Janaze
جنازے
ہمارا مذھبی طبقہ جنازوں کے حوالے سے خاصا سے اتھر واقع ہوا ہے، جنازوں سے ہی اگلے کی آخرت کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے، بے چاروں کے ہتھے امام احمد کا ایک قول چڑھ گیا ہے "ہمارے اور تمھارے درمیان حق کا فیصلہ جنازے کیا کریں گے"۔
اگر جنازوں سے فیصلہ ہونا ہوتا تو پھر چیئرمین ماؤزے تنگ کے "جنازے" میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی تھی، ابرہام لنکن کا جنازہ اتنا بڑا تھا، تابوت ٹرین میں رکھ کر واشنگٹن سے لے جایا گیا تو کئی میل لمبی لوگوں کی لائن لگی تھی سلامی دینے کے واسطے۔
گاندھی کا کریا کرم ملاحظہ کیجیے، لاکھوں کا ہجوم دہلی میں ہے، جو باپو کو الوداع کہنے آیا ہے۔
مسلمان تو ویسے بھی خدائی پٹوار خانے سے اراضی جنت کے مالکانہ حقوق لکھوا کر لائے ہیں تو کیا مجال کسی اور کو اس میں گھسنے دیں۔
اگر آخری رسومات میں لوگوں کی شرکت سے فیصلے کرنے ہیں تو پھر مائیکل جیکسن جنت کے شیش محل میں بریک ڈانس کر رہا ہوگا جس کے فینورل میں ہزاروں لوگوں شریک ہوئے تھے، کیا خدائی پٹوار خانے کے پٹواری ملاں اسے برحق تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔
جہاں یہ گپ چھوڑی جاتی ہے امام احمد بن حنبل کے جنازے میں بیس لاکھ لوگ شریکِ ہوئے تھا اور فقط جنازے کو دیکھ کر ہی بیس ہزار غیر مسلم مسلمان ہو گے۔
وہ یہ کیوں نہیں بتا پاتے گاندھی کے "جنازے" میں لاکھوں شرکاء کو دیکھ کر ایک ہندو بھی مسلمان کیوں نہ ہؤا، مولانا مودودی کے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے جنازے کو دیکھ کر ہزار تو چھوڑ بیس سلفی بھی جماعت اسلامی میں نہیں آئے، خادم رضوی کے اتنے بڑے جنازے کو دیکھ کر غیر مسلم تو چھوڑئیے ایک وہابی مسلک والا ایک بھی اپنا مسلک چھوڑ کر بریلوی نہیں ہوا، وہاں بیس ہزار غیر مسلموں کو کیا آن پڑی تھی کہ احمد بن حنبل کے جنازے کو دیکھ کر اپنا مذھب چھوڑ بیٹھیں۔
ابھی ایک اور نیا شگوفہ یہ آیا ہے کہ ایک خاتون ٹک ٹاکر کا جنازہ پڑھانے سے مولویوں نے انکار کر دیا، کمال ہے، طوائف اور خواجہ سراؤں کے جنازے پڑھانے سے بدکنے والوں نے اب اپنی بلیک لسٹ میں ایک اور طبقہ بھی شامل کر لیا۔
اس سے دہلی کے مولوی عبد السلام نیازی یاد آگے، مولانا کسی کے جنازے میں شرکت نہیں کرتے تھے، جب ان کا نواسہ فوت ہوا تو لوگوں نے اطلاع دی حضرت جنازہ تیار ہے۔
مولوی صاحب نے کہا "جاؤ جا کے دفن کرو، کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے اور کی لگی بس میں اور اپنی لگی تن میں"۔
ایک شخص نے کہا حضرت یہ وقت تو سب پہ آنا ہے۔
مولوی صاحب نے پھنکارتے ہوئے کہا "جب میں مر جاؤں تو میری نعش کتوں سے پھڑوانا، وہ اسے سارے شہر میں گھسیٹتے پھریں، مجھے کیا سناتے ہو"۔
مولوی عبد السلام نیازی کس پائے کی ہستی تھے یہ تو پھر کسی تحریر میں بیان ہوگی۔ فی الحال کے لیئے اتنا ہی کافی ہے۔