تحریک پاکستان کے عظیم رہنما علامہ جارچوی
قائداعظمؒ علامہ ابن حسن جارچوی کی شعلہ بیانی کے اتنے دلدادہ تھے کہ اپنے خطاب سے پہلے جلسے کے شرکاء کا خون گرمانے، ان میں جوش وجذبہ پیدا کرنے کے لیے لازمی علامہ صاحب سے خطاب کرایا جاتا۔ علامہ جارچوی کی تقریر کی تعریف قائداعظمؒ اکثر نجی محفلوں میں کیا کرتے تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے۔ وہ ان دو افراد میں سے ایک تھے جنہیں قائداعظمؒ نے کرپس مشن کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا تھا کہ اس مشن کو تخلیقِ پاکستان کا دینی پس منظر سمجھاسکیں۔ قائداعظمؒ کی زیر قیادت قیام پاکستان کے بعد علامہ ابن حسن پاکستان منتقل نہ ہوئے۔ مسلم لیگی رہنماؤں کے بے حد اصرار پر ان کا جواب تھا کہ ہم نے پاکستان کی جدوجہد اس لیے کی کے برصغیر کے مسلمانوں کو ایسا خطہ زمین میسر آجائے جہاں وہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ قائم کرکے آزادی سے اپنی مذہبی عبادات و رسوم ادا کرسکیں۔ الحمدﷲ ہمارا مقصد پورا ہو گیا، اب پاکستان میں آباد مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی معاشرہ قائم کریں۔
آپ 1948 سے 1951 تک شیعہ ڈگری کالج لکھنؤ کے پرنسپل رہے، اس دوران لکھنؤ یونیورسٹی، دارالتالیف محمودآباد، آل انڈیا شیعہ کانفرنس، شیعہ وقف بورڈ کے رکن بھی رہے، ہندوؤں کے متعصبانہ طرزعمل سے تنگ آکر آخرکار وہ پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور یکم اکتوبر 1951 کو پاکستان منتقل ہوگئے۔ ابن حسن جارچوی تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما ہونے کے ساتھ شیعہ و سنی مسلک کے محبوب خطیب بھی تھے۔ صدر کراچی میں واقع جہانگیر پارک میں ایام عزا کی مجالس کی بنیاد ڈالی، علامہ ابن حسن جارچوی نے ناصرف عزاداری قیام کی بلکہ باقاعدگی سے ہر سال ہندوستان سے تشریف لاکر مجالس سے خطاب بھی کیا کرتے تھے۔ پاکستان کی معیشت میں صدر مارکیٹ کو اہمیت حاصل ہوئی تو علامہ صاحب نے مرکزی مجالس کو نشتر پارک میں منتقل کردیا۔ علامہ جارچوی کی دینی خدمات میں کراچی میں قیام عزاداری سے لے کر انگریزوں سے باضابطہ عاشورہ محرم کی چھٹیاں منظور کرانا بھی علامہ صاحب کی مرہون منت تھا۔
آج بھی کراچی کی مرکزی مجالس وجلوس کے پرمنٹ سادات جارچہ کے نام پر ہیں۔ علامہ ابن حسن جارچوی نہایت دین دار اور اصول پسند شخص تھے۔ پاکستان ہجرت کرنے کے کچھ عرصہ بعد ان کے فرزند نوکری کے سلسلے میں حبیب بینک گئے، جہاں انٹرویو کے دوران اسناد پر علامہ کا نام پڑھ کر فوری طور اپائنمنٹ لیٹر جاری کردیا گیا۔ علامہ کے فرزند نے گھر آکے والد کو خوش خبری سنائی کہ آپ کا نام پڑھتے ہی افسر احترام سے کھڑے ہوگئے اور بغیر سوال و جواب کیے اپائنمنٹ لیٹر جاری کردیا۔ یہ سنتے ہی علامہ صاحب نے بیٹے سے لیٹر لے کر پھاڑ دیا اور کہا خبردار جو میرا نام استعمال کرکے اس ملک میں کوئی فائدہ حاصل کیا، جاؤ جاکے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر اپنا مقام بناؤ۔ علامہ جارچوی نے پاکستان آنے کے بعد عملی سیاست کا سلسلہ بھی جاری رکھا، تحریر و تقریر سے بھی منسلک رہے اور درس و تدریس سے بھی۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تھیالوجی کے پہلے استاد تھے اور یہ شعبہ انہی کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ کے نام سے ایک ادارہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے زمین بھی حاصل کرلی گئی تھی مگر عمر نے وفا نہ کی۔
ابن حسن جارچوی نے متعدد کتابیں بھی یادگار چھوڑیں، جن میں فلسفۂ آلِ محمد، چار جلدیں، تذکرہ محمد و آل محمد تین جلدیں، شہیدِ نینوا، بصیرت افروز مجالس، علی کا طرز جہاں بانی، (اردو انگریزی)، جدید ذاکری اور مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد شامل ہیں۔ تحریک پاکستان کے یہ عظیم رہنما 16 جولائی 1973 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے، اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔
یوں نہ پھر ہوگا کوئی نغمہ سرا میرے بعد
اور ہی ہوگی گلستاں کی فضا میرے بعد
راہ سنسان مکاں خستہ مکین افسردہ
کیسا ویران ہوا شہر وفا میرے بعد