افغانستان سے امریکی انخلاء التوا کا شکار
امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء اب یکم مئی نہیں بلکہ رواں برس ہی 9/11 کی 20 ویں برسی پر ہوگا۔ ان کے مطابق افغان امن مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ افغان امن عمل میں پاکستان، روس، چین کا کردار اہم ہے۔ وقت آ گیا ہے امریکہ کی طویل ترین جنگ کو ختم کیا جائے۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد افغانستان کی معاونت جاری رہے گی۔ اس میں ملٹری معاونت شامل نہیں ہو گی۔ پاکستان افغانستان کی مدد کیلئے مزید اقدامات کرے۔ روس، چین اور ترکی بھی افغانستان کی مدد کیلئے مزید اقدامات کریں۔ یہ تمام ممالک افغانستان کے مستقبل سے متعلق اہم سٹیک ہولڈرز ہیں۔
گزشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان افغان امن معاہدے کے مطابق انخلا کے لیے طے کی گئی مئی کی تاریخ میں اب تاخیر ہو جائے گی۔ یہ انخلاء اب 2001 میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے 20 برس مکمل ہونے پر ہو گا۔ امریکی صدر بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن کو پورا کرنا مشکل ہو گا۔ توقع ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن ہونے والے فیصلے سے بدھ کے روز بیلجئیم کے دارالحکومت برسلز میں نیٹو اتحادیوں کو آگاہ کریں گے۔
دوسری طرف طالبان نے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی تاخیر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخر میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق ترکی میں ہونے والے اجلاس میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ نہیں جاتیں۔ قطر میں طالبان دفتر کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا ہے ' جب تک تمام غیر ملکی افواج مکمل طور پر ہماری سرزمین سے نکل نہیں جاتیں تب تک (ہم) افعانستان سے متعلق کسی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
گزشتہ برس فروری 2020ء میں طے پانے والے معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر طالبان اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو امریکہ اور اس کے تمام اتحادی فوجی 14 مہینوں میں انخلا کر جائیں گے۔ ان وعدوں میں یہ بھی شامل تھا کہ طالبان اپنے زیرِ قبضہ علاقے القاعدہ یا کسی بھی اور شدت پسند گروہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور قومی امن مذاکرات کو جاری رکھیں گے۔ اگرچہ طالبان نے تاریحی معاہدے کے تحت بین الاقوامی فوجیوں پر حملے بند کر دیے تھے، لیکن پھر بھی انھوں نے افغان حکومت کے خلاف جنگ ابھی تک جاری رکھی ہوئی ہے۔
اسی سلسلے میں گزشتہ ماہ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ اگر یکم مئی تک تمام غیر ملکی افواج نے ملک سے انخلا نہ کیا تو امریکی اور نیٹو افواج پر حملے دوبارہ شروع کر دیے جائیں گے۔ جبکہ بائیڈن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ طالبان کو خبردار کر دیا گیا ہے اگر انھوں نے انخلا کے دوران امریکی فوجیوں پر کوئی حملہ کیا تو انھیں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک طرف تو یہ سلسلے چل رہے ہیں کہ امریکی و نیٹو افواج کو افغانستان سے کیسے اور کب نکالا جائے تو دوسری طرف تعداد کے حوالے سے نئی خبریں آرہی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی اطلاع ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی کل تعداد 3500 ہے، جو پہلے کی اطلاع سے ایک ہزار زیادہ ہے۔ جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اب بھی اس کے تقریباً 25 ہزار فوجی ہیں۔ ساڑھے تین ہزار امریکی فوجیوں کے علاوہ افغانستان میں نیٹو کے قریب 7000 فوجی بھی موجود ہیں۔ اس خبر سے مذاکرات کا عمل اور بھی پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے ڈیڈ لائن کو اہمیت کا حامل قرار دیا تھا۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی سست روی کو دیکھتے ہو ئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے قبل کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس ماہ کے آخر میں استنبول میں کانفرنس میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ افغان طالبان اس کانفرنس میں شرکت کریں۔
2001ء میں شروع ہونے والی امریکی تاریخ کی طویل ترین اس جنگ میں امریکہ نے کھربوں ڈالر اور 2000 سے زیادہ فوجی گنوائے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے اس طرح کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر غیر ملکی فوجی قوتیں بغیر کسی دیرپا معاہدے کے افغانستان سے نکل گیئں تو طالبان اقتدار پر قبضہ کر لیں گے۔
افغان صدر اشرف غنی کی رواں سال کے آخر میں انتخابات کروانے کی تجویز کو طالبان نے فوری طور سے مسترد کر دیا ہے۔ اس بارے میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا، " اس طرح کے اقدامات اور انتخابات نے ماضی میں بھی افغانستان کو بحران کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ وہ اب ایک ایسے عمل کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو ہمیشہ ہی سے اسکینڈلز سے بھرپور رہا ہے۔ ہم اس کی حمایت کبھی نہیں کریں گے۔
افغانستان میں الیکشن ہمیشہ سے ایک بہت گھمبیر عمل رہا ہے۔ انتخابات کی راہ میں بہت سارے مسائل آڑے آتے ہیں۔ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں انتخابات دھوکا دہی، بہت کم ووٹرز ٹرن آؤٹ اور شورش پسندوں کے لیے تشدد پھیلانے کا ایک اور موقع ثابت ہوتے ہیں۔ اب امریکہ، روس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز چاہتے ہیں کہ افغانستان میں کسی نا کسی شکل میں ایک عبوری حکومت تشکیل پا جائے۔ لیکن موجودہ صدر اشرف غنی کا اصرار ہے کہ 'قائدین کا انتخاب، صرف بیلٹ باکس کے ذریعے ہی کیا جائے۔
پاکستان کا کردار تمام ہی کلیدی پلئیرز کے نزدیک اہم ہے۔ ماسکو فارمیٹ میں اسلام آباد کی شمولیت نہ صرف اس کردار کو باضابطہ تسلیم کیا جانا ہے بلکہ یہ روس سے بڑھتے تعلقات کی بھی عکاس ہے۔ پاکستان کے لیے یہ بات مزید تقویت کا سبب ہے کہ اس فارمیٹ میں بھارت کی حیثیت محض ایک ایسے تماشائی کی سی ہے جو دوسروں کو مرکزی کردار نبھاتا دیکھ کر جلتے ہیں۔