Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Syed Badar Saeed
  3. Kamyab Career Ka Raz

Kamyab Career Ka Raz

کامیاب کیریئر کا راز

پاکستان میں کریئر بنانے کے حوالے سے ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں باقاعدہ کیریئر کونسلنگ کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ بچے کو زبردستی ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کا خواب تو سدا بہار ہے اور اس چکر میں ہر سال لاکھوں بچے نہ ڈاکٹر بن پاتے ہیں اور نہ ہی وہ بن پاتے ہیں جو ان کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اس کے بعد پورے ملک میں ہر سیزن میں ایک ڈگری ایسی نکل آتی ہے جہاں تھوک کے حساب سے داخلے ہوتے ہیں۔

ہمارے کیریئر کونسلرز بھی اس ایک ڈگری کی شان میں رطب اللسان ہو جاتے ہیں۔ پہلے بی کام اور ایم کام کا سلسلہ شروع ہوا۔ کامرس کالج بن گئے۔ مستقبل کا ہر ممکنہ کامیاب بچہ یہی ڈگری لینے لگا۔ ابتدائی بیجز کو تو بنکوں اور بڑی کمپنیز میں اچھی ملازمتیں مل گئیں، اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی ڈگری اتنی بری طرح پٹ گئی کہ اب ایم کام ڈگری ہولڈر یا تو بے روزگار ہیں یا پھر 30 ہزار تک کی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے بعد ڈبل میتھ سٹیٹ اور ایم بی اے کا رجحان شروع ہوا۔ ملک میں ایم بی اے ڈگری ہولڈرز کی لائن لگنا شروع ہوئی۔

ابتدائی ایم بی اے بیجز کو اچھی ملازمت مل گئی لیکن ان کی پیروی کرنے والوں کے لیے اس ڈگری کی بنیاد پر اچھا رشتہ ملنا بھی مشکل ہوگیا۔ یہی بائیو ٹیکنالوجی اور فزکس، کیمسٹری کے ساتھ ہوا۔ بہرحال سائنس سبجیکٹ ہونے کی وجہ سے ان میں اتنا رش تو نہیں لگا لیکن ملازمتیں کم رہیں۔ کسی زمانے میں ایل ایل بی کو بی اے کے ساتھ اضافی ڈگری یا اضافی شوق کے تحت بھی حاصل کیا جاتا رہا۔

طلبا بس سال کے آخری دنوں میں بیس سوالات والے گیس پیپر سے تیاری کرکے بمشکل پاس ہو جاتے تھے اور بزعم خود وکیل کہلاتے تھے۔ یہ تو شکر ہے کہ بار نے اس حوالے سے سختی کی اور اس ڈگری کی مدت پانچ سال کرنے کے علاہ عمر کی حد سمیت دیگر شرائط عائد کیں جن میں ایل ایل بی میں داخلہ کے لئے لاء گیٹ ٹیسٹ کی شرط بھی شامل ہے لیکن اس وقت بھی کچہریوں میں وکلا کی تعداد بہت زیادہ اور آمدن بہت کم ہے۔ بہت کم لوگ "کامیاب وکیل" بن پاتے ہیں۔

یہی صورت حال ہم نے ماس کمیونیکیشن میں دیکھی۔ ہمارے یہاں ماس کمیونیکیشن کی ڈگری لینے والے ہر طالب علم کو لگتا ہے کہ وہ پہلے دن ہی ان اینکرز کی طرح کئی کئی لاکھ ماہانہ کمانے لگے گا جن اینکرز نے اس فیلڈ میں کئی سال موٹر سائیکل پر رپورٹنگ کی تھی۔ سچ یہ ہے کہ روایتی میڈیا میں ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد اخبارات زوال کا شکار ہوئے۔ اخباری ملازم کے لیے اپنی تنخواہ میں گھر چلانا بہت ہی مشکل ہو چکا ہے۔ اب یہی صورت حال ٹی وی چینلز کی ہے۔

میڈیا انڈسٹری روز ایک نیا روپ دھار لیتی ہے۔ اب بات ڈیجیٹل میڈیا کی طرف جا رہی ہے اور ممکن ہے کہ پانچ سال بعد کمیونیکیشن کا کوئی نیا میڈیم آ جائے۔ اس شعبے میں آپ کو ہر روز کچھ نیا سیکھنا ہوگا۔ نئی ٹیکنالوجی کو سمجھنا ہوگا اور بروقت اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ماضی میں اخباری دنیا کا اہم ترین سمجھا جانے والا کاتب اس انڈسٹری سے مکمل طور پر آوٹ ہو چکا ہے، اسی طرح کمپوزر کی ملازمتیں تقریباََ ختم ہو چکی ہیں۔ چند سال قبل تک یہ انتہائی اہم شعبے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس بہت سے شعبوں کو کھا رہی ہے، جیسے چند سال قبل اخباری صنعت میں کمپیوٹر کے آنے سے کاتب، کاپی پیسٹر یہاں تک کہ پلیٹ میکر تک کے شعبے ناپید ہو چکے۔

اگلے روز ایک میڈیا ہائوس کے مالک کے ساتھ نشست تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک نیا چینل لانچ کر رہے ہیں جس کے تمام اینکرز آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے بنیں گے۔ جن لوگوں کے چہرے اور آواز لی جائے گی انہیں صرف ایک بار اپنا چہرہ اور آواز ریکارڈ کروانے کے پیسے دیئے جائیں گے۔ اس چینل کے تمام اینکرز مصنوعی ذہانت سے تیار ہوں گے لیکن ناظرین کو اصلی اینکر لگیں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میڈیا انڈسٹری کی سب سے مہنگی ملازمت یعنی اینکر شپ تو مصنوعی ذہانت کھانے لگی ہے۔ اس کا مطلب ہے اگلے چند برس میں یہ ملازمت بھی ختم ہونا شروع ہو جائے گی۔ اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا پر بھی اب ریسرچ، سکرپٹ، وائس اوور اور یہاں تک کہ کسی حد تک ایڈیٹنگ بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہونے لگی ہے۔ اب سسٹم کے پیچھے بیٹھا فرد واحد ہی سب کچھ ہے اور سامنے نظر آنے والی ہر چیز مصنوعی ہے۔

ان حالات میں کیریئر کونسلنگ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اپنے بچوں کے کیریئر کا فیصلہ کرتے وقت ان کے رجحانات کو مدنظر رکھیں۔ ایک اچھا "شیف" کسی ناکام ڈاکٹر، ناکام صحافی یا ناکام وکیل سے کہیں زیادہ کما لیتا ہے۔ انسان کی جس کام میں دلچسپی ہو وہ اس میں منفرد آئیدیاز متعارف کراتا ہے اور محنت کرنے سے تھکتا نہیں۔ شوق کو کیریئر بنا لیں تو کامیابی زیادہ دور نہیں ہوتی۔ اس کے علاہ یہ نہ دیکھیں کہ سب کیا کر رہے ہیں یا فلاں فلاں کے بچے نے کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔

یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ڈگری ختم ہونے کے چار پانچ سال بعد تک کی متوقع صورت کیا ہوگی اور اس وقت کن شعبوں میں ملازمت کی ضرورت ہوگی۔ ساری دنیا کاروبار نہیں کر سکتی اور ہر شخص کا مزاج ملازمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یاد رکھیں کہ رجحان، بجٹ، ضرورت اور شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والے پانچ دس برس کی ضروریات کے مطابق اپنی ڈگری، سکلز اور کیریئر پلان کرنے والے کامیاب رہتے ہیں۔ اس فارمولے پر عمل کرکے آپ یا آپ کا بچہ بھی کامیاب افراد کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔

Check Also

Maryam Nawaz Ka Daura e China

By Rehmat Aziz Khan