ہے کوئی ، جو اس طرف بھی دھیان دے؟
ہفتے کی شام ایک ویڈیو نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ کیا دیکھا کہ ایک کم سن بچی کو ایک مرد تھپڑ رسید کر رہا ہے، اس کے ساتھ ایک عورت بھی اس کم عمر بچی پر تابڑ توڑ تھپڑ برسا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پروائرل اس ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کم عمربچی کو ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص اور اس کی بیوی انتہائی بے رحمی سے تھپڑ مار رہے ہیں اور اس بچی کو جو گھریلو ملازمہ دکھائی دے رہی ہے، کو بالوں سے پکڑ کر کھینچ رہے ہیں اور دھکے دے رہے ہیں۔ معصوم بچی مار پیٹ اور دھکوں کی وجہ سے سڑک پر گر جاتی ہے، مگر مجال ہے کہ کوئی سٹرک پر چلتا راہ گیر رک کر اس لاچار بچی کی مدد کرتا دکھائی دیا ہو یا کسی نے قیمتی لباس میں ملبوس اس وحشی شخص کو بچی پر تشدد کرنے سے روکا ہو۔
گھریلو ملازمہ پر تشدد کے اس واقعے کی مزید معلومات حاصل کرنے پر پتا چلا کہ یہ فیصل آباد کے علاقے کنال روڈ پر ایک کمسن گھریلو ملازمہ بچی پر بہیمانہ تشدد کا واقعہ ہے۔ گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے حوالے سے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ ایسے درد ناک واقعات ہمارے معاشرے میں آئے روز پیش آہے ہیں۔ بچوں کا دن یہاڑے اغوا، ان پر جنسی تشدد اور پھرقتل کیے جانیکے واقعات ہمارے معاشرے میں معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور ہمارے معاشرے کی بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ ہم ایسے اندوہناک واقعات پر چپ سادھ کر بیٹھے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کے علاقے ڈیفنس میں پیش آنے والا شاذیہ قتل کیس، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کیسے اس بچی کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں کیس میں قانونی سقم ہونے کی بنا پر ملزمان آسانی سے بری ہو گئے۔ بچو ں پر گھریلو اور جنسی تشدد کی یہ دردناک کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ میڈیا میں آئے روزایسی دردناک کہانیاں خبروں کی زینت اور اخباروں کی سرخیاں بنتی رہتی ہیں۔ دو روز قبل سات دسمبر کولاہور کے علاقے گرین ٹائون میں ایک سات سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کا واقعہ تازہ ترین واقعہ ہے۔
ہمارے معاشر ے میں بچوں پر تشدد خواہ وہ گھریلو تشدد ہو یا جنسی تشدد، اس حوالے سے ایک عجیب سی بے حسی سی نظر آتی ہے۔ پاکستان کو بنے تہتربرس گزرگئے، لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ تہتر سال گزرنے کے باوجود ہمارے معاشرے میں سماجی شعور کے ارتقا کے لیے سنجیدہ کوششیں تو درکنار غیر سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کی گئیں۔ ہمارے معاشرے میں انسان سازی پر کوئی بھی توجہ نہیں دیتا نظر نہیں آتا، نہ کوئی این جی او، نہ کوئی سرکاری اور غیر سرکاری ادارہ، حتی کہ ریاست بھی اس طرف توجہ دیتی نظر نہیں آتی۔ گھریلو تشدد ہمارے سماج کا وہ پہلو ہے، جو خاندان یا گھرانے سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور خواتین پر تشدد بھی ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی دردناک المیہ ہے اوراس تشدد اور ذلت کی ابتدا اکثرمنفی رویے سے ہوتی ہے۔ عورت پر تشدد کی ابتدا اکثر عورت کی طرف سے ہی ہوتی ہے، جب ایک بچی کو اس کے بھائی کی نسبت خاندان میں کم اہمیت دی جاتی ہے۔
یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ پاکستان میں جنسی جرائم اور بچوں سے زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ان واقعات کی غیرمحتاط رپورٹنگ میں اضافے سے ذہنی ونفسیاتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ کبھی لاہور موٹر وے پر خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پی ش آجاتا ہے، تو کبھی قصور کی زینب درندگی کا شکار ہو جاتی ہے، تو کبھی اسلام آباد کی فرشتہ کسی شیطان کا شکار ہو جاتی ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ کراچی کے ایک مزدور نے غربت اور حالات سے تنگ آکر اپنے چار بچوں کو نہر میں پھینک دیا ہے۔ الغرض اتنے واقعات ہیں کہ دل دہل جائے، کہیں جہیز نہ لانے پر نئی نویلی دلہن کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، تو کبھی اسے دشمنی اورجھگڑوں کے بعد کاری بنا دیا جاتا ہے۔ میری نظر میں گھریلو تشدد کی وجوہ میں تعلیم کی کمی، انسانی حقوق سے ناواقفیت، بے جا پابندیاں، اسلام سے دوری و دیگر شامل ہیں۔ شادی کے بعد عورت سب سے پہلے اولاد کی توقع آتی ہے، اگر بیٹا ہوا تو خوشیاں ہی خوشیاں اور اگر بیٹی پیدا ہو گئی تو طعنے ہی طعنے اور اگراولاد نہ ہوئی تو بانجھ قرار دے کر طلاق تک کے حالات پیدا کر دئیے جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے نام نہاد دانشور بھی موجود ہیں، جو دن رات خواتین کو حقوق دلوانے کے لیے سر گرم نظر آتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی گھریلو ملازمہ کو وقت پر تنخواہ بھی نہیں دیتے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے افراد سے انتہائی الجھن ہے، جو کم سن بچوں سے کام کرواتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئی مہنگائی کے عفریت میں غریب طبقے کے لیے اپنی سانسوں کو بحال رکھنے کے لیے شدیدمحنت مزدوری کرنا پڑتی ہے، جبکہ حالیہ کورونا کی وبا میں بے روز گاری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ذرائع آمدن سکٹر کر رہ گئے ہیں، ایسے میں غریب طبقہ کیا کرے اور کہاں سے کھائے؟
کہا جاتا ہے کہ ریاست کاکردار ایک ماں جیسا ہوتا ہے، لہذا ماں کو اپنے بچوں سمیت خاندان کے تمام افراد انتہائی عزیز ہوتے ہیں، وہ ان کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں آنے دیتی، مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور حکومت کو نہ غریب طبقے کی پروا ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل ( بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں) کو سنوارنے کی فکر ہے، یہی وجہ ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو اور چائلڈ لیبر لاز ہونے کے باوجود فیصل آباد واقعہ جیسا واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کم سن بچوں اور بچیوں کی کثیر تعداد غربت اور گھریلو تشدد اور جہالت کا شکار ہو کر کھیلنے کودنے اور پڑھنے کی عمر میں مشقت اور محنت مزدوری شروع کر دیتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ہے، جو اس طرف بھی دھیان دے؟