ایرانی صدارتی انتخابات میں ایران کے سپریم لیڈر (آئیت اللہ علی خامنہ ای) اور ایرانی مقتدرہ کے پسندیدہ اُمیدوار(ابراہیم رئیسی ساداتی) کو کھل کھیلنے کے مواقع زیادہ فراہم کیے جا رہے ہیں۔
یہ بھی الزام لگایا گیا کہ رئیسی صاحب کے حریف اُمیدواروں کو رئیسی کے حق میں بٹھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ ابراہیم رئیسی صاحب کو جتوانے کے لیے صدارتی انتخاب کے میدان میں اُترنے والے درجنوں اُمیدواروں کو دانستہ نااہل قرار دیا گیا تاکہ رئیسی صاحب کے سامنے سر اُٹھانے اور مقابلہ کرنے والے کم سے کم افراد میدان میں رہ جائیں۔ امریکی اور مغربی میڈیا میں یہ بھی کہا اور لکھا گیا کہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے متفقہ اُمیدوار کو کامیاب نہیں ہونا چاہیے۔ پروپیگنڈے اور مخالفت کی ان آندھیوں کے باوجود جناب ابراہیم رئیسی واضح اکثریت سے ایرانی صدر منتخب ہو گئے۔
جناب ابراہیم رئیسی ساداتی کا ایرانی صدر منتخب ہونا امریکیوں کے لیے خصوصاً اس لیے بھی زیادہ تکلیف دِہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ رئیسی صاحب اُن کے ڈھب پر آنے والے ہیں نہ ایران اُن کی مرضی کے عین مطابق امریکیوں اور مغربیوں سے مکالمے کی شکل میں معاہدے کرنے والا ہے۔ ان معاہدوں میں ایران کے جوہری پروگرام کو محوری اور مرکزی مقام حاصل ہے۔ امریکی صدر، جو بائیڈن، نئے ایرانی صدر سے کامیاب مذاکرات چاہتے تو ہیں لیکن اپنی مرضی اور منشا کے مطابق۔ نَو منتخب ایرانی صدر مگر اس غچے میں آنے والے نہیں ہیں۔
پچھلے چند برسوں کے دوران ایرانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ایٹمی پروگرام کو بچانے اور اہلِ مغرب کے سامنے نہ جھکنے کے لیے لاریب بڑی کامیابی سے سفارتی جنگ لڑی ہے۔ اس راہ میں ایران کو سنگین مسائل و مصائب کا سامنا تو کرنا پڑا ہے لیکن اُس نے امریکا کے سامنے کسی بھی صورت میں نہ جھک کر ایک اصول پسند اور غیرتمند ملک کا ثبوت فراہم کیا ہے؛ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی صدارت کا بلند اور حساس منصب سنبھالتے ہی جناب ابراہیم رئیسی کو متنوع عالمی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے۔
امریکیوں کی ہر ممکنہ کوشش یہی ہے کہ نَومنتخب ایرانی صدر پر نفسیاتی اور معاشی دباؤ اتنے بڑھائے جائیں کہ وہ ایران کو جوہری قوت بنانے کے عمل سے تائب ہو جائیں۔ ابراہیم رئیسی کے لیے یہ چیلنج غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی، امریکی اور ایران مخالف جملہ عالمی میڈیا کا اگر اور کہیں بس نہیں چلتا تو جب بھی موقع ملتا ہے ابراہیم رئیسی صاحب کو "انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والا صدر" (Ultraconservative)کہہ کر غصہ اور بغض نکالنے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے۔
ایران متعدد اور متنوع امریکی پابندیوں کے کارن شدید اقتصادی مسائل کا شکار ہے لیکن ایران اپنے دشمنوں اور بدخواہوں کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہے۔ نئے ایرانی صدر نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امریکا سے مرعوب ہیں نہ اُن کے دباؤ میں ہیں۔ مثال کے طور پر: انھوں نے9اگست 2021 کو جس شخص (جناب محمد مخبر) کو اپنا پہلا نائب صدر بنایا ہے، وہ شخص اُن افراد میں شامل رہا ہے جن پر امریکا بہادر نے بوجوہ پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ ابراہیم رئیسی نے یہ اقدام اور فیصلہ کرتے وقت امریکی فیصلے کو پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں سمجھا ہے۔
جناب محمد مخبر پچھلے کئی برسوں سے ایران کے اُس مشہور و معروف سرکاری مستحکم مالی ادارے(The Setad) کی سربراہی کرتے چلے آ رہے ہیں جس ادارے کی بنیاد اور اساس آئت اللہ روح اللہ خمینی صاحب مرحوم نے رکھی تھی۔
محمد مخبر صاحب کے اس ادارے کی سربراہی کی تقرری آئت اللہ خامنہ ای کے ہاتھوں عمل میں آئی تھی۔ مذکورہ ادارے پر بھی امریکا نے بوجوہ پابندیاں (Sanctions) لگا رکھی ہیں۔ اس اقدام سے یہ بھی مترشح ہو گیا کہ ایرانی سپریم لیڈر، آئت اللہ خامنہ ای، اور نَو منتخب ایرانی صدر، ابراہیم رئیسی، کی فکر، اہداف اور سوچ یکساں اور یک سُو ہے۔
نئے ایرانی صدر نے جرأتمندانہ اسلوب میں ایک اور بھی فیصلہ کیا ہے۔ اور یہ فیصلہ انھوں نے غلام حسین اسماعیلی صاحب کو اپنا چیف آف اسٹاف متعین کرکے کیا ہے۔ غلام حسین اسماعیلی صاحب پر یورپی یونین نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اُن پر مبینہ طور پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے ایک عشرہ قبل ایرانی جیل خانہ جات کا انچارج ہونے کے دوران " سنگین انسانی حقوق کی پامالی " کی تھی۔
ایرانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس تہمت کو سرے سے مسترد کرتی ہے۔ نئے ایرانی صدر نے 9اگست 2021 کو ایک ایسے شخص کو تہران کا میئر مقرر کیا ہے جس کے بارے میں ہر کسی کا کہنا ہے کہ وہ " سخت مزاج اور الٹراکنزرویٹو" ہیں۔ ان صاحب کا اسمِ گرامی علی رضا زکانی ہے۔ نئے ایرانی صدر نے سخت مزاج حسین امیر عبداللہیان کو ایران کا نیا وزیر خارجہ نامزد کیا ہے۔ امریکا حسین امیر عبداللہیان سے پہلے ہی ناراض ہے لیکن نئے ایرانی صدر نے امریکی ناراضی کی کوئی پروا نہیں کی ہے۔
یہ فیصلے اور اقدامات زبانِ حال سے یہ کہنے کے لیے کافی ہیں کہ نَو منتخب ایرانی صدر نے امریکا کو للکارا ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے فیصلوں میں مردِ آزاد ہیں۔ ان فیصلوں پر امریکی انتظامیہ کا کسمسانا ایک فطری بات ہے۔ گویا ابراہیم رئیسی آتے ہی خود امریکا کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔ نئے ایرانی صدر سے روس اور چین کے اعلیٰ ترین حکام جس پُر جوش طریقے سے ملاقاتیں اور مذاکرات کررہے ہیں، امریکا کے اعصاب ان مناظر سے بھی تڑخ رہے ہیں۔ نَومنتخب ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں یورپی یونین کے کچھ ذمے داران بھی شریک نظر آئے۔
امریکی انتظامیہ نے اس شرکت پر ناراضی اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی اور بعض طاقتور یورپی ممالک نئے ایرانی صدر اور ایران کا گھیراؤ کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگست 2021 کے پہلے ہفتے ہی ایران پر امریکا اور برطانیہ نے کھل کر الزام لگایا کہ اومان (Oman) کے ساحل پر ایک اسرائیلی بحری جہاز پر جو ڈرون حملہ ہُوا ہے، یہ کارستانی ایران کی تھی۔ ایران نے اعلیٰ سرکاری سطح پر سختی کے ساتھ اس الزام کو لغو اور بیہودہ قرار دیا ہے۔
13اگست 2021کو امریکا نے معروف اومانی تاجر، محمود راشد امر الحبسی، اور اُن کی تمام کمپنیوں پر تجارتی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ محمود راشد پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ خفیہ طور پر ایران سے تیل کی تجارت کررہے تھے جس سے ایران کو مطلوبہ مالی فوائد مل رہے تھے۔ امریکا اور برطانیہ کے عالمی ہتھکنڈوں پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سنگین الزا مات ایران اور نئے ایرانی صدر کو اپنے ڈھب پر لانے کی تزویراتی تیاریاں ہیں لیکن یاد رکھا جائے ایران کسی کے لیے لقمہ تر نہیں بن سکتا۔ پاکستان کی مانند افغانستان کی تازہ ترین ابتر صورتحال بھی ایران اور نئے ایرانی صدر کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔