Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Jis Ko Bhi Dekhna Ho Kayi Baar Dekhna

Jis Ko Bhi Dekhna Ho Kayi Baar Dekhna

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

میں خود سفر پر نکلتا ہوں تو شاید اس لیئے کہ انسانوں کا ایک گروہ اور مخصوص معاشرہ (میرے ارد گرد کا) اپنے زورِ حرکت سے میرے قدم اکھاڑ کر مجھے ایک بے اختیار وجود میں بدل دیتا ہے لیکن میں تا دیر ان سے جدا بھی نہیں رہ سکتا۔ کچھ دن بعد پھر گھر کی جانب چلا آتا ہوں۔

واپسی ہوتی ہے تو ایک مختصر مدت پچھلے سفر کی یادوں میں غرق ہو کر گزرتی ہے مگر بلآخر مجھے سانس لینے کے واپس اپنے ماحول میں، سطح آب پر آنا پڑتا ہے اور تب میری آنکھیں چندھیائی جاتی ہیں، میں دیکھ نہیں سکتا اور ایک بار پھر ٹٹولتا ہوا نئی روشنیوں کی تلاش میں سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہوں یوں نہ تو میں مچھلی کی طرح تا دیر پانی سے باھر جی سکتا ہوں نہ ہی سفر کا سمندر مجھے ہمیشہ کے لیئے قبولتا ہے۔

میرا کام سخت ذہنی مشقت کے ساتھ جسمانی مشقت والا کام ہے۔ گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ ہو یا جاڑے کے کپکپاتے دن مجھے فیلڈ میں مزدورں کی مانند ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ وائٹ کالر سٹیٹس میری جاب کا ٹائٹل ضرور ہے مگر جاب فیلڈ ورک سے وابستہ ہے۔ اس لیے میں ذہنی و جسمانی طور پر کچھ عرصے بعد نڈھال ہو جاتا ہوں۔ پھر دل کرتا ہے کہ سب چھوڑ کر ملک کے اندر کہیں یا ملک سے باہر نکل جاؤں۔ نیچر سے میرا رومانس کسی بھی انسان کے ساتھ رومانس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

منصوبے اگر بنتے ہیں تو کٹتے بھی ہیں۔ انسان کُلی طور پر خود مختار نہیں ہوتا۔ آفس سے چھٹیوں، دیگر ذاتی یا individual پراجیکٹس سے بریک لینا، گھر کی ضروریات و مصروفیات کو مینج کرنا وغیرہ یہ سب وہ عناصر ہیں جو کبھی کبھی سفری کاغذات ویزا وغیرہ مکمل ہونے کے باوجود مجھے روک لیتے ہیں۔ حضرت علی کا ایک خوبصورت قول ہے "میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا"۔ بطور مسافر یہ میرا مشاہدہ بھی ہے تجربہ بھی ہے۔ مضبوط ارادے ٹوٹ جاتے ہیں اور کبھی کبھی بلا ارادہ کوئی سفر دو دن میں اچانک سامنے آ جاتا ہے اور کرنا پڑتا ہے۔

میرا ماننا ہے اگر آپ اپنے ماحول سے نکل سکنے پر قدرت رکھتے ہیں تو ضرور نکلیں۔ دنیا دیکھیں، مختلف سماج دیکھیں، مختلف مذاہب، کھانے، رسم و رواج سے شناسائی حاصل کریں۔ آپ کو احساس ہوگا کہ دنیا بہت وسیع ہے۔ اتنی نہیں جتنا اپنے گھر کی چھت سے نظر آتی ہے۔ میرے جاننے والے دوستوں اور فالورز میں سے اکثر احباب کو لگتا ہے میں بہت خوش قسمت ہوں۔ اپنی زندگی اپنے ڈھنگ سے بسر کر رہا ہوں۔ مگر کسی نے میرے جوتے پہن کر سفر کیا ہے نہ کوئی اس مشقت پر نظر دوڑاتا ہے جس میں پگھلتے جوانی کی دیڑھ دہائی گزار آیا۔

چونکہ مزاجاً introvert ہوں اس واسطے مجھے میل جول اور ملاقاتیں پسند نہیں۔ اپنی دنیا میں مگن انسان ہوں۔ سفر کرتا ہی اپنے لیے ہوں۔ جتنا بھی سوشل ہوں وہ اس سوشل میڈیا کی کھڑکی سے ہی سوشل ہوں۔ وہ بھی اپنی بات رکھنے، سماجی بھڑاس نکالنے، یا کچھ دوستوں کے ساتھ انگیج رہنے کے واسطے ہے۔

اک ہجوم رکھنے یا بھیڑ پالنے کا میں قائل نہیں۔ نہ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ نہ میرا روزگار سوشل میڈیا سے وابستہ ہے۔ نہ میں نے آن لائن اشیاء کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنا ہوتا ہے۔ الغرض مجھے اس سے غرض ہی نہیں کہ یہاں کون ہیں اور کتنے ہیں۔ ہاں، مجھے اس سے غرض ہے کہ جتنے ایڈ ہیں وہ کیسے ہیں اور ان کا طرز عمل کیسا ہے۔

کوئی آپ کے تجربات سے سیکھتا ہے تو ویلکم۔ کوئی نہیں سیکھتا تو بھی خوش رہے۔ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئیے۔ وقت کے ساتھ ہر کوئی اپنے علم و شعور و تجربات کے مطابق سمجھ جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ انسان نہ مکمل بُرا ہوتا ہے نہ پرفیکٹ اچھا۔ کوئی بھی کامل نہیں ہے۔ ہر انسان خوبیوں و خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر کسی کے ہاں وہ بُرا ہے تو بیسیوں کے ہاں وہ اچھا ہے۔ ہر آدمی میں کئیں پہلو پنہاں ہیں۔ بدقسمتی سے انسان دوسرے انسان کے کسی ایک پہلو کو دیکھ کر اس کے بارے فیصلہ صادر کر دیتے ہیں اور اُلجھنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ رویہ ہمارے ہاں ہر طبقے میں بدرجہ اُتم پایا جاتا ہے۔

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

زندگی بڑی مختصر اور قیمتی ہے۔ آپ لمحہ بہ لمحہ مر رہے ہیں۔ خلیہ بہ خلیہ موت اُتر رہی ہے۔ گھڑی کی ہر ٹِک ٹِک آپ کا وقت پورا کرتی جا رہی ہے۔ اپنے حصے کی آکسیجن کھینچتے آپ کے پھیپھڑے ضعف کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اتنا مغز اور اتنی انرجی نہیں کہ لایعنی تعلقات اور بے مقصد ناراضگیوں کو جھیلا جائے۔ یہ معاشرہ ریورس گئیر میں فُل تھروٹل سے دوڑ رہا ہے۔ یہاں جو وقت سکون سے بیت جائے وہی غنیمت اور جو گھڑیاں اپنوں میں خوشی سے بسر ہو جائیں وہی اثاثہ۔ باقی سب جھنجھٹ، بوجھ اور غیر ضروری ہیں۔ کوئی ناراض ہے تو ناراض رہے خوش ہے تو خوش رہے۔

زندگی کا سفر ہو یا کسی دور دراز کی وادی کا، مسافتوں میں کوئی منظر مستقل نہیں ہوتا۔ منظر بُجھ جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتا ہے دھواں۔ لمحے کی موت اگلے ہی لمحے ہو جاتی ہے۔ گھر پڑے معمول کے شب و روز گزارتے میں اپنی تصاویر کو دیکھتا ہوں تو منظر پھر جی اُٹھتا ہے، یوں لگنے لگتا ہے جیسے میں اس لمحے وہیں موجود ہوں جہاں میں تھا۔ وہی حسین شام بیت رہی جو کب کی بیت چکی اور پھر دھیان کی جھیل میں ارتعاش پیدا ہونے لگتا ہے۔ یاد بھی ڈوب جاتی ہے۔ ذرا دیر کا ہے منظر۔

Check Also

Do, Rotiyon Ki Bhook Ka Qarz

By Mohsin Khalid Mohsin