میلے کی کہانی
پرسوں نمل یونیورسٹی گیا تھا۔ پروفیسر طاہر ملک نے یوں کہہ لیں بندوق کی نوک پر بلایا۔ کچھ طالبعلموں سے گفتگو کرنی تھی جس سے میری ہمیشہ جان جاتی ہے۔ میں خود کتنے لوگوں کی باتوں کو سنجیدگی سے سنتا ہوں کہ کوئی میری سنے گا۔ ہاں جن کو سنتا تھا وہ اب رہے نہیں چاہے وہ ابن حنیف، ڈاکٹر ظفر الطاف ہوں، اعجاز محمود رانا، نعیم بھائی۔
ہاں ڈاکٹر انوار احمد صاحب کی شخصیت اور باتوں نے ہمیشہ مجھ پر اپنا اثر چھوڑا۔ پھر شاہد صدیقی صاحب ہیں جن کے ساتھ گھنٹوں گزارے جاسکتے ہیں کافی، ادب اور ادیبوں پر گفتگو کرتے۔
خیر یونیورسٹی طالبعلموں نے مجھے خلاف توقع اپنے سوالات اور سنجیدگی سے متاثر کیا۔
کتب میلہ میری کمزوری رہا ہے۔ پبلشرز بڑی دور سے آئے ہوئے تھے۔ جہلم سے آمر شاہد ہوں، ہری پور سے زاہد کاظمی، لاہور سے ارسلان، اور دیگر مہربانوں نے خوب رونق لگائی ہوئی تھی۔
کچھ دوستوں نے کتابیں مفت تحفے میں دیں تو میں نے چھ سات کتابیں خود ڈھونڈ کر خریدی اور سب اولڈ بکس۔ آصف فرخی صاحب کا مجموعہ ارسلان بھائی کے اسٹال سے خریدا۔ آصف فرخی بارے جو خاکہ عرفان جاوید کی شاہکار کتاب "آدمی "میں پڑھا تو انہیں مزید جاننے پر طبیعت مچل گئی تھی۔ لہذا فورا خرید لیا۔ بک کارنر کی نئی کوشش شاہکار ناول "ڈیون" کا ترجمہ بھی یقینا بڑا کام ہے جو شوکت نیازی صاحب نے کیا ہے۔ ترجمے کی مشکل یہ ہے کہ ایک تو یہ بہت مشکل کام ہے۔ دوسرے اگر ترجمہ اچھا ہو تو آپ کو کوئی نہیں سراہتا سارا کریڈٹ ناول نگار کو جاتا ہے۔ ہاں اگر ترجمہ اچھا نہ ہو تو سارا نزلہ متراجم پر گرتا ہے۔ بہرحال دنیا کا مشکل کام کسی ایک زبان کی کہانی کو دوسری زبان میں ترجمہ کرنا ہے اور ترجمہ ایسا ہو کہ ترجمہ نہ لگے۔
میری کتابوں اور بک اسٹورز کے حوالے سے ہمیشہ یہ ماننا رہا ہے کہ کتابوں کی دکان وہی ہوتی ہے جس میں سے گاہک کوئی کتاب لیے بغیر نہ جائے۔ قصور قاری کا نہیں اگر وہ خالی ہاتھ نکل گیا۔ قصور آپ کا ہے کہ اسے خالی ہاتھ جانے دیا۔ اگر قاری آپ کی دکان پر آیا ہے تو یقین رکھیں وہ کتاب خریدنے آیا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کے ہاں ایسی کتب ہیں کہ وہ بغیر خریدے نہ جائے۔ خریدنے پر مجبور آپ نے کرنا ہے کہ وہ برگر یا جوتا خریدنے کی بجائے کتاب خریدے۔
میں کتب کے معاملے میں نیگٹو فیڈ بیک کا بالکل قائل نہیں ہوں۔ لیکن پھر بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بہت ساری کتابیں آپ اٹھا کر پڑھ نہیں سکتے واپس رکھ دیتے ہیں۔ کتابوں کا معیار بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ دھڑا دھڑ بکس کا چھپنا اور ان کا معیاری نہ ہونا پبلشرز کو ہی نقصان دے گا۔ قاری مایوس ہوگا۔ کتابوں کے معیار پر جو کمپرومائز ہورہا ہے وہ اچھا شگون نہیں ہے۔ اب تو لگتا ہے اتنے پڑھنے والے نہیں رہے جتنے لکھاری ہیں۔ لیکن پھر وہی بات آپ اور میں کون ہوتے ہیں اس کا فیصلہ کرنے والے۔ سارے فیصلے وقت کرتا ہے کہ کون سی کتاب برسوں بعد بھی زندہ رہے گی یا ردی میں خریدی گئی کسی غریب کے چولہے کا ایندھن بنے گی۔
پورے میلے میں پھر بھی میں نے زیادہ پرانی کتابیں اس اسٹال سے جا کر خریدیں جہاں سے میں اور پروفیسر طاہر ملک پنڈی جا کر اتوار کے روز فٹ پاتھ سے گھنٹوں لگا کر خریدنے جاتے تھے۔ ایک دفعہ اس فٹ پاتھ سے ہی میرے لیے ہروفیسر طاہر ملک بالزاک کی شارٹ اسٹوریز کی ایک نایاب بک لائے تھے جو میں نے سنبھال کر اپنے بیڈ کے اوپر مجھے مسلسل جھانکتی شیلف میں رکھی ہوئی ہے اور کبھی کبھار رات گئے نکال کر پڑھتا ہوں۔
اتنی نئی کتابوں کے ہجوم میں پتہ نہیں کیوں پرانی کتابوں کا لمس، بوسیدہ کاغذوں کی مخصوص خوشبو اور پیپر بیک ٹائٹلز کی کشش آج بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔ شاید یہی عمر بڑھنے کی نشانی ہے۔ بوڑھا ہونے کا سفر ہے کہ سب کچھ پرانا ہی اچھا لگتا ہے چاہے وہ ماضی ہو، پرانے دوست ہوں یا پرانی کتابیں۔
وہی مارک ٹوئین کی بات۔۔ کتابیں ہوں، بہت سارے دوست ہوں لیکن ضمیر سویا ہوا ہو تو زندگی گلزار ہے۔