واہ رے حکومت، کیا کہنے تیرے!
میں حیران ہوں کہ یہ کیسی حکومت ہے؟ اور کیسی اپوزیشن(حزبِ اختلاف) ہے؟ ہمیں عالمگیر موذی وبا کورونا وائرس سے متعلق شروع دن سے لمبے لمبے بھاشن دئیے جا رہے ہیں ؛ ایس او پیز کی باتیں کی جا رہی ہیں ؛ماسک نہ پہننے اورایس اوپیز پر عمل درآمد نہ کرنے والوں والوں کو جرمانے کرنے کی بھی باتیں کی جا رہی ہیں ؛ دوسری طرف سیکڑوں سکولوں کو جن میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آئے، کی بندش کی جا رہی ہے؛معاشی و کاروباری سرگرمیوں کی بندش بھی جاری ہے؛ لوگوں کو ایک مرتبہ پھر گھروں میں محصور کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ کورونا وائرس کی حالیہ دوسری لہر، جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، کے پیش ِنظر کیا جا رہا ہے۔ آج کورونا وائرس سے مزید 42 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبر میرے سامنے پڑی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے خدشے کے باعث حکومت کی طرف سے تمام عوامی مقامات میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔
حکومت کی طرف سے ہمیں روز بتایا جاتا ہے کہ کورونا کی دوسری شدید لہر، لوگوں کی زندگیوں اور روز گار کو دوبارہ سے خطرے میں ڈال سکتی ہے، کیونکہ دنیا کے کئی ممالک، کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے دوبارہ لاک ڈائون کی طرف جا رہے ہیں، لیکن ذرا سوچیں یہی اپوزیشن، جو کورونا وبا کے پاکستان میں آنے کے بعدموجودہ حکومت سے مکمل لاک ڈائون کرنے کی بات کرتی تھی اور سندھ میں حکمران سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے صوبے میں وفاق اور دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ سخت لاک ڈائون کیا، اب گلگت بلتستان میں بڑے بڑے جلسے کر کے عوام کو کیا پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے؟ سوال یہ ہے آپ لوگ اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے ایس او پیز کی دھجیاں بھی اڑا ئیں تو ٹھیک اور عوام کریں، تو غلط؟
دوسری طرف صرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہی نہیں، بلکہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک ِ انصاف کیا کر رہی ہے؟ حکومت، اپوزیشن سے مکمل مقابلے بازی کے چکرمیں ہے اور اپوزیشن کے جلسوں کے جواب میں جلسے کرتی نظر آرہی ہے۔ واہ! کیا بات ہے۔ کیا حکومتی ترجمان، عوام کو بتانا پسند کریں گے کہ آپ کے اور اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں میں کن ایس اوپیز پر عمل درآمد ہو رہا ہے؟ کہاں گئی Social Distancing؟ آپ اپنے جلسوں میں ہزاروں، لاکھوں افراد کا مجمع اکھٹا کریں اور عوام کو شادیوں کی تقریبات منعقد کرنے سے بھی منع کریں اور ایسے ایسے ایس او پیز کا نوٹیفکیشن جاری کر دیں کہ جس کے مطابق کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے بنائے گئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے ہالز کے اندر شادی کی تقریبات منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ این سی او سی نے وائرس کی روک تھام کے لیے دوسری لہر کے آنے پر، ان ڈور شادی کی تقریبات پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، جبکہ صرف آؤٹ ڈور تقریبات کی اجازت ہے، ذرا غور کریں کہ غر یب آدمی کی شادی میں نہ تو ایک ہزار مہمان ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ بیچارہ آئوٹ ڈور شادی کی تقریب منعقد کرنے کے قابل ہوتا ہے؛اگر ایک غریب آدمی پچاس سو افراد کو اپنے گھر یا کسی ہال میں جمع کر کے شادی کرنا چاہتا ہے، تو ان ڈور تقریبات کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے وہ آئوٹ ڈور تقریب کیسے منعقد کرے؟ یعنی دوسر ے لفظوں میں شادی بیاہ کی تقریب کے معاملے میں بھی حکومت نے امیر لوگوں کو ایک ہزار تک مجمع اکھٹا کرنے کی اجازت دے دی اور خود کوبھی اپنے جلسوں میں ہزاروں کا مجمع اکھٹا کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
حکومت لوگوں کے کاروبار پر بے جا سختیاں اور پابندیاں عائد کر رہی ہے اور خود بڑے بڑے مجمعے لگا کر جلسے جلوس کر رہی ہے اور ٹی وی سکرینوں پرآکر لوگوں کے ہمدرد بننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ دوہرا معیا ہے، آپ اپوزیشن کے جلسوں پر کیا بات کریں گے؟ آ پ کا تو اپنا ہی قبلہ درست نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کو صرف اتنا پتہ ہے کہ گالی کا جواب گالی سے کیسے دینا ہے؟ کس کس کو غدار ہونے کے سرٹیفیکیٹ دینے ہیں اور کس کس کو کرپٹ اور ڈاکو کہنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومتیں ایسے دوہرے معیار کے ساتھ چلا کرتی ہیں؟ اگر وزیر اعظم عمران خان کی اس بات کو مان لیا جائے کہ پچھلی حکومتیں تو صرف اور صرف اپنی جیبیں بھرتی اور کرپشن کرتی رہی تھیں، تو ذرا اس بات کا جواب موجودہ حکومت ہی دے کہ آپ کیا کرنے آئے ہیں؟ مہنگائی کو بام عروج پر پہنچا نے آ ٓ ئے ہیں؟ اشیائے خور و نوش کو عوام کی پہنچ سے دْور کرنے آئے ہیں؟ چینی، آٹا غائب کرنے آئے ہیں؟ غریب عوام کو مزید غریب کرنے آئے ہیں؟ یا دوہرے معیارات سیٹ کرنے آئے ہیں؟ یا پھر آپ اپنے صدارتی آرڈیننسز کے ذریعے بااثر طبقات کو ریلیف دینے آئے ہیں؟ حال ہی میں 92 نیوز کے پروگرام " نائٹ ایڈیشن" میں ہم یہ خبر نشر کر چکے ہیں کہ پاکستان تحریک ِ انصاف کی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ملک کے بااثر ترین صنعتکاروں، کھاد فیکٹریوں، سی این جی اسٹیشنز اور پاور پلانٹس کے مالکان کو غریب عوام سے وصول کردہ 208 ارب روپے معاف کر دئیے۔
یہ رقم مختلف کمپنیوں اور صنعت کاروں نے گیس انفرا سٹرکچر ڈویلپمنٹ سر چارج کی مد میں ملک بھر کے غریب کسانوں اور عوام سے گزشتہ 5 سال کے دوران وصول کی تھی۔ ملکی تاریخ میں با اثر شخصیات اور کارپوریٹ کمپنیوں کو بینکوں کی طرف سے معاف کیے گئے 208 ارب روپے کے قرض کے بعد یہ سب سے بڑی رعایت دی ہے۔ آپ تو اس ملک کے غریب کسانوں پر ڈنڈے چلانے کے لیے آئے ہیں؟ اسے کسانوں کی بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ وفاقی کابینہ میں کسانوں کے حق میں موثر آواز اٹھانے والا نہیں ہے؛ البتہ بڑے بڑے صنعت کاروں، تاجروں کے لیے آواز اٹھانے اور انہیں 208 ارب روپے کا ریلیف دلوانے والے کابینہ میں ضرور موجود ہیں۔ جناب! یہ سب تفصیلات دینے کا صرف اور صرف اتنا سامقصد ہے کہ ٹی وی سکرینوں پر پرائم ٹائم میں آ کر تقریریں کرنے اور ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر لمبے لمبے بھاشن دینے سے موذی اور قاتل کورونا وائرس کم نہیں ہو گا۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کورونا صرف عوام کی بے احتیاطی سے پھیل سکتا ہے؟ یا پھربڑے بڑے جلسوں میں کورونا کی کیا جرأت کہ وہ اثر انداز ہو جائے؟ تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ کیا سمجھا جائے کہ کورونا وائرس نے جلسوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہوا ہے؟ واہ رے حکومت، کیا کہنے تیرے!