معاشی ترقی، حکومتی دعوے اور مہنگائی کی یلغار
من موہن سنگھ بھارت کے ممتاز ترین ماہرِ اقتصادیات ہیں۔ انھوں نے اوکسفرڈیونیورسٹی سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ بھارت کے چیف اکانومسٹ بھی رہے اور وزیر خزانہ بھی۔ دوبار بھارتی وزیر اعظم بھی منتخب کیے گئے۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ نے وزیر اعظم کی حیثیت میں جب اپنا پہلا قومی بجٹ پیش کیا تو بھارتی ترقی کے بلند بانگ دعوے کیے۔ ان دعووں کو سچا ثابت کرنے کے لیے من موہن سنگھ کے میڈیا ترجمانوں اور سرکاری ہر کاروں نے خوب شور مچائے رکھا تھا۔ ایسے میں ایک معروف بھارتی اخبار کی خاتون رپورٹر وزیر اعظم من موہن سنگھ کی اہلیہ محترمہ کے پاس پہنچیں اور اُن سے ایک سادہ سا سوال پوچھا:" کیا واقعی من موہن سنگھ صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بھارت معاشی طور پر بے پناہ ترقی کررہا ہے؟ "۔ سادہ مزاج اور سچی باتیں کہنے والی بھارتی خاتونِ اوّل، گور شرن کور، نے ترنت کہا:" پتہ نہیں من موہن سنگھ جی کس بھارتی معاشی ترقی کی باتیں کررہے ہیں؟ مَیں تو جب بھی سودا سلف لینے بازار جاتی ہُوں، مجھے تو پہلے سے بھی زیادہ مہنگی چیزیں ملتی ہیں۔"
بھارتی معاشی ترقی کے دعوؤں کا بھانڈا بھارتی وزیر اعظم کی گھر والی نے بیچ چوراہے پھوڑ دیا تھا۔ یہ تاریخی واقعہ آج ہمیں اس لیے بھی یاد آ رہا ہے کہ پچھلے دو تین ہفتوں سے ہماری موجودہ حکومت نے ایک تسلسل کے ساتھ ڈھول پیٹنا شروع کررکھا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا پہیہ تیزی سے آگے کی جانب رواں ہو چکا ہے اور یہ کہ پاکستان کی جی ڈی پی جو کچھ ماہ پہلے تک ڈیڑھ فیصد تک گنوائی جا رہی تھی، اچانک 3.9 تک پہنچ گئی ہے۔
بجٹ کی آمد آمد کے موقع پر ان حکومتی دعوؤں میں خاصی تیزی آ گئی ہے۔ پہلے تو ہمارے وزیر اعظم صاحب نے یہ دعویٰ نہائت بلند آہنگ سے کیا اور پھر اُن کے تتبع میں حکومتی وزیروں، مشیروں اور لاتعداد ترجمانوں نے کورس کی شکل میں یہ بیانات دینے شروع کر دیے کہ ہماری جی ڈی پی 4کے ہندسے کو چھُو رہی ہے۔ ان دعوؤں کی اصلیت اور حقیقت کیا اور کتنی ہے، یہ قلعی اُس وقت کھلتی ہے جب ایک غریب پاکستانی بازار میں سودا سلف لینے نکلتا ہے۔ اور بازار سے واپسی پر" حکومتی معاشی ترقی" کے دعوؤں کے حوالے سے اُس شہری کا بھی وہی جواب ہوتا ہے جو بھارتی وزیر اعظم کی سادہ مزاج پتنی نے مبینہ بھارتی ترقی بارے پوچھے گئے خاتون صحافی کے سوال میں دیا تھا۔
بلند اقبال وزیر اعظم جناب عمران خان اور اُن کے بلند آہنگ وزیر مشیرملک کی مبینہ معاشی ترقی کے بارے میں کیے گئے دعوؤں میں ممکن ہے سچے ہی ہوں مگر اس مبینہ ترقی کا اصل پیمانہ تو عوام کالانعام ہیں۔ نہ تو وزیر اعظم صاحب تھیلا پکڑے بازار میں سودا سلف لینے نکلتے کبھی دیکھے گئے ہیں اور نہ ہی اُن کے وزیرو مشیر اور ترجمان۔ ان سب کو حکومتی خزانے سے بھاری سرکاری مراعات حاصل ہیں اور اُن کے ذرایع آمدن بھی محدود نہیں ہیں۔
مہنگائی کے عذاب کی حدت تو ان مقتدرین کے قریب سے بھی نہیں گزرتی۔ پھر انھیں عوامی مسائل اور مصائب کا احساس و ادراک ہو تو کیونکر؟ جو شخص مہنگائی کی تپتی ہُوئی بھٹّی ہی سے نہیں گزرتا، اُسے کیا پتہ مہنگائی اور گرانی کس بلا کا نام ہے؟ یہ بلا تو جن لوگوں کا خون دن رات چوستی ہے، اُن کے احساسات و بیانات کی کرلاہٹ شائد ہمارے حاکم طبقات کے کانوں تک کبھی نہیں پہنچتی۔ ملک کی مبینہ اور نام نہاد معاشی ترقی کے ثمرات اگر ایک عام شہری تک نہیں پہنچ پارہے تو ایک عام پاکستانی شہری حکومت کے ان دعوؤں کو کیسے اور کیونکر قبول کر سکتا ہے؟
ایک عام پاکستانی شہری جو اخبار پڑھتا اور ٹی وی دیکھتا ہے، پچھلے چند ہفتوں کے دوران حکومت کے ان مسلسل دعوؤں کو سُن کر حیرت میں مبتلا ہے کہ اچانک کیوں اور کیسے وطنِ عزیز نے معاشی ترقی کے "قابلِ فخر " اعشارئیے زقندوں اور چھلانگوں سے طے کرنے شروع کر دیے ہیں؟ اور عوام کالانعام ہیں کہ ان" مثبت ترین" اور "قابلِ فخر" معاشی ترقی کے اعشاریوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں نہ مستفید۔ معاشی ترقی کے یہ دعوے پوری اپوزیشن کے نزدیک بھی قابلِ قبول نہیں ہیں۔ مبینہ قومی معاشی ترقی، جسے سرکار کے پڑھے لکھے لوگ پُراسرار اصطلاحGDPکے نام سے یاد کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، کی ٹھنڈک ایک عام پاکستانی شہری تک کیوں نہیں پہنچ پا رہی؟ وزیر اعظم صاحب کے نزدیک معاشی ترقی کا پیمانہ یہ ہے کہ " ملک میں اِس بار لوگوں نے ٹریکٹر زیادہ تعداد میں خریدے ہیں، کھاد بھی زیادہ مقدار میں فروخت ہُوئی ہے، کاریں بھی زیادہ تعداد میں بِکی ہیں۔"
ماشاء اللہ۔ یہ تو مدتوں قبل فرانسیسی شاہی خاندان کے اُس فرد کے اُن تاریخی الفاظ کے مشابہ بیان ہے جس نے فرانسیسیوں کو بھوک کے مارے مظاہرے کرتے دیکھا تو کہا تھا:" اگر ان لوگوں کو روٹی نہیں ملتی ہے تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ " اے حاکمو، کیا آپ یہ بتانے کا تکلف کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک ِ پاکستان میں اُن لوگوں کی تعداد کتنی ہے جو ٹریکٹر اور کاریں خریدنے کی ہمت اور استطاعت رکھتے ہیں؟ اوراگر ملک میں معاشی ترقی ہو رہی ہے تو پھر مہنگائی کا جنّ قابو میں کیوں نہیں آ رہا؟ یہ سادہ سی بات ہمارے مقتدر طبقات کی سمجھ سے بالا کیوں ہے کہ ایک عام شہری تب ہی چیختا ہے جب ذرایع آمدن سکڑ گئے ہوں اور قوتِ خرید محدود تر ہو چکی ہو۔
2جون2021کو پاکستان بیوروآف شماریات (جو ایک سرکاری اور مستند ادارہ ہے) نے بیان دیا ہے کہ مئی 2021 میں بھی مہنگائی نے ایک عام شہری کو بے حال کیے رکھا۔ حیرت ہے کہ "پاکستان بیورو آف شماریات" کے کانوں تک حکومتی معاشی ترقی کے دعوؤں کی بازگشت کیوں نہ پہنچ سکی؟ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، باقر رضا، کا بیان بھی دو جون ہی کو میڈیا کی زینت بنا ہے: " مہنگائی کا جتنا اندازہ تھا، اُتنی ہی ہو رہی ہے۔" سبحان اللہ، کیا بیان ہے! کیا ہی اچھا ہوتا کہ باقر رضا صاحب یوں بیان دیتے: اِس حکومت نے مہنگائی کی شرح اتنے فیصد عملی طور پر کم کر کے دکھا دی ہے۔
یا کم از کم ایسا بیان ہی دے دیتے جو غربت اور عسرت کے مارے ایک عام پاکستانی کے لیے حوصلہ افزائی ہی کا سبب بن جاتا۔ ایک وفاقی وزیر صاحب بھی اپنے وزیر اعظم صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے یوں گویا ہُوئے ہیں:مہنگائی بڑھی ہے لیکن قوتِ خرید میں بھی اضافہ ہُوا ہے۔ خوب۔ مناسب ہوتا کہ موصوف یہ بھی چلتے چلتے بتا دیتے کہ وہ کونسا طبقہ ہے جس کی اس کمر شکن مہنگائی کے دَور میں بھی قوتِ خرید میں اضافہ ہُوا ہے؟ نون لیگ کے ایک رہنما، مفتاح اسماعیل، نے اس کے جواب میں شائد بجا ہی کہا ہے کہ " عوام کی آمدنی میں کمی آئی ہے جب کہ وزیروں کی آمدنی بڑھ گئی ہے۔" گزشتہ روز ایک اعلیٰ ترین عدالتی شخصیت نے خیبر پختونخوا حکومت کو مخاطب کرتے ہُوئے جو الفاظ ادا فرمائے ہیں، اُن سے بھی عیاں ہو گیا ہے کہ ہماری قومی معیشت کی ترقی کے دعوؤں کی حقیقت کتنی ہے۔
جس ملک میں سرکاری محکموں کی تنخواہیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر ادا کی جارہی ہوں، اُس ملک کی معاشی ترقی کے دعوے چہ معنی دارد؟ اور اب وزیر اعظم صاحب نے نیا ارشاد فرمایا ہے کہ "اگلی بار بھی ہمیں حکومت ملی تو ملک اور عوام دن دگنی، رات چوگنی ترقی کریں گے۔" اور عوام ہیں کہ ابھی سے اس بیان پر کانپنے لگے ہیں۔