Friday, 15 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Short Boundary

Short Boundary

شارٹ باوَنڈری

گو کہ وطنِ عزیز کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن ہمارے ہاں زیادہ پذیرائی کرکٹ کو ملتی ہے۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی شہرت کے چرچے جہاں تک پہنچتے ہیں ہاکی والے تو آج کل اس کی موہوم سی حسرت ہی رکھ سکتے ہیں۔ قومی کھیل ہونے کے علاوہ اس کی دوسری وجہ شہرت مرحوم عمر شریف صاحب تھے۔ وہ کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں منعقدہ پروگرام میں بھی ہاکی والوں کو یاد کرنا نہیں بھولتے تھے۔ خواتین کے علاوہ ہاکی کے کھلاڑیوں پہ بھی ان کےچٹکلے تھمے نہ تھمتے تھے۔

ایسا ہی ایک پروگرام پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا جب ہماری کرکٹ ٹیم بھارت کو ان کی سرزمین پہ شکست دے کے لوٹی تھی۔ ابتدائی چند تعریفی جملوں کے بعد عمر شریف کی توپوں کا رُخ جو ہاکی کے کھلاڑیوں کی طرف ہوا تو پھر پھن٘سیوں زدہ ٹانگوں، تین تین ہاکیوں اور نیکر پہننے کے آداب جیسی گل افشانیاں کچھ ایسے سننے کو ملیں کہ تتلیاں کانوں سے ہوتی ہوئی پیٹ میں اڑتی محسوس ہوئیں۔

کرکٹ سے شغف اب ہمارا قومی شغف ہے۔ بچہ بچہ کرکٹ کے بارے نا صرف جانتا ہے بلکہ اپنی الگ سے ماہرانہ رائے بھی رکھتا ہے۔ اب تو روزمرہ بول چال کی زیادہ تر باتیں بھی کرکٹ کی تمثیل ہی میں کی جاتی ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک روز بچوں پر ماسٹری کی ڈیوٹی لگ گئی تو بڑی محنت شاقہ اور تندہی سے ان کو ریاضی سمجھا رہا تھا اور سمجھا بھی بالکل ایسے رہا تھا کہ ان کو سوالات کی عبارتوں اور فارمولوں کی اصل روح (کانسیپٹ) سمجھ آ جائے اور وہ دیگر مقالی مضامین (تھیوریٹیکل سبجیکٹس) کی طرح ریاضی کو بھی رٹا نہ ماریں۔

اپنی دانست میں سب سمجھا دینے کے بعد کہا کہ اب یہ ایک سوال حل کرکے دکھاوَ اور خود اس کے حل کے طریقے کو دیکھنے لگا۔ جون٘ہی اس سے غلطی ہوئی تو بے اختیار من٘ہ سے نکلا، "کم آن"۔ بجائے اس کے کہ شاگردِ موصوف اپنی غلطی پہ نادم ہوتے یا غلطی کی بابت پوچھتے، آگے سے برجستہ جواب ملا: "آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں نے کوئی کیچ چھوڑ دیا ہو"۔ پاکستان کی حالیہ آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ کرکٹ سیریز میں بھی کہا گیا "کم آن" اس واقعے کی یاد کا باعث بنا۔

آسٹریلیا میں کرکٹ کھیلنا ایشیائی ممالک کے کھلاڑیوں کے لئے کسی طور بھی آسان نہیں ہوتا۔ آسٹریلیا میں خاک دشتر (پچز) تیز اور زیادہ اچھال والی ہوتی ہیں۔ مزید لرزہ گھومتی گیندیں طاری کئے رکھتی ہیں اور میدان بھی نسبتاً بڑے ہوتے ہیں۔ ایسے میں بلے بازوں کو خوب مہارت سے کھیلنا ہوتا ہے۔ ایک موقع پہ تبصرہ نگار (کمنٹیٹر) نے "شارٹ باوَنڈری" کی اصطلاح استعمال کی کہ بلے باز نے چار سکور حاصل کرنے کے لئے میدان کے اس حصّے کا انتخاب کیا جس طرف سے میدان کی حد کم تھی۔

"شارٹ باوَنڈری" کی جستجو صرف آسٹریلیا کے میدانوں ہی میں زیادہ سکور کرنے کے لئے ضروری نہیں بلکہ یہ ہماری روزمرہ کی دنیاوی زندگی میں اور اپنے رب کے ساتھ تعلق میں بھی کارآمد ہو سکتی ہے۔ جیسے مولانا روم نے فرمایا خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں نے خدا کا پسندیدہ ترین راستہ مخلوق سے محبت چُنا۔ اسی تناظر میں ہر شخص اپنی قلبی واردات، کیفیت، جذبیت، احساسیت اور عبدیت کے مطابق اپنے لئے راستہ اختیار کر سکتا ہے۔

جیسے ایک تجربے کار بلے باز گیند کی مناسبت سے اپنے لئے "شارٹ باوَنڈری" تلاش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سکور کر سکے ایسے ہی ہمیں بھی موقع ملتے ہی وہ "شارٹ باوَنڈری" تلاش کرنی ہے جو ہمیں کم وقت میں زیادہ فیوض و برکات اور اپنے رب کے قرب سے ہمکنار کروا سکے۔ موقع کی جستجو میں رہنے والے کو ایسا موقع ضرور ملے گا کیونکہ دانائے راز کہتے ہیں کہ مانگنے والے کو ہی عطا کیا جائے گا، جس کی جیسی جستجو ہوگی اس کو ویسا ہی عطا کیا جائے گا۔

Check Also

Putla

By Naveed Chaudhri