Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Dil Ka Piyala

Dil Ka Piyala

دل کا پیالہ

شہر لاہور میں مستقل ڈیرے جمائے کم و بیش ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا۔ صبح و شام دفتر آنے جانے کے لئے بھی ٹھنڈی سڑک (مال روڈ) ہی مستقل راستہ متعین ہو چکی تھی۔ مال روڈ کی ٹھنڈک کے علاوہ اس کے گردوپیش بنی لال اینٹوں والی عمارتیں ہمیشہ ہی توجہ کھینچی رہیں۔ ہوائی اڈے (ائرپورٹ) کی طرف سے آتے ہوئے میاں میر پل اترتے ہی مال روڈ کا سحر شروع ہو جاتا ہے۔ پولیس لائنز (اپر مال) اورسول سیکرٹریٹ (لوئر مال) کے بیچ کئی ایک تاریخی اور مشہور عمارتیں اہلِ ذوق کو دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔

تہواروں کے موقع پہ ان عمارتوں کی برقی قمقوں سے سجاوٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جہاں عمارتوں کا حسن آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے وہیں برقی لاٹیں آنکھوں کو چندھیاتی ہیں۔ کئی عمارتوں کو اندرسے دیکھنے کا موقع ملا اور چند ایک عمارتوں سے جڑی حیرت انگیز داستانیں بھی سنیں۔ مال روڈ پہ واقع پی سی ہوٹل کی عمارت ہو یا حکومتی ہرکاروں سے متعلقہ عمارتیں، قدیم و جدید موبائل فون سے لیس ہال روڈ ہو یا انارکلی بازار، پرشکوہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں ہوں یا بڑی بڑی تجارتی عمارتیں، ایوانِ عدل ہوں یا تفریحی مقامات، ملبوسات سے متعلقہ بازار ہوں یا لاہور کے مشہور روایتی کھانوں کے مقامات سب ہی دلکش و دلفریب ہے۔

گو کہ لاہور اپنے باغات اور تعلیمی اداروں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے لیکن اس کے روایتی کھانے بھی کہیں سے اور کسی سے کم نہیں۔ معروف روایتی پکوان کی کئی دہائیوں سے ذائقے بانٹتی اندرونِ لاہور کی دکانیں ہوں یا جدید شہر میں کھلے نئے نام۔ کھابوں میں بھی لاہور اور لاہورئیوں کا اپنا ہی نام و مقام ہے۔ ایسی ہی سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی صبح اپنے دوست کے ساتھ ناشتے کا پروگرام بنا تو دفتر کے قریب ہی ایک ' کھابہ سنٹر ' ہمارا انتخاب ٹھہرا وہاں کی روایتی طرز کی نشت و برخاست کی سہولت نے ذائقہ دوچند کر دیا۔ اس سے قبل کہ لسی کی خماری ہمیں وہیں لڑھکا دیتی، دفتر کی کرسی کو ہی رونق بخشنے میں عافیت سمجھی۔

سارے دن کی دفتری تھکان لیئے موسم کو ' ماسم سوپ ' سے رام کرنے کی ٹھانی۔ سڑک کنارے سائیکل چلانے والے، پیدل چلنے والے، سڑکوں پہ قطار اندر قطار چلتی گاڑیاں، پارکنگ میں بھاگم بھاگ گاڑیاں نپٹاتا چھوٹا، ٹھیلے پہ آتے جاتے لوگ، سبھی اپنے اپنے حال میں مست و مگن تھے۔ کوئی آ رہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا۔ کچھ اپنے خوابوں کے خیالوں میں تو کچھ کسی اور کے خیالوں میں۔ اس سارے جھمیلے میں لیکن کوئی بھی کسی سے ٹکرا نہیں رہا تھا، کوئی مڈبھیڑ نہ تھی، جیسے سارے خودکار طریقے سے میکانکی انداز میں چل رہے ہوں۔

یہ دیکھ کے حیرت ہوئی کہ سوپ والا لڑکا اپنے ہاتھوں میں اک بڑی سی تشتری میں سوپ کے پیالے اٹھائے تیز تیز قدم اٹھاتا، دیگر آنے جانے والوں سے بچتا بچاتا، گاہکوں تک کس سہولت سے سوپ پہنچا رہا ہے۔ نہ تو پیالے گرتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی گاہک کا آرڈر بھولتا ہے اور شاید اس کی اسی بہتر سروس کی بدولت گاہک اس کو کچھ اضافی رقم بطور بخشیش (ٹِپ) بھی دے جاتے تھے۔

آج کی اس تیز رفتار دوڑتی بھاگتی، ڈھگمگاتی الجھتی سلجھتی زندگی میں سارے کام اپنے اپنے انداز سے کرتے رہنے کے باوجود ہمیں بھی اپنے رب سے ایسا ہی تعلق رکھنا ہے کہ اس کی نشست (مقام) اور اس کا آرڈر (حکم) نہ بھولنے پائے۔ وہ ایسا خالق و مالک ہے جو بے پرواہ (ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ) ہے۔ ہم خود کو فقط اپنی بہترین خدمات (عاجزی و انکساری) ہی کی بدولت اس کی بے پایاں رحمت اور فضل و کرم (ٹِپ) کے قابل کر سکتے ہیں۔ دنیاداری کے سب گورکھ دھندوں میں رہتے ہوئے بھی دل والا پیالہ اس کی یاد سے ایسے لبریز رہے کہ دھیان اسی طرف لگا رہے کہ کہیں پیالہ چھلک نہ جائے۔

اپنے پیالے (دل) کا دھیان ہر لحاظ سے ضروری ہے۔ اوّل کوشش یہی ہو کہ یہ چھلک (محبت میں کمی) نہ جائے کہ چھلکنے سے اندر کا مواد (ثبوت) کم ہوتا جائے گا۔ یہ ہمیں ٹِپ سے تو محروم کروائے گا ہی لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ جب پیالہ اس تک پہنچے تو یہ بالکل ہی خالی ہو چکا ہو۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza