ہمیں اپنے آزادی کے ہیروز کی قربانیاں یاد نہیں
شیر علی خان آفریدی شہید برصغیر کے مسلمانوں کا عظیم ہیرو تھا۔ اس نے وائسرائے ہند لارڈ میؤ کو قتل کیا تھا۔ انگریز جج نے اسے سزائے موت دیتے ہوئے کہا کہ ہم لارڈ میؤ کے نام پر لاہور میں ایک ہسپتال قائم کر کے اس کا نام زندہ رکھیں گے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ آزادی کے بعد میؤ ہسپتال کا نام بدل کر شیر علی شہید سے منسوب کرتے۔ ہم نے منٹگمری کا نام تبدیل کر دیا۔ لائل پور کا نام تبدیل کر کے شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد رکھ لیا مگر میؤ ہسپتال کا نام تبدیل نہ کر سکے۔ محترم نعیم صدیقی صاحب مرحوم کی ایک معرکۃ العراء نظم میں یہ مصرع ایک خاص پس منظر میں سوال کے طور پر دہرایا گیا ہے۔ یہ دنیا کس کی دنیا ہےیہ اس سوال کے اصل پس منظر سے ہٹ کر اپنی گفتگو میں دوہرائیں تو اس کا ایک ممکن جواب یہ ہے کہ یہ دنیا دیوانوں کی دنیا ہے۔ روئے زمین کی غالب اکثریت دیوانوں فرزانوں پر مشتمل ہے۔
برصغیر میں 1857ء میں مسلمانوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے لاکھوں جانی قربانیاں دیں۔ شہنشاہ جہانگیر کے دور حکومت میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور آہستہ آہستہ پورے برصغیر پر قابض ہوتے چلے گئے۔ سلطان حیدر علی مرحوم اور سلطان ٹیپو شہید جیسے بہادر اور جرات مند مسلم حکمرانوں نے انگریزوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر اپنے ہی مسلمانوں نے ان سے غداری کر کے انگریز فوج کا ساتھ دیا۔ پنجاب کے انگریز فوج کے فرمانبردار بعض جاگیرداروں نے انگریزی فوج کا ساتھ دیا اور انہوں نے تحریک آزادی میں حصہ لینے والے مسلمان نوجوانوں کو شہید کر کے انگریزوں سے جاگیریں اور وظائف حاصل کئے۔ یوں ان کی غداری کی وجہ سے انگریزوں نے پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا۔
تحریک آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے ہی دیں ہیں۔ ان مسلمان مجاہدین میں ایک نہایت جرات مند اور بہادر خیبر پختون خواہ کے شیر علی خان آفریدی بھی تھے۔ ان کا تعلق آفریدیوں کے کوکی خیل قبیلے سے تھا۔ یہ نوجوان کمشنر پشاور کے گھر میں نوکر تھا اور اس نے اپنے ایک عزیز کو کمشنر کے دفتر کے قریب پرانی دشمنی کی بنا پر قتل کر دیا تھا۔ شیرعلی نہایت شریف اورپختون روایات کا امین تھا۔ اسلئے اس نے موقع ملتے ہی اپنے دشمن کو پشاور چھاؤنی میں واقع کمپنی باغ کے سامنے جو کمشنر ہاؤس کے بہت قریب ہے، قتل کیا۔ شیر علی کو فوراً گرفتار کر لیا گیا اور اسکے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔
عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ سزائے موت ملنے کے بعد جیل کے اندر اسکا مجموعی رویہ اچھا تھا۔ مزید یہ کہ امبیلا کی جنگ میں اس نے انگریزوں کی بڑی خدمت کی تھی۔ انہی خدمات کی بناء پر اسکی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا اور اسے جزائر انڈمان یا کالا پانی بھیج دیا گیا۔ وہاں پر انگریزوں کے وحشیانہ سلوک دیکھ کر اس کے دل میں نفرت کا لاوا اْبلنے لگا۔ اس نے بدلہ لینے کیلئے کسی اعلیٰ انگریز افسر کو جان سے مارنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ شیر علی صوم و صلوۃ کا پابند مذہبی شخص تھا۔ اس کے افسران نے نوٹ کیا تھا کہ وہ دن میں پانچ وقت نماز کی ادائیگی کیساتھ ساتھ باقاعدگی سے روزے بھی رکھتا تھا۔ جیل میں ملازمت کے دوران وہ تھوڑی بہت رقم بھی کماتا تھا جسے وہ جیل میں یتیم قیدیوں پر خرچ کرتا تھا۔ اس عمل سے وہ قیدیوں میں بہت مقبول ہو گیا۔ یہاں تک کہ جیل کے افسران بھی اس سے عزت سے پیش آتے تھے اور اس کے ساتھ سخت رویہ نہیں اپناتے تھے۔
تحریک خلافت کے بہت سارے اکابرین اور دوسرے دینی علماء و مجاہدین اسی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے آرہے تھے۔ یہ قیدی اپنی پوری زندگی سخت مشقت کرکے گزارتے تھے۔ برصغیر میں جزائر میں قیدیوں کیساتھ ناروا سلوک کے خلاف کئی جلسے جلوس ہوئے لیکن اسکا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وائسرائے ہند لارڈ میو (Mayo) کو جب خبر پہنچی تو اس نے قوانین میں تبدیلی کرکے کچھ نرمی پیدا کی۔ اس سلسلے میں وائسرائے نے جزائر کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا۔ 8 فروری 1872ء کی صبح وہ بحری جہاز کے ذریعے جزائر انڈمان پہنچ گیا۔ وائسرائے نے چھوٹی لانچ کے ذریعے رائیل نیوی کے جہاز تک جا کر رات گزارنا تھی۔ چونکہ شیر علی پر سب کو اعتماد تھا اسلئے اسکے آنے جانے کو سیکورٹی اہلکاروں نے نوٹ نہیں کیا۔ شیر علی موقع کو غنیمت جان کر چھوٹی لانچ کے نیچے پانی میں چھپ گیا اور سانس لینے کیلئے ایک بانس کا سہارا لیا۔ جیسے ہی وائسرائے لانچ میں سوار ہوا، شیر علی آفریدی نے پیچھے سے سوار ہو کر وائسرائے پر تیز نوکیلے چاقو نما آلے سے کئی وار کئے۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہوا، جسکی وجہ سے لائٹیں بھی بجھ گئیں۔ سیکورٹی والوں نے شیر علی کو قابو کیا اور اسے مارنے لگے، مگر وائسرائے کے نجی سیکریٹری نے اسے بچا لیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ کس کی ایماء پر اس نے حملہ کیا ہے۔ اسی دوران وائسرائے کے زخموں سے کافی خون بہہ چکا تھا جسکی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔ لارڈ میو جسمانی طور پر بہت مضبوط آدمی تھا جبکہ شیر علی آفریدی دبلا پتلا تھا۔ جب ڈاکٹروں نے وائسرائے میو کے مردہ جسم کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ پیٹھ کا زخم اتنا گہرا تھا کہ دل تک جا پہنچا تھا۔
شیر علی آفریدی کے خلاف دوسرے قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا جسمیں اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ 11 مارچ 1873ء کو جب اسے پھانسی کے تختے پر لٹکانے کیلئے لایا گیا تو وہ بہت مطمئن اور پرسکون دکھائی دے رہا تھا اور باآواز بلند کہہ رہا تھا کہ وائسرائے کو قتل کرنے سے پہلے مجھے اپنے اس انجام کا بخوبی علم تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا اور دو دفعہ اس نے کلمہ شہادت پڑھا البتہ تیسری مرتبہ وہ مکمل نہ کر سکا کیونکہ پھانسی کی گرہ مضبوط ہو چکی تھی۔
جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے فائرنگ کروا کر سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ اس میں بے شمار ہندو وں اور سکھوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سارے ہندوستان میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ایک سکھ ادھم سنگھ نے انگلستان میں قتل کر دیا۔ مگر ہمیں اپنے حریت پسندوں اور مجاہدین کی قربانیاں یاد نہیں۔