Siyah Heeray
سیاہ ہیرے
کسی بھی جاننے والے کی کتاب کے اوپر تبصرہ کرنے لگو تو "نیپوٹزم" کا ٹیگ منہ کھولے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ جو بھی بندہ ایسی کوئی بات کرتا ہے میں اسے جواباً ایک ہی بات کہتا ہوں، بھائی پہلے آپ یہ کتاب پڑھ لو پھر مجھ پر اعتراض اٹھانا کہ میں نے کسی فضول کام کی تعریف کی ہے۔ الحمد للہ آج تک اس بات کا جواب کوئی نہیں دے سکا۔
آج جس کتاب پر میں تبصرہ کرنے لگا ہوں وہ ثمینہ نذیر کے قلم کا شاہکار ہے جن کا مفصل تعارف میں پہلے ایک پوسٹ میں کروا چکا ہوں، تو آیئے ڈایئرکٹ کتاب پر بات کرتے ہیں۔
کسی بھی ناول کی بنیاد اس کا پلاٹ ہوتا ہے۔ پلاٹ جتنا جاندار ہوگا کہانی اتنے ہی انہماک سے قاری کو خود سے جوڑے رکھتی ہے۔ اگر اس ناول کے پلاٹ کی بات کی جائے تو وہ پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوبصورت تھا۔ 1994 سے شروع ہونے والے واقعات کبھی 1952 میں جا گھستے اور کبھی 1805 میں جا سر نکالتے۔ کبھی کہانی کا رخ افریقہ کے ساحلوں، جنگلوں، کلبوں کی طرف ہوتا تو کبھی دھم سے کراچی کی مارکیٹیں اور بازار بیچ میں آ دھمکتے۔
کرداروں نے ایک دوسرے میں پوری طرح ضم ہونے کے باوجود اپنی اپنی شناخت کو برقرار رکھا جو کہ میرے نزدیک مصنف کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر میں اس کتاب کے پلاٹ کو تشبیہ دینا چاہوں تو افریقی خواتین کے گندھے بالوں سے بہتر کوئی تشبیہ ہو ہی نہیں سکتی۔ جس طرح اُن کی چٹیا میں بالوں کی لٹیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہوئے بھی اپنی خوبصورتی برقرار رکھتی ہیں بعینہ اس کتاب کے واقعات بھی گنجلک ہونے کے باوجود قاری کی توجہ کو ذرہ برابر بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔
اگر کتاب کی زبان کی بات کی جائے تو مصنفہ نے انتہائی سادہ اور شستہ اردو میں تمام واقعات کو بیان کیا ہے۔ شائستگی کے باوجود غنڈے موالیوں کی زبان کا تڑکا کہیں کہیں دیکھنے کو مل جاتا ہے جو کہ کردار کی جان کو مزید مستحکم کر دیتے ہیں۔
بہت سی نئی تراکیب کا مصنفہ نے اضافہ کیا ہے جو کہ اردو زبان میں انتہائی خوشنما اضافہ ہے۔ چند ایک کا تعارف میں یہاں آپ سے کروانا چاہوں گا۔
"ایک بلیک اینڈ وائٹ سا کاغذی نقشہ یکایک بڑا ہوتے ہوئے پہلے دینا، پھر یورپ، پھر فرانس اور پھر پیرس میں تبدیل ہوگی"۔
"ابا نام کا خچر سامان ڈھو رہا تھا"۔
"کوکھ میں ادھ سینچے بچے تک ناچ رہے تھے"۔
"زندگی کب اپنی مرضی سے چلتی ہے اسے قسمت کا پہیہ اور قدرت کا ایندھن بھی تو درکار ہے"۔
"بوسہ کسی بند مکان کی کھوئی ہوئی چابی کی طرح ہوتا ہے"۔
اب آتے ہیں کہانی کے مین کردار "سلیمے" کی طرف جس نے کراچی میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں آنکھ کھولی اور بڑے بڑے خواب سجائے افریقہ کی سر زمین پر جا اترا۔ قسمت کیسے ایک دو کوڑی کے ملازم کو دنیا کے بڑے بڑے سیٹھوں کے بیچو بیچ لے جا کھڑا کرتی ہے وہ سب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور وہاں پہنچنے کے بعد اس کی لالو کھیت کی ٹریننگ کیسے اس کا مقام مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے، وہ سب ایک الگ ہی کہانی ہے۔
"بلو" سلیمے کا استاد اور کہانی کا ایک بہت جاندار کردار مگر افسوس اسے بہت جلد منظر سے ہٹا دیا گیا حالانکہ اسے بہت آگے تک لے جایا جا سکتا تھا۔ خیر بلو تو نہ رہا مگر اس کا ٹرینڈ شدہ سلیما کیسے کیمبرج پڑھے سیٹھ بچوں کے کان کاٹتا رہا، بلو کی کمی ایک دم پوری کر گیا۔
سلیم جو حور شمائل کی بیوفائی کا دکھ لیے افریقہ اترا تھا، کیسے افریقی نگینوں سے اس کا بدلہ لیتا رہا۔ اس کے رستے زخم بار بار کھلتے رہے بار بار مندمل ہوتے رہے۔
افریقہ کی حسیناؤں کا ذکر نہ کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ پھر چاہے وہ امیناٹا ہو، فاطماٹا ہو، جارائی ہو، نی نی فاتا ہو یا حلیمہ۔ ان سب نے نہ صرف سلیم کی زندگی کے بہت سے گوشوں کو اجاگر کیا اس کے علاوہ اپنی الگ شناخت بھی کہیں نہیں کھوئی۔
ایک اور بحث جو اس کتاب میں آپ کو بارہا پڑھنے کو ملے گی وہ "کلچر اور مذہب" کی بحث ہے۔ یہ چونکہ فلسفیانہ بحث ہے اس لیے میں ادھر اس پر زیادہ بات نہیں کرتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے یہ پتہ چل گیا کہ "اسلام" برصغیر پاک و ہند سے باہر کلچر اور مذہب کو الگ الگ ٹریٹ کرتا ہے۔
آخر میں اس کتاب کی ایک عبارت کا سہارا لیتے ہوئے اپنا تبصرہ ختم کروں گا کہ جیسے امیناٹا وحشی ہرنی کی طرح ناچتی تھی اور اس کی آنکھوں سے ایک حیوانی وحشت نمایاں تھی، مصنفہ نے یہ ناول بھی ایسی ہی سپردگی اور بے خودی کے عالم میں لکھا ہے جو کہ اس کتاب کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔