Pasand Ki Shadi
پسند کی شادی
ہمارے یہاں جب کوئی نوجوان لڑکا اپنی شادی کے لیے اپنے والدین کو اپنی پسند بتاتا ہے تو ننانوے فیصد والدین شدید رد عمل دیتے ہیں اور ایک دم ان کی پسند کو رد کرکے بیان داغ دیتے ہیں کہ تمہاری شادی ہم اپنی پسند سے چھان پھٹک کے کریں گے۔
اس کے بعد والدین اور اولاد کے درمیان ایک سرد جنگ چھڑ جاتی ہے کبھی اس جنگ میں والدین جیت جاتے ہیں کہ اس جنگ کے دوران لڑکی کا رشتہ کہیں اور ہو جاتا ہے اور لڑکے بکتے جھکتے چپ ہو جاتے ہیں۔
کہیں بچے جیت جاتے ہیں ان کی ضد کے سامنے والدین کو پسپائی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
دونوں اطراف اس معاملے کو ٹھیک سے ہینڈل نہیں کرتیں۔
یہاں والدین سے میرا سوال یہ ہے کہ اپنی پسند اور مرضی سے کھانا کھانے والے، شاپنگ کرنے والے، سونے جاگنے والے، کیرئیر کا انتخاب کرنے والے اہنی پسند سے اپنا جیون ساتھی کیوں منتخب نہیں کر سکتے؟
بچوں نے روٹی نہیں کھانی تو پیزا آ گیا، سبزی نہیں کھانی تو برگر آرڈر کر دیا، دال نہیں پسند تو لوڈڈ فرائز منگوا لیے۔
پھٹی اور گری ہوئی پتلون پہننے سے والدین کو مسئلہ نہیں ہے، ٹخنے سے اوپر ٹراوزر پہن کے بنا دوپٹے کے گھروں سے باہر نکلنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ساری ساری رات دوستوں کے ساتھ گھومنا منع نہیں ہے سارا سارا دن اوندھا پڑے سونا منع نہیں ہے تو اپنی پسند کی شادی پہ کیا اعتراض ہے۔۔
محترم والدین!
خاص طور سے لڑکوں کے والدین، جب بچوں کو ان کی مرضی کی زندگی دی جا رہی ہے تو شادی کیوں وہ اپنی پسند سے نہیں کر سکتے۔
آپ والدین اپنی پسند سے اپنے بیٹوں کی شادیاں کرکے کون سا بہوؤں سے خوش ہوتے ہیں رشتہ پکا کرتے ہی آپ چھوٹی چھوٹی بے بنیاد باتوں پہ بدظن ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور شادی کے بعد اپنی ہی پسند کی ہوئی لڑکی سے باقائدہ جنگ شروع کر دیتے ہیں۔
تو جب یہی رویہ رکھنا ہے تو لڑکوں کو اتنا حق تو دیں کہ وہ خوش اور مطمئن رہیں کہ انہوں نے اپنی پسند سے شادی کی ہے بعد میں شادی جیسی بھی چلے ان میں ایک سینس آف اچیومنٹ ہوتا ہے کہ انہوں نے جسے چاہا اس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ورنہ وہ ساری عمر ٹھنڈی آہیں ہی بھرتے رہتے ہیں۔ خود کو ناکام تصور کرتے ہیں اور خود ترسی کا شکار رہتے ہیں۔
محترم والدین! جب آپ کا بیٹا آپ سے شادی کی خواہش کا اظہار کرئے تو اس کی خواہش کا احترام کریں وہ اپنی پسند بتائے تو اس کی بات دھیان سے سنیں اس پہ خطرناک ردعمل مت دیں بلکہ اس سے اس کی پسند کی تفصیلات پوچھیں کہ کس خصوصیت کی بنیاد پہ بیٹے نے اپنے لیے اس لڑکی کو جیون ساتھی کے طور پہ پسند کیا۔
بعض مرتبہ ہمارے بچے وقتی پسندیدگی کو محبت سمجھتے ہیں اور ظاہری اشیاء پہ مر مٹ کے زندگی بھر کا جذباتی فیصلہ کر بیٹھتے ہیں اگر ہم ان سے تفصیلی سوال جواب کریں تو ناصرف ہمارا بلکہ بچوں کا بھی ذہن کلئیر ہوگا بچوں کو خود بھی اپنی پسندیدگی کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملے گی یہ ایک بہت باریک نقطہ ہے اس کو سمجھیں۔
بچے سے سب سے پہلے اس کی پسند کی ہوئی لڑکی کی خصوصیات پوچھیں کہ کس خصوصیت پہ بچے نے اسے زندگی بھر کے ساتھ کے لیے سلیکٹ کیا ہے۔
ان کے جواب اطمینان بخش نا ہوئے تو یہ صرف آپ کے لیے ہی نہیں بچوں کے ذہنوں میں بھی سوالیہ نشان ہوں گے۔
دوسری بات ٹین ایج کے بعد اپنے بچوں سے وقتاً فوقتاً ان کی شادی کے موضوع پہ کھل کے بات کریں ان کی ذہن سازی کریں اچھے برے لوگوں کی پہچان بتائیں ان کی پسند کا معیار بنائیں انہیں ظاہریت پسند نا بنائیں کہ ظاہری خوبصورتی پہ مر مٹیں۔ دولت کا پجاری نا بنائیں کہ امیر کبیر لڑکی ان کا معیار بن جائے انہیں شروع سے سمجھائیں اور سیکھائیں کہ شکل و صورت اور مال و دولت، ڈگریاں، سٹیٹس، بولڈنیس کبھی بھی پسند کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔
کیریکٹر، مزاج سب سے اہم ہے اس کے بعد تربیت دیکھیں۔
بچوں کی پسند کو معیار دیں۔
انہیں واضح طور پہ بتاتے رہیں کہ آپ کے خاندان کے ساتھ کیسی لڑکی چلے گی۔
ہمارے یہاں والدین شادی کے نام پہ ڈسکس کرتے ہیں
میں تو اپنے سب ارمان پورے کروں گی
ہزار لوگوں کا ولیمہ ہوگا
چھ سات فنکشن میں الگ مینیو ہوگا۔
اونچے گھرانے میں رشتہ کریں گے تاکہ شریکے جل کے کوئلہ ہو جائیں۔ وغیرہ وغیرہ
پریکٹیکل لائف سے دور دور تک ان پلانگز کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
بچوں کی ذہن سازی شروع سے کریں اچھے برے انسان کی پرکھ سیکھائیں، اس کے بعد بچوں کی پسند کو کھلے دل سے قبول کریں۔ ان سیکیور ہو کے انکار کرنے کے بجائے اپنی ان سیکیورٹیز بچوں کے سامنے رکھیں انہیں بچوں سے ڈسکس کریں اور ان کا حل نکالیں۔
بچوں سے ایک وعدہ ضرور لیں کہ وہ شادی کو نبھائیں گے آج شادی کی کل توڑ دی یہ نہیں چلے گا اور انہیں تنبیہہ کریں کہ وہ اچھی طرح سوچ سمجھ کے شادی کریں شادی کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے اس کے ساتھ بچے کی پسند کی ہوئی لڑکی سے ملیں اسے جج نا کریں اسے اعتماد دیں اپنائیں۔
اس سے اپنے حالات کھل کے ڈسکس کریں مثلاً لڑکا بڑا ہے اس پہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ہیں تو یہ بجائے اس کے کہ لڑکے کی شادی نا کی جائے اور اسے بہن بھائیوں کے انتظار میں بیٹھایا جائے بلکہ اس سے ڈسکس کر لیا جائے کہ تم اپنی ذمہ داریاں پوری کرو گے اور اس لڑکی کو بھی پہلے سے لڑکے کی ذمہ داریوں کے بارے میں اعتماد میں لینا چاہیے۔
اس کے بعد اچھا یہ ہے کہ شادی کے بعد بچوں کو سزا کے طور پہ نہیں بلکہ ایک الگ اور مکمل فیملی یونٹ کے طور پہ انڈیپینڈنٹ کر دیں ان کی سپورٹ جاری رکھیں مگر انہیں اپنے فیصلے خود لینے دیں۔
محترم والدین اپنے بیٹوں کو ان کی بیویوں سے شاندار harmony اور تعلق بنانے میں ان کی مدد کریں یہ بیویاں ان کی زندگی بھر کا ساتھی ہیں ان کے دکھ سکھ کی ساتھی ہیں آپ بیٹوں کو بیویوں سے بیزار کرکے بہوؤں پہ ہی نہیں خود بیٹوں پہ شدید ظلم کرتے ہیں انہیں ایک بہترین ساتھی سے محروم کر دیتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ والدین ساری عمر ساتھ نہیں رہتے آپ کے بیٹے بعد میں تنہا رہ جاتے ہیں بیویاں تو بچوں میں دل لگا لیتی ہیں شوہر اکیلے رہ جاتے ہیں اور پھر انہیں دنیا اپنے مقاصد کے طور پہ ڈیل کرتی ہے۔
یہ نا گھر کے نا گھاٹ کے
انہیں ان کے گھر سے متنفر نا کریں ان کے گھر کو ان کی جنت بنانے میں اپنا مثبت رول ادا کریں۔ بڑے ہیں تو ظرف بڑا رکھیں۔