Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Khoobsurat Qeemti Libas Aik Junoon

Khoobsurat Qeemti Libas Aik Junoon

خوبصورت قیمتی لباس ایک جنون‎

اورئینٹل کالج میں ہمارے ایک بہت بہترین سلجھے ہوئے استاد ڈاکٹر زاہد منیر عامر تھے۔ بظاہر بڑے سیدھے سادھے معصوم لگتے تھے۔ مگر جوتے کو مخمل میں لپیٹ کر مارنے کے ہنر سے بخوبی واقف تھے۔ اگرچے اپنی اس صلاحیت کا اظہار آخری حد پر جا کر کرتے تھے۔ میرے اورئینٹل کالج کے بہت سے اساتذہ میں یہ ہنر اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

استادِ محترم زاہد منیر عامر صاحب نے جماعت میں ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ کسی کی شخصیت کے بارے میں اندازہ لگانے کے لئے اس کے زیب تن لباس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟ سب لڑکے لڑکیوں نے مختلف جواب دئیے۔ مجموعی طور پر جواب تھا کہ لباس انسان کے ذوق، اس کی امارت، معاشرے میں اس کے مقام کا متعین کرتا ہے۔ بعض طالب علموں نے تو ذہانت کو بھی عمدہ لباس کا مرہون منت قرار دے دیا۔ غرض لباس کو شخصیت کا ایک اہم جزوِ کہا گیا۔

استاد محترم نے پوری توجہ سے ٹوکے بغیر ہر طالب علم کی مکمل بات سنی اور آخر میں کہا کہ لباس سے آپ بیان کردہ کسی بھی شے کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کیوں کہ شخصیت جب سنجیدگی اور متانت کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بلندی پر جانا شروع ہوتی ہے تو اس کے مضبوط ہونے کی ایک علامت قیمتی لباس سے بے پرواہی ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ میں صرف قیمتی لباس کی بات کر رہا ہوں۔ گندے اور میلے کچیلے لباس کے حق میں دلیل نہیں دے رہا۔ ہم سب ہنس پڑے۔

بظاہر ایک معمولی سی بات، لیکن یہ کسی بھی معاشرے کے افراد کی ذہنی پرواز کا بتاتی ہے۔

پاکستانی معاشرے پر غور کریں۔ آپ کو ہر طرف برینڈز کی ایک دوڑ نظر آئے گی۔ ہم عام عوام کو دیکھ لیں۔ پہلے جب کوئی اچھا لباس پہنتا تھا تو اسے سراہا جاتا تھا۔ زیادہ بے تکلفی ہوتی تھی تو قیمت کے ساتھ دکان کا بھی پوچھ لیا جاتا تھا۔ مگر اب ہر کوئی برینڈ پوچھتا ہے اور جتنا لباس مہنگا ہوتا ہے، اس کا دکھاوا برینڈ کے نام سے ہی ہو جاتا ہے۔

اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سنیں۔ میری بھتیجی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک مشہور فرنچائز اسکول میں جاب کرنے لگی۔ ایک مرتبہ نیا سوٹ پہن کر گئی۔ تو کوارڈینیٹر نے پوچھا کس کا ہے؟ اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا میم میرا ہے۔ بعد میں ساتھی کولیگز نے ہنستے ہوئے سمجھایا کہ برینڈ کا نام بتانا تھا۔

بظاہر یہ ایک بیوقوف اور معصوم بچی کی بیوقوفی نظر آتی ہے۔ مگر یہ اس ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ جو ایلیٹ کلاس سے نکل کر متوسط طبقے میں بہت خاموشی سے سرائیت کر گئی ہے۔

ہم لباس کو حد سے زیادہ فوکس کرنے لگ گئے ہیں۔ کیوں کہ ہماری شخصیت کمزور ہوگئی ہے۔ ہمارے ذہن شکوک و شبہات، نفرت اور تقسیم کا شکار ہو چکے ہیں۔ بدلے کی آگ نے ہمارے ضمیر کو جھلسا دیا ہے۔ یہ ضمیر صرف سانس لے رہا ہے۔ مگر کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا۔

لوگوں کے پاس سردی میں تن ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس خریدنے کی ہمت نہیں۔ پاکستان کے کروڑوں بچے مناسب خوراک نا ملنے کی وجہ سے بیماریوں کا شکار بن رہے ہیں۔ مگر ہم نوٹوں کی گڈیاں فضا میں اڑاتے ہیں اور وہ نظارے عام عوام کو کروا دیتے ہیں۔ جو صرف "مخصوص مقامات" پر مخصوص "اشرافیہ" کے ہی نصیب میں ہوتے ہیں۔ جن غریبوں کی زندگی کی ایک ایک گھڑی مشکل سے جوڑ توڑ کرتی گزرتی ہے۔ ہم انھیں بتاتے ہیں کہ کروڑوں میں خریدی ہوئی گھڑیوں سے ہم وقت کو اپنی کلائی پر باندھ سکتے ہیں۔ چاند سے پتھر لا کر اپنی گھڑی میں جڑ سکتے ہیں۔ ہماری قوم کے بچے سگنلز پر بھیک مانگتے ہیں اور ہم نکاح یافتہ عورت کو نا جانے کیا سمجھ کر، اس پر سے ہزاروں روپے وار کر پھینک دیتے ہیں۔

کسی سے کیا گلہ کریں۔ اپنے حکمرانوں کو دیکھ لیں۔ ہر جماعت کے رہنماؤں پر نظر دوڑائیں، چند ایک کے علاؤہ کوئی بھی عام عوام، یا ان سے قریب تر ہی لباس پہنے نظر آتا ہے؟

اینکر پرسنز، صحافیوں کو دیکھ لیں۔ جون کی گرمی میں جب عام عوام سے سانس لینا مشکل ہوتا ہے۔ ان کے کوٹ اور ٹائی نہیں اترتے۔

میں حیران ہوتی ہوں، یہ کس منہ سے غریب عام عوام کی فکر یا بات کرتے ہیں۔ اپنے لیڈرز کو خوش کرنے کے لئے بڑے بڑے جلسے منعقد کرنے والے وفادار کارکنان، عام عوام کے لیے صرف بھیک اور زکوٰۃ پی کیوں نکالتے ہیں؟

ایک خاکی یونیفارم پہنے، خون و خاک میں ڈوبا ہوا ماں کا شہزادہ، جواں سال بیٹا جو شہادت حاصل کرتا ہے۔ ہماری حفاظت میں جان سے ہی گزر جاتا ہے۔ کیا ان کے جزبات یا خواہشات نہیں ہوتی ہیں؟ ایک بد زبان، گلی کے تھڑے پر بیٹھنے والا ٹک ٹاکر ہماری نئی نسل کا ہیرو بن جاتا ہے۔

آخر اس معاشرے کو کہاں لے جایا جارہا ہے؟

اس نمود و نمائش کا کوئی اختتام ہے؟ نعوذباللہ من ذالک ہم نے دین کو بھی ہنسی مذاق بنا لیا ہے۔ یہ نا ہو کہ دراز رسی کھیچنے کا وقت آ پہنچے اور پھر گہیوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے۔

خدارا قیمتی لباس کو ایک جنون نا بنائیں۔ یہ اگر اتنی اہمیت کا حامل ہوتا تو کفن کورے لٹھے کا بے رنگ نا ہوتا اور بہت سے صحابہ اکرامؓ کو اس کی بھی استطاعت نا رکھنے کی وجہ سے تن کے کپڑوں میں سپرد قبر نا کیا جاتا۔

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood