خدارا ! ذی شعور ہونے کا ثبوت دیجیے
وَمَا تشا ئون ا لا ان یشاء اللہترجمہ: اور نہیں تم چاہ سکتے، مگر یہ کہ منظور ہو اللہ کو۔
جی ہاں ! اس پوری کائنات میں ایک پتہ بھی خدا کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ لیکن خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، شعور دیا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ غلط صحیح میں تمیز کرنے کی سوجھ بوجھ دی ہے اور اس کے باوجود بھی ہم اگر خود اپنے دشمن بنے ہوں، تو یہ جہالت ہے۔ ایسا ہی کچھ ہم اس کورونا وبا کے دوران اپنے ساتھ کر رہے ہیں۔ کورونا کی تیسری لہر "اسٹرین" جو برطانیہ سے آئی ہے، اس کا پھیلائو سابقہ اقسام کی نسبت 60 فیصد زیادہ تیز ہے۔ تو ذرا سوچیے کہ یہ کتنی خطرناک لہر ہے۔ اسی لیے سکولز دوبارہ بند کیے گئے ہیں، کاروباری اوقات میں کمی لائی گئی، عوامی اجتماعات کو محدود کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور دفاتر میں 50 فیصد عملے کے ساتھ کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس وقت ملکی حالت یہ ہے کہ کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کی مجموعی تعداد 6 لاکھ 40 ہزارسے زائد ہو چکی ہے اور 14 ہزار سے زائد متاثرین انتقال کرچکے ہیں۔ مسلسل کئی دنوں سے 3 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل 2 جولائی 2020ء کو ملک میں آخری بار 3 ہزار 800 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ اس صورتحال میں عوام بے حسی اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں جو قابل فکر ہے۔
اب ذرا ویکسی نیشن کے بارے میں عوام کی سوچ پر بات کر لی جائے، اس پر طرح طرح کا پروپیگنڈا کچھ اس طرح کیا جارہا ہے۔ کہیں سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ "ویکسین" مسلمانوں کے مزاج اور ذہنوں کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے مغرب کی سازش ہے۔ کوئی یہ بتا رہا ہے کہ یہ ویکسین آپ کے ڈی این اے کو بدل دے گی۔ ہم لوگ جو بغیر ثبوت کے بات کہنے اور بغیر تحقیق کے بات سننے کے عادی ہوچکے ہیں، اور ویکسین نہ لگوانے کی بہت سی وجوہات تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ جن میں ایک وجہ اب ویکیسن نہ لگوانے کی ایک وجہ عوام کے نزدیک یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان ویکسین لگوانے کے باوجود کورونا کا شکار ہوئے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے لئے عرض کہ ڈاکٹرز کے مطابق ویکسین کا اثر فوری نہیں ہوتا اینٹی باڈیز بننے میں 14 دن لگتے ہیں۔ اور تو اور ایسے میں مولانا فضل الرحمن کا وزیراعظم عمران خان صاحب کی بیماری یا ویکسین کو فراڈ کہنا بہت افسوس ناک ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اس بیان پر معذرت کرنی چاہیے۔ لیکن کیا کریں مولانا ابوالکلام آزاد نے شاید ایسے موقعوں کے لئے ہی کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اور شاید ہمارے سیاستدان یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن کسی کی بیماری پر سیاست نہیں چمکانی چاہیے۔
لیکن یہاں تو نجی کمپنیاں جو ویکیسن درآمد کررہی ہیں ان کے سینے میں بھی دل نہیں ہے۔ ذرا سوچیے روسی ویکسین سپٹنک جس کی عالمی مارکیٹ میں 20 ڈالر میں دو خوراکیں مل رہی ہیں۔ پاکستان میں ان کمپنیوں کو وہ 55 امریکی ڈالر میں بھی فروخت کرنا قبول نہیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست ذمہ داری لیتی اور اپنے عوام کو ویکسین لگاتی۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ریاست اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ لیکن کم سے کم ایسے لوگ جن کو آپ احساس پروگرام کے ذریعے کیش دے رہے ہیں، ان کے بارے میں ذرا سوچیے کہ وہ اتنی مہنگی ویکسین کیسے افورڈ کریں گے۔
تو وزیراعظم صاحب آپ کے لئے مشورہ یہ ہے کہ احساس پروگرام کا ڈیٹا آپ لوگوں کے پاس موجود ہے، تو ان مستحقین کو مفت ویکسین ضرور لگائیں۔ کوئی غریب اس لئے نہ محروم رہ جائے کہ اس کے پاس ویکسین خرید کر لگانے کے پیسے نہ ہوں۔ آپ کے ایسے احساس پروگرام میں کیش دینے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں لوگوں کو روٹی تو مل جائے، لیکن جان لیوا وائرس سے بچنے کا موقع نہ ملے۔ حکومت کی ذمہ داری اپنی جگہ لیکن ہمیں بطور شہری اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایس او پیز پر عمل کریں۔ ہجوم میں جانے سے گریز کریں۔ اپنے بڑے اور بزرگوں کو ویکسین لگوائیں۔ کسی پروپیگنڈا اور کسی سازش کا حصہ نہ بنیں اور اپنے ذی شعور ہونے کا ثبوت دیں۔ آج 26 اپریل ہے اور آج مریم نواز جتھے کی صورت میں نیب میں پیشی کے لیے جا رہی ہیں، یہ بھلا کر کہ اس سے ان کی اپنی اور سینکڑوں کارکنان کی جان کو اس وائرس سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا کریں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مریم نواز ذی شعور ہونے کا ثبوت دیتیں اور خود نیب میں پیش ہوتیں۔ لیکن کیا کریں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ شیخ رشید صاحب نے درست کہا ہے کہ مریم نواز نے خود تو ضمانت کروا لی لیکن کارکنان کو کہا کہ آگے آئو۔ گرفتار ہوں تو کارکن ہوں، ڈنڈے کھائیں تو کارکن کھائیں لیکن مریم نواز سکون سے گھر جائیں۔
یہاں حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔ جہاں پورے ملک میں تمام سرگرمیوں کو محدود کیا جا رہا ہو، وہیں حکومت کو ایسے جتھوں کو بھی روکنے کی ضرورت ہے۔ نہیں تو عام عوام بھی پابندی کو یہ کہا کر ہوا میں اڑائیں گے کہ حکومت اپوزیشن کے اجتماعات کو تو روک نہیں سکتی۔ وبائی مرض پر قابو پانے کے لئے ملک کے ہر شعبے کو آگے بڑھنا ہوگا۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے ملازمین کو ویکیسن لگائیں۔ تاجروں اور پرائیویٹ سکول مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت کے سے ساتھ تعاون کریں۔ قدرت کی طرف سے جو چھوٹ مل رہی ہے، اس کا تمسخر مت اڑائیں۔ خدارا ذی شعور ہونے کا ثبوت دیجیے۔