ایوانِ بالا کے الیکشن: بالادستوں کا شغل؟
کل کا دن چھوڑ کر پرسوں پاکستان کے ایوانِ بالا میں انتخابات کا میدان لگے گا۔ کچھ نئے چہرے پہلی بار ایوانِ بالا کی زینت بنیں گے اور کچھ وہ چہرے مہرے پھر سامنے آئیں گے جو گزشتہ کئی برسوں سے کئی بار ایوانِ بالا کے رکنِ رکین بنتے آ رہے ہیں۔ سینیٹ کے لیے پنجاب میں تو نون لیگ، پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے گیارہ ارکان بلا مقابلہ منتخب بھی ہو گئے ہیں۔
اس کے باوصف 3مارچ 2021 کا سینیٹ الیکشن پاکستانی سیاسی و اقتداری تاریخ کا سب سے مشکل اور پُر آزما چناؤ ہوگا۔ وزیر اعظم جناب عمران خان کو بھی احساس ہورہا ہے کہ سینیٹ میں کامل فتح کا حصول اتنا سہل نہیں ہے۔ سینیٹ کے ان انتخابات سے قبل سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب کے تازہ ترین نصف درجن سے زائد ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو جس طرح شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس نے بھی پی ٹی آئی قیادت کے اعصاب پر یقیناً دباؤ ڈالاہوگا۔ ڈسکہ میں ضمنی انتخاب کے نتائج کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ بھی حکومت کوناراض کر گیا ہے۔
جھرلو کے انسداد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہ اصولی فیصلہ بھی مستحسن قرار پایا ہے کہ " صدر اور صوبوں کے گورنرز سینیٹ انتخابات سے متعلق کسی بھی طرح کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیں گے۔ اپنے متعلقہ گھروں اور دفاتر کو اس حوالے سے استعمال نہیں کریں گے۔" سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے جو نام فائنل ہو کر ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ زبانِ حال سے ہم سب کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے ایوانِ بالا میں پہنچنے کی تگ و دَو کرنے والے یہ لوگ اکثریت میں ہمارے سماج کے بالادست طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔
پھر پاکستان کے زیر دست اور متوسط طبقات کے مفادات اور آدرشوں کی بات کون کرے گا؟ روزی روٹی کی فکر میں غلطاں و سرگرداں ایک عام پاکستانی کو بھلا سینیٹ کے ان انتخابات سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ایسے میں ہمیں پچاس سال قبل اے آر شبلی کی لکھی گئی مشہور کتاب "پاکستان کے دیہہ خدا" یاد آتی ہے۔ مصنف شبلی نے حقائق اور اعدادو شمار کی بنیاد پر "پاکستان کے دیہہ خدا" میں اپنے قارئین کو بتایا تھا کہ وہ جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار کون اور کتنے ہیں جن کے "دستِ قدرت" میں پاکستان کی اکثریتی غریب اور بے نوا آبادی محض غلام بن کر رہ گئی ہے۔ آج2021کا منظر پچھلے پچاس برسوں کے مقابلے میں زیادہ بھیانک ہے۔
"دیہہ خداؤں "کا ذِکر علامہ اقبال ؒ کے ایک شعر میں بھی ملتا ہے:"دیہہ خدایا، یہ زمیں تیری نہیں، میری نہیں /تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں "۔ ہماری سیاست و صحافت کے کئی لوگ "پاکستان کے دیہہ خدا" نامی کتاب کانام بھی ممکن ہے بھول گئے ہوں لیکن یہ واقعہ ہے کہ آج بھی "پاکستان کے دیہہ خدا" ہی ملک اور سماج پر قابض ہیں ؛ چنانچہ امیر جماعتِ اسلامی، سراج الحق، کا یہ کہنا نہایت درست معلوم ہوتا ہے:"پاکستان میں تقریباً600 خاندانوں کی حکومت ہے جنھوں نے ملکی وسائل پر قبضہ کرکے عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کررکھا ہے۔
پنجاب میں سینیٹرز کے چناؤ کے لیے دو بڑی پارٹیوں کا مفاد پرستانہ مُک مکا پوری قوم نے دیکھ لیا ہے…" یہی لوگ اکثریت میں ایوانِ بالا کے رکن بنتے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اُن افراد کی اکثریت نظر آتی ہے جو بے کسوں، مزدوروں اور غریبوں کے خون سے اپنا چراغِ اقتدار روشن کرتے ہیں۔
سینیٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے خواہشمندوں میں چند ایک ہی نام ایسے سامنے آئے ہیں جن کا تعلق بے زروں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر صاحب۔ اُن کی بے سروسامانی کا یہ عالم نکلا ہے کہ جس روز اُنہوں نے سینیٹ کے لیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کے ساتھ متعینہ فیس سرکاری خزانے میں جمع کروانی تھی، اُن کے پاس مطلوبہ رقم ہی نہیں تھی۔
ساتھیوں نے چندہ کرکے فیس کی رقم اکٹھی کی۔ ہمارے محبوب وزیر اعظم عمران خان صاحب سینیٹ میں نوٹوں کی طاقت سے پہنچنے کی خواہش رکھنے والوں کا جو ذکر بار بار فرمارہے ہیں، اس بیان کی موجودگی میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز کے ایوانِ بالا میں کوئی ہما شما پاکستانی پہنچنے کا خواب بھی دیکھ سکتا ہے؟ سندھ سے پی ٹی آئی کے ایک معروف رہنما، لیاقت جتوئی، نے سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم پر جو سنگین تہمت لگائی ہے۔
سُن کرسب انگشت بدنداں ہیں ؛ چنانچہ نون لیگ کے ایک رہنما، عطاء اللہ تارڑ، کا یہ بیان خاصا معنی خیز ہے:" لیاقت خٹک(وزیر دفاع کے بھائی) سے لیاقت جتوئی(سابق وزیر اعلیٰ سندھ) تک سامنے آنے والی کہانی بہت دردناک ہے۔" ایک صاحب نواز شریف کے تعاون سے بلا مقابلہ منتخب ہو کر پانچویں بارسینیٹ میں پہنچ گئے ہیں۔ ایک ایسے خوش بخت بھی ہیں جو رکنِ قومی اسمبلی ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سینیٹ کا رکن بننا چاہتے ہیں۔ سینیٹ میں کوئی ایسی دلفریب اور دلکش بات تو یقیناً ہے کہ یہ ایوان پاکستان کے طاقتوروں اور بے پناہ دولت مندوں کو مقنا طیس کی طرح اپنی جانب کھینچے جا رہا ہے۔
ایوانِ بالا کے انتخابات سے قبل نون لیگ کو کچھ تازہ دھچکے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر نون لیگی سینیٹر جناب مشاہداللہ خان کا سینیٹ انتخابات سے دو ہفتے قبل انتقال اور مشہور نون لیگی سینیٹر جناب پرویز رشید کو سینیٹ کے کھیل سے آؤٹ کرنا۔ ہماری سینیٹ جہاں "پاکستان کے دیہہ خدا" اپنی دولت کے بَل پر غالب و کارساز بنے بیٹھے ہیں، وہیں مشاہدا للہ خان اور پرویز رشید کا شمار حقیقی کارکن اور بے زر سینیٹروں میں ہوتا تھا۔ آخری وقت میں پرویز رشید کا میدانِ سینیٹ سے آؤٹ کیا جانا نون لیگ کے لیے بڑے صدمے کا باعث ہے۔
مشاہد اللہ خان نون لیگ کے نہایت وفادار اور جنگجو سینیٹر تھے۔ ایوانِ بالا میں دورانِ خطاب اپنے حریفوں پر اشعار کی زبان میں جھپٹنا اُن کی پہچان بھی تھی اور شعار بھی۔ نواز شریف کی محبت میں ایک بار اُنہوں نے بی بی سی سے مکالمہ کرتے ہُوئے ایک ایسی بات بھی کہہ دی جس نے مبینہ طور پر بعض خاص افراد کو ناراض کر دیا تھا۔ اس کی "پاداش" میں نواز شریف نے اپنے اس باوفا ساتھی سے وزارت کا قلمدان واپس لے لیا تھا لیکن مشاہداللہ خان نے نواز شریف سے اپنی محبت واپس نہیں لی۔ موت تک نون لیگ سے اُن کی وفاداری اور استواری میں کوئی کمی نہ آ سکی۔
اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ پرویز رشید کی وزارت بھی نواز شریف نے اُس وقت چھین لی تھی جب نون لیگ پر ادبار کے بادل چھا رہے تھے۔ اس کے باوصف پرویز رشید کی نون لیگ اور نواز شریف سے محبتیں پوری طرح قائم و دائم رہیں۔ و ہ بدستور نون لیگ کو فکری غذا فراہم کرتے رہے۔ اُنہیں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کا اعتماد حاصل رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مریم نواز کی خاص الخاص تقریروں کے اصل آرکیٹکٹ ہیں۔
اس پس منظر میں سینیٹ کے لیے پرویز رشید کے کاغذاتِ نامزدگی کا استرداد اور پھر الیکشن ٹریبونل کی طرف سے اپیل کا بھی مسترد کیا جانا دراصل مریم نواز کے لیے حقیقی نقصان دہ ثابت ہُوا ہے۔ اب پرویز رشید کی جگہ اگرچہ نواز شریف کے ایک اور بندہ خاص کی سینیٹ کے لیے لاٹری نکل آئی ہے لیکن بقول انشاء اللہ خان انشا: مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔