اخلاقی آلودگی
نو عمر بچے نے اپنے باپ سے پوچھا کیا آپ کے عہد میں اس طرح ماحول آلودہ ہوتا تھا کہ آپ کو ماسک سے منہ چھپاتے ہوئے گھر سے باہر نکلنا پڑے۔ والد نے نفی میں سر ہلایا اور کہا نہیں ہم اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے زمانے میں بیماریاں اور خرافات ایسی نہ تھیں کہ زندگی اجیرن ہو جائے، نہ ہی دولت کی ایسی دوڑ تھی، کہ ہر ایک کی نظر دوسرے کی جیب پر ہو۔ رشوت ستانی اور لوٹ کھسوٹ میں اگر چند افراد شامل بھی تھے تو ان میں اتنی اخلاقی جرات نہ ہوتی کہ وہ سماج کا سامنا کر سکیں، اس لئے وہ رات کی تاریکی میں گھر آتے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے گھر چھوڑ جاتے۔ ایسے افراد اور خاندان سے تعلق رکھنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، حتیٰ کہ بچے بھی ان سے فاصلہ رکھتے۔ ماحول کو آلودہ رکھنے میں بڑا ہاتھ "اخلاقی آلودگی" کا بھی ہے۔ ٹمبر مافیاز سے لے قومی اثاثہ جات کو اپنی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنانے والوں کے بچے بھی قوم کے ساتھ سموگ کی اذیت میں گزر رہے ہیں، اس کے باوجود اخلاق اقدار مزید زوال پذیر ہیں، نت نئی وارداتیں ہمارے سماج کی ایسی تصویر کشی کر رہی ہیں جیسے پیسہ لوگوں کے" دھرم "کا درجہ پا رہا ہو۔
فیصل آباد سے بیرون ملک مقیم ماموں زاد کزن کے واٹس ایپ نمبر سے راقم کو پیغام ملا کہ کچھ رقم آپ کے پاس رکھوانا چاہتا ہوں، آپ ملتان کی کسی اچھی سوسائٹی میں مجھے پلاٹ خرید کر دیں، مجھے آپ کا اکاونٹ نمبر درکار ہے۔ ہدایت کی جس نمبر سے Textکیا ہے اس پر شناختی کارڈ کی دونوں سائیڈ کی سکین کاپی، بنک اکاونٹ کی مکمل تفصیل دی جائے۔ جب راقم نے کال کی فون کے مصروف ہونے کی ٹون مسلسل رہی، البتہ اس نمبر سے مسلسل پیغامات وصول ہوتے رہے کہ میں بنک میں کھڑا ہوں جلد از جلد کریں، وقت کم ہے، عاجز نے فیس بک میسنجرکے ذریعہ کزن محمد اکرام عمران سے جب پوچھا کہ کونسے بنک کا اکاونٹ نمبر درکار ہے، تو اس نے حیرت سے پوچھا کہ کس لئے؟ جب میں تفصیل بتائی تو کہا کہ یہ فیک پیغام ہے، محتاط رہیں۔ بعد ازاں اس نے فیس بک اکائونٹ ہیک ہونے کی اطلاع سب کو دے دی۔
اسی سے ملتا جلتا پیغام میرے ایک کولیگ کو بھی بیرون ملک سے ملا، اسی طرح کی "واردات" ڈالنے کی کاوش کی گئی، تھوڑی سی تحقیق سے وہ بھی لٹنے سے بچ نکلے دونوں کا مقصد اکاونٹ سے رقم ہتھیانا تھا، ہر چند سائبر کرائم کی روک تھام کے لئے قانون سازی ہوچکی ہے، مگر پھر بھی جرائم کی بھی بھر مار ہے۔ حلقہ احباب میں سے ایک کی جیب پر "تعلیم یافتہ گروہ" ڈاکہ مارنے میں کامیاب رہا، گوگل شیٹ پر لنک کے ذریعہ سرمایہ کاری کرنے اور بھاری بھرکم منافع کمانے فوری رقم لینے کے لالچ میں تین لاکھ کی رقم ہتھیانے میں نوسر باز کامیاب رہے، تنخواہ دار طبقہ کے لئے یہ واردات نہیں بلکہ "سانحہ" تھا، اس نوع کے اکاونٹ دوبئی سے آپریٹ ہونے کی اطلاعات ہیں۔
مڈل ایسٹ میں انسانی جسم کے اعضاء کی بلیک مارکیٹ میں خریدوفروخت کے حوالہ سے اقوام متحدہ نے الرٹ جاری کیا ہے، اس میں ملوث گروہ مشرق وسطی میں روزگار فراہم کرنے کے لئے کاغذات کی تیاری میں مدد اور اپنی جیب سے ٹکٹ دلوانے کا لالچ دے کر متاثرہ فرد کے قیمتی اعضاء نکال لینے کے بعد فروخت کرتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل افراد میں غالب تعدادبد قسمتی سے اہل وطن کی ہے۔ ایسے افراد کی وجہ سے یو اے ای ہمارے شہریوں کو ویزے جاری نہیں کررہا ہے۔
حلقہ احباب میں سے ایل ایل بی کے کلاس فیلو اور دیرینہ دوست سرکاری کالج بہاولپور میں انگریزی کے استاد کے طور پر انتہائی ایمانداری اور دیانت، محنت سے فرائض منصبی انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں فون پر بتایا کہ ایک پرائیویٹ ہاوسنگ کالونی ملتان میں معاملہ درپیش ہے۔ انھوں نے اقساط میں ایک پلاٹ بک کروایا تھا، انکی بہن اور دیگر عزیزوں نے انکی دیکھا دیکھی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی جسارت کی، جس طرح ہر سفید پوش سر چھپانے کی راہ تلاش کرتا اور سہارا ڈھونڈتا ہے، مگر ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے، کم وبیش بیس لاکھ کی رقم پر پراپرٹی ڈیلر نے ہاتھ صاف کیا ہے۔ وہ ڈیڑھ سال سے رقم کی وصولی کے لئے چکر لگارہے ہیں، اب انھیں معلوم ہوا کہ ضلع وہاڑی کے کسی ایم پی اے کے ساتھ ہماری طرح مذکورہ پراپرٹی ڈیلر نے دھوکہ کیا، اسکی رقم بھاری بھرتھی اس نے ڈیلر کو گرفتار کروایا ہے، اس کے بعد ہاوسنگ کالونی کے مالک سے رقم کی واپسی کی بابت بات کی تو اس نے کہاکہ اس کے کنٹینر(یہ اصطلاح پراپرٹی ڈیلر کوبطور کمیشن مفت پلاٹ کے لئے مستعمل ہے) سے اگر رقم بچ گئی تو آپ کی اشک شوئی کی جائے گی۔
پریشانی کے عالم میں محب وطن اور انتہائی شریف النفس پروفیسر کی زبان سے یہ سن کر دل کو صدمہ پہنچا کہ یہ ملک ہم جیسوں کے رہنے کے قابل اب نہیں رہا۔ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی جمع پونجی اس طرح لٹ جائے تو اس سے بڑھ کر اور بدقسمتی کیا ہوگی، پراپرٹی مافیاز کے خلاف سرکاری اشتہارات کیا ایسے بے ضرر لوگوں کے دکھوں کا مداوہ کرسکیں گے؟ عدلیہ کے در پر دستک کا مطلب اپنی نسل کو مقدمات کی پیروی کا دکھ دے کررخصت ہونے کے مترادف ہے، بااثر فرد کی بدولت موصوف کو سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا، ورنہ قوم کے استاد کی کیا اوقات کہ اسے سزا دلوا سکے، یہ رویہ سماج کے قحط الرجال کی نشاندہی کرتا ہے۔
ایک طرف قریباً 78 ہزار حفاظ کرام مدارس میں ہر سال تیار ہوتے ہیں، حجاج کرام، اولیاء کرام، مریدین، صالحین، قرآن اکیڈیمیز کی بھی معاشرہ میں کمی نہیں، دوسری طرف روزانہ کی بنیاد پر مشتری "ہوشیار باش"کے اشتہارات تسلسل سے اخبارات میں بھی شائع ہوتے ہیں، ماحول کی آلودگی شائد اس قدر خطرناک نہ ہو جتنی اخلاقی آلودگی معاشرے کے لئے زہر قاتل بن رہی ہے۔ پہلے زمانے کے شاعر کو شکوہ تھا کہ وہ قاتل کو پہنچاننے سے اس لئے قاصر ہے کہ سب نے ہاتھوں پر دستانے پہن رکھے ہیں، فی زمانہ ہر شہری کے چہرے پر ماسک سے یہ تعین کرنا بھی مشکل ہے کس کس کی اخلاقی آلودگی سے سادہ لوح عوام آئے روز متاثر ہو رہے ہیں۔
صد افسوس! سب کی ہر جیب پر نظر سے "مشتری ہوشیار باش" کا اشتہار اب تمام شعبہ ہائے زندگی پر صادق آتا ہے۔ سرکار صرف ماحول آلودگی کا خاتمہ نہ کرے بلکہ "اخلاقی آلودگی" کا بھی سد باب کرے، جس سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔