مبارک ہو کہ اب ماڈل بھی
ویسے تو ہمارے صوبے خیبرپختونخوا کی حکومت اور اس کے جناب وزیراعلیٰ جو بھی بات کرتے ہیں رتی ماشہ تولہ ٹھیک کرتے ہیں بلکہ ایک پشتو شعر کے مطابق
تمہاری ہربات میرے دل پر پھاہے رکھتی ہے
رہ گئی "جانے"کی بات؟ تو یہ بات کبھی نہ کرنا
لیکن اب کے جو انھوں نے صوبے کو ماڈل صوبہ بنانے کی بات کی ہے وہ ہمارے دل کو لگی ہے بلکہ وہ جو غالب نے کہا ہے کہ "گویا یہ بھی میرے دل میں تھا" کو عموم سے نکال کر خصوص میں ڈالیں گے اور "یہ بھی" کی جگہ یہ ہی" میرے دل میں تھا"کہیں گے۔ کیونکہ ہمارا یہ خطہ جسے کے پی کے یعنی " خیر پہ خیر"پہلے بھی کچھ کم "ماڈل"نہیں تھا بلکہ جن دنوں اس کانام کرن ہو رہا تھا یعنی رکھنے کا غلغلہ تھا توہم نے بھی زیرلب اور دبے پاؤں یہ تجویز روانہ کردی تھی کہ اس کا نام "ماڈلستان" رکھا جائے لیکن سنی نہ بات کسی نے تو رہ گئے چپ چاپ۔ اور یہ کوئی آج کل کی بات نہیں بہت قدیم زمانوں سے یہ خود بھی ماڈل رہاہے اور ماڈل پیدا بھی کرتا رہاہے۔
جس کاکمرشل نام"خان" ہوتا تھا۔ ایک قصے نے دُم ہلانا شروع کردی ہے روزنامہ بانگ حرم میں ہمارے پاس ایک کاتب ہوتا تھا ہندوستان سے آیاہوا مہاجرتھا اور دوچار ہی فقرے پشتو کے بول لیتا تھا، کتابت کرتے ہوئے خبروں میں "خان" لازماً ہوتا تھا چاہے وہ لیڈر تھے طالب علم تھے مجرم تھے یا پولیس والے۔ وہ لکھتے لکھتے اکثربڑبڑاتارہتاسب "خانونہ" ہے سارے خانونہ ہے۔
اس میں لطیفے کی بات یہ تھی کہ پشتو میں بے جان چیزوں کی جمع "ون"سے ہوتی ہے جیسے سیزونہ(چیزیں ) دکانونہ(دکانیں ) سڑکونہ (سڑکیں )موٹرونہ (موٹریں )قلمونہ(قلم)لیکن جاندار چیزوں کی جمع "ان"سے ہوتی ہے جیسے خانان، بندیان، مارغان (پرندے) حیوانان، انسانان۔ اسی طرح "خان" کی جمع خانان ہونا چاہیے تھا لیکن وہ "خانونہ" بولتا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ "خان"بجائے خود ماڈل بلکہ ماڈلونہ ہوتے ہیں جو یہاں اتنے زیادہ پیداہوتے ہیں کہ دساور کو بھی بھیجے جاتے ہیں جہاں مردوزن دونوں اسے استعمال کرتے ہیں۔
اس لحاظ سے پورا صوبہ ماڈل ہی ماڈل بن جاتا ہے۔ اور پھر ان میں جو خاص قسم کے ترقی دادہ قسم کے ماڈل ہوتے ہیں وہ آگے پیچھے دونوں طرف خان لگاتے ہیں جیسے کوئٹہ جانے والی ریل(پتہ نہیں اب ہے یا نہیں ) کے آگے اور پیچھے دو دو انجن لگائے جاتے تھے، جیسے خان عبدالقیوم خان وغیرہ۔ شاید موجودہ برسراقتدار "خانونہ" کے ساتھ بھی لگاتے ہوں، خان محمودخان، خان شوکت علی خان، خان شہرام خان، خان لیاقت خان اور خان عمران خان۔ خیر یہ "خان خوانین"کے ماڈل تو پرانے زمانے سے چلتے آرہے ہیں لیکن نئے دور کے ماڈلوں کا آغاز پاکستان سے ہواہے سب سے پہلا مشہور ماڈل خان عبدالقیوم خان جسے بھٹو پیار سے ڈبل خان کہتے تھے۔
اس صوبے میں ہی ظہورپذیرہواہے جو کشمیر سے آکر یہاں ڈبل بیرل ہی نہیں بناتھا بلکہ اس مشہور ومعروف "جھرلو" کا بھی موجد تھا جو پاکستانی سیاست کا جزولاینفک ہے پہلا "جھرلو" اس نے اس وقت ایجاد کیا۔ جب صوبے میں ڈاکٹرخان کی اکثریتی حکومت تھی لیکن "جھرلواعظم" نے ایک ہی رات میں چالیس کے ایوان میں اپنے سولہ عدد جھرلووں کے ساتھ نہ صرف وزیراعلیٰ کا مرتبہ حاصل کیا۔ بلکہ شیرسرحد اور مردآہن کے خطابات بھی حاصل کرلیے۔ اس کے بعد تو گویا نئے نئے ماڈلوں کا تانتا بندھ گیا۔ جتنی بھی حکومتیں آئیں سب کی سب ماڈل تھیں اور ہیں۔ اندازہ اس خطے کے "ماڈل" ہونے کا اس سے لگائیں کہ دنیا بھر میں جب بھی کسی ماڈل شناس کی نگاہ پڑی ہے تو اسی خطے پرپڑی ہے۔
محمودغزنوی سے لے کرمحمودخان تک جتنے بھی نئے نئے ماڈل کے "اسلام اور مجاہد"پیدا ہوئے وہ اسی زرخیز اور ماڈل خیز خطے میں ہوئے۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ جب سعودی عرب میں "آسمانی اور زمینی" نعمتوں کی بھرمار ہوگئی تو وہاں کے لوگوں نے اسی ماڈل خیز خطے سے رجوع کرتے ہوئے "اسلام"کو اسی خطے کے سپرد کردیا تاکہ خود ارضی وسماوی دولتوں کو صحیح طریقے پرٹھکانے لگانے کاکام اطمینان سے کریں۔
جب امریکا کو روس کے خلاف ایک نئے "اسلام اور جہاد"کو لانچ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کی نگاہ انتخاب بھی اس ماڈلوں کے ماڈل خطے پر پڑی۔ اور یہاں ایک ایسی مقدس گائے پالی جس کا منہ تو یہیں تھا اور پچھلا دودھ دینے والا حصہ اسلام آباد واشنگٹن اور سعودی عرب میں تھا، کھوپڑیاں یہاں چباتی تھیں بلکہ "ہیں "اور دودھ کہیں اور دیتی ہیں۔ ہے نا عجوبہ اور ماڈل۔ وہ مرشد کا ایک شعر ہے
اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حوُر کی
اس خطے پر بلکہ اس کے خونچکاں کفن پر "حوروں " کی نگاہ تونہیں پڑتی ہے اسی لفظ کے ہم وزن ایک اور لفظ والوں کی نگاہ ہمیشہ اس پرپڑی رہتی ہے بلکہ ہٹتی ہی نہیں۔ موجودہ دور کے ہر اسلام کے ماڈل کا ظہور اسی خطے سے ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ ماڈل سازی کے کارخانے یہیں پرہیں۔ اور اب "انوکھے لاڈلے"کی نگاہ بھی اسی خطے کو ماڈل بنانے پر ٹکی ہوئی ہے کچھ ماڈل پچھلے پانچ سال میں ہے اور اب جدھر دیکھیے ماڈل ہی ماڈل اگ رہے ہیں۔ تو پھر اس بنے بنائے جدی پشتی تاریخی ماڈل کو کیوں نہ ماڈل بنایاجائے۔
کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بے داد کہ ہم
آپ اٹھالائے ہیں جو "تیر"خطاہوتاہے
اور جب صوبے کے مدرالمہام یہ کہتے ہیں تو بالکل سچ ہی کہتے ہیں نئے پاکستان میں بھی یہ ماڈل صوبہ ماڈل ہی بنے گا بلکہ بن رہاہے۔ وہ پشتو ٹپہ ہے کہ
شاخ بہت جلد پھولوں سے لد جائے گی کیونکہ اس میں نئی نئی کلیاں ابھرتے دیکھ رہاہوں