افغانستان میں غذائی بحران
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی، سفیر محمد صادق نے افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اس حوالے سے اپنی کوششوں کو مزید تیز کرے۔ افغانستان کی بروقت امداد نہ ہونے کی صورت میں خوراک کا بحران جنم لے سکتا ہے۔ افغانستان میں غذائی بحران سے نمٹنے کے لئے 351 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔ 30 فیصد تک امداد کی گئی ابھی بھی افغانستان میں بحران جنم لے سکتا ہے۔ افغانستان میں مہنگائی بڑھ رہی ہے جو حالات کو خرابی کی طرف لیجائے گی۔ 1 لاکھ بیس ہزار لوگ بے گھر ہو چکے۔
حال ہی میں روسی دارلحکومت ماسکو میں افغانستان کے مسئلے پرماسکو فارمولا" میٹنگزکے نام سے اجلاس ہوا جس میں افغان طالبان کے وفد کے ساتھ 10 ممالک کے وفود نے ملاقات کی۔ اجلاس میں پاکستان کے ساتھ ساتھ چین، ایران، بھارت، قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان اور کرغیزستان اور افغانستان کا اعلیٰ سطح کا وفد شریک ہوا۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور انسانی بحران کے ساتھ ساتھ کابل میں تمام طبقات کی نمائندہ حکومت کی تشکیل پر بات چیت ہوئی۔ اجلاس کے شرکاء نے افغانستان کی عسکری وسیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ جب تک اقتدار سنبھالتے وقت کیے جانے والے وعدے پورے نہیں ہوجاتے روس، طالبان کو تسلیم نہیں کرے گا۔ ان وعدوں میں نئی حکومت میں سیاسی اور نسلی گروپوں کی شمولیت شامل ہے۔ بہرحال افغانستان کی امداد جاری رکھیں گے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ روس، چین اور پاکستان، افغانستان کو امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ اس وقت طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امسال اگست کے وسط میں 20 سال بعد امریکا و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد افغانستان کی حکومت تحلیل ہوگئی تھی۔ 1979ء سے 1989ء تک افغانستان میں تباہ کْن جنگ لڑنے والا ملک روس، خطے میں عدم استحکام کو روکنے کے لیے سفارتی اقدامات اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ عدم استحکام سے اس کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ روس، خاص طور پر وسطی ایشیا کی سابق سویت جمہوریتوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کے امکانات سے پریشان ہے۔ اس خطے کو ماسکو دفاعی بفر کے طور پر دیکھتا ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے حصول کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے تعمیری روابط اور اور انسانی امداد کی ضروری ہے۔ خوشحال اور پرامن خطے کے لیے تمام علاقائی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان قریبی تعاون ضروری ہے۔
افغانستان کے عوام کو امن، ترقی اور استحکام کی ضرورت ہے اور وہ اس کے مستحق ہیں اور عالمی برادری ان کو اس راستے پر چلنے میں مدد کرے۔ افغانستان میں امن سے پورے خطے میں استحکام، محفوظ سرحدیں، رابطہ کاری میں اضافہ، مہاجرین کی واپسی اور دہشت گردی کے انسداد کی کوششوں میں فائدہ ہوگا۔ افغانستان کی امداد اور معاشی تعاون جاری رکھنا انسانی بحران سے بچنے اور جنگ زدہ ملک کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان کا ماننا ہے کہ امن سے خوش حالی اور مالی استحکام آئے گا اور افغان امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے عالمی برادری پاکستان کے کردار کو تسلیم کرچکی ہے۔
افغان طالبان کی افغانستان پر حکومت کے بعد وہاں کی معاشی صورت حال مبصرین کے مطابق خرابی کی طرف جا رہی ہے۔ امریکہ نے افغانستان کے نو ارب ڈالر سے زائد فارن ریزرو جو امریکی بینکوں میں تھے، منجمد کیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف سرمایہ کار مستقبل کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ افغانستان کے اندر بینکنگ سیکٹر تقریباً بند پڑا ہے اور بینکنگ سیکٹر کا مستقبل بھی تجزیہ کاروں کے مطابق شدید بحران کا شکار ہے۔ لوگوں کے پاس رقم ختم ہونا شروع ہوگئی ہے اور افغانستان کے اندر مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔
جس طرح سیاسی بحران ہے تو اسی طرح معاشی طور پر بھی لوگوں میں عدم اطمینان کی فضا قائم ہے۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ جس طرح ماضی میں جنگ کی وجہ سے افغانستان کی کرنسی کی قدر میں کمی آئی تھی، شدید مہنگائی آئی تھی، اور بینکوں کے میں رکھے گئے لوگوں کی پیسے ان کو وقت پر نہیں مل رہے تھے، بعد میں جب اصلاحات کی گئیں تو لوگوں نے بہت خسارے کا سامنا کیا تھا۔
افغانستان بیرون ملک میں رکھے گئے پیسوں پر اور بیرونی امداد پر چلنے والا ملک ہے۔ اسی طرح افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو 90 فیصد امداد پر منحصر ہے اور پڑوسی ممالک سمیت پوری دنیا کے ساتھ تجارت کرتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ فارن ایکسچینج ریزرو کی منجمد ہونے اور بیرونی امداد رکنے کی وجہ سے افغانستان میں مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی آئے گی۔ خدشہ ہے کہ بینکوں میں پیسے ختم ہو جائیں گے اور ملک میں فزیکل کیش کی کمی کا سامنا ہو گا کیونکہ متعلقہ بینکوں کا پوری دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو مستقبل کے حوالے سے بہت سے خدشات ہیں۔
بیرون ملک سے آنے والی امداد میں کمی کے بعد افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکو کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے واپس 90 کی دہائی کے حالات کی جانب جانے کا خدشہ ہے۔ افغانستان کے بجٹ کا 80 فیصد امریکہ اور دوسرے عالمی ڈونرز فراہم کرتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو اگر ڈونرز نے فنڈ میں کمی جاری رکھی تواس کے نتیجے میں افغان حکومت فوری طورپر ختم ہو جائے گی۔ عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق 2011ء میں افغانستان کے لیے عالمی سالانہ ترقیاتی امداد کی مد میں سب سے زیادہ 6.7 ارب ڈالر کے فنڈ دیے جا رہے تھے۔ تاہم 2019ء میں یہ امداد کم ہو کر4.2 ارب ڈالرہو گئی۔