Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya
مسجد اقصی اور دیوار گریہ
عصر کا وقت تھا۔ مسجد اقصی سے اذان بلند ہوئی۔ میں نے سوچا، اب جوق در جوق مقامی مسلمان آئیں گے اور مسجد بھر جائے گی، لیکن گنتی کے چند لوگ مسجد میں جاتے نظر آئے۔ دن کا وقت تھا تو کام میں مصروف ہوں گے۔ یا گلی گلی جو مساجد قائم ہیں، ادھر چلے جاتے ہوں گے۔ یہ عجیب منظر بھی دیکھا کہ احاطے میں جو جہاں تھا، وہیں مصلی بچھاکر نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ کوئی مسجد کے اندر ہے، کوئی صحن میں ہے، کوئی قبتہ الصخرہ کے اندر ہے۔ ایک جماعت والا تصور نہیں تھا۔
اب ہم مسجد قبلی سے ڈوم آف دا روک کی طرف چلے۔ برسوں پہلے میں اخبار میں کام کرتا تھا اور بیت المقدس کی خبریں ترجمہ کرتا تھا۔ تب میرا خیال تھا کہ مسجد اقصی میں مسلمان جاتے ہوں گے اور ڈوم آف دا روک میں یہودی، کیونکہ وہ ان کے لیے مقدس ترین مقام ہے۔ ربی عبادت کرواتا ہوگا۔ عام یہودی اس کی تقلید کرتے ہوں گے۔ وہاں یہودیوں کی مقدس اشیا رکھی ہوتی ہوں گی۔
اس گنبد والی عمارت میں جاکر حیرت ہوئی۔ وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔ ایک چٹان کے اوپر سونے کا گنبد بنا ہوا تھا۔ نیچے چٹان کے چاروں طرف لکڑی کی باڑھ لگائی ہوئی تھی تاکہ لوگ اس پر نہ چڑھیں۔ بلکہ شاید اس لیے کہ لوگ اسے توڑ کر بطور تبرک نہ لے جائیں۔ مسلمان اس کام کے ماہر ہیں۔ خانہ کعبہ کا غلاف تک کاٹ کر لے آتے ہیں۔ مکہ جائیں اور صفا اور مروہ کو دیکھیں۔ بس نام رہ گیا ہے۔ جو ہے، اسے بھی عام لوگوں سے بچانے کی سعی کی گئی ہے۔
گنبد کے نیچے چٹان کی باڑھ سے کچھ جگہ بچ گئی ہے جہاں لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ قرآن سجے ہوئے تھے۔ میں نے جلدی جلدی چند فوٹو کھینچے کیونکہ باہر رمزی جلدی مچارہے تھے۔ میں باہر نکل آیا لیکن حسن بھائی اور دوسرے دوست اندر ہی تھے۔ میں نے چاروں جانب معائنہ کیا۔ یہ جگہ چونکہ پہاڑی پر واقع ہے اس لیے دور کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مجھے بادشاہی مسجد یاد آئی۔ فیصل مسجد کے بارے میں سوچا۔ انچولی کی مسجد خیر العمل کے احاطے کو ذہن میں لایا۔ اقصی کمپاونڈ بڑا ہے لیکن بہت زیادہ بھی نہیں۔ لیکن زمین کے اس ٹکڑے نے کس قدر پریشان کیا ہوا ہے۔ کتنی سخت دشمنیاں ہیں۔ کتنی جانیں جاچکی ہیں۔ مذاہب امن کے نام پر بنائے گئے یا آسمان سے اترے لیکن لاکھوں کروڑوں افراد ان کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
خیر، سیاحوں کو فلسفے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہم باہر نکلے جہاں ہمارے میزبان منتظر تھے۔ اسلام کا تھوڑا سا نور ہمارے چہروں پر جھلملا رہا ہوگا، چنانچہ طے ہوا کہ اب دیوار گریہ کی زیارت کریں گے۔
یہ دیوار اقصی کمپاونڈ کے مغرب کی جانب ہے اس لیے ویسٹرن وال بھی کہلاتی ہے۔ یہودیوں کے لیے یہ ہیکل سلیمانی کی آخری نشانی ہے اس لیے وہ یہاں آتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں۔ اس دیوار کے قریب کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہیں۔
ایک بار پھر وہی مرحلہ درپیش ہوا کہ اسرائیلی فوجیوں کے ناکے سے گزرنا پڑا۔ جب مسلمانوں کی مسجد میں غیر مسلم نہیں جاسکتے تو یہودیوں کے مقدس مقام کی طرف مسلمان، چاہے نام کے ہی ہوں، کیوں جائیں؟ لیکن یہ سن کر آپ کو اچھا نہیں لگے گا کہ یہودی روادار ہوتے ہیں۔ انھیں مسلمانوں، مسیحیوں یا ملحدین کے اپنے مقدس مقامات پر جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ سیکورٹی سے گزر کر ہمیں آگے جانے دیا گیا۔
جیسے مسجد میں جانے کے لیے غیر مسلم بھی جوتے اتارتے ہیں، دیوار گریہ کے قریب جانے کے لیے بھی ٹوپی سر پر رکھی جاتی ہے۔ ایک جگہ زائرین کے لیے یہودی ٹوپیاں رکھی ہوئی تھیں۔ کسی نے زبردستی تو نہیں کی لیکن ہم نے خود اٹھاکر پہن لی۔
اسرائیل میں یہودی مرد اپنے سر پر ٹوپی ضرور پہنتے ہیں۔ بیشتر کے سر پر خاص قسم کی گول ٹوپی ہوتی ہے جسے کپاہ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر اسے عبادت کے وقت پہنا جاتا ہے لیکن بہت سے لوگ اسے ہر وقت بھی پہنے رہتے ہیں۔ میں نے ارکان پارلیمان سے عام آدمی تک کو یہ ٹوپی پہنے دیکھا۔ لیکن یہ دلچسپ بات شراکہ کے ڈین نے بتائی کہ کپاہ کے سائز، رنگ، ڈیزائن اور غالباََ پہننے کے انداز بھی بے وجہ مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ انھیں دیکھ کر پہننے والے کے فرقے، طبقے، سیاسی موقف اور دوسرے خیالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آرتھوڈکس یہودیوں کی ایک شاخ ہیریڈی یہودی ہیں جو سر پر کالا ہیٹ پہنتے ہیں۔ نیویارک میں اکثر وہ نظر آتے ہیں۔ ایسے یہودی تہواروں پر یا شبت یعنی ہفتے کو فر کا، عموماََ لومڑی کی کھال کا ہیٹ پہنتے ہیں جو کافی اونچا اور کچھ عجیب کا معلوم ہوتا ہے۔ بعض افریقی یہودی ترکی ٹوپی بھی پہنتے رہے ہیں لیکن اسرائیل میں مجھے کوئی یہودی وہ پہنے نظر نہیں آیا۔
دیوار گریہ کے نام سے ذہن میں تصور تھا کہ لوگ وہاں شیعوں کی طرح گریہ کرتے ہوں گے۔ مجھے کوئی اشک بہاتا نظر نہیں آیا۔ البتہ نہایت خشوع و خضوع سے عبادات کی جارہی تھیں۔ کہیں تنہا اور کہیں کوئی جماعت مقدس آیات پڑھ رہی تھیں۔ کئی افراد اپنے بچے بھی ساتھ لائے تھے۔ یشایا ہمیں بائیں جانب لے چلے جہاں ایک سرنگ نما مقام تھا۔ یہاں شیلف بھی تھے جن میں مقدس کتابیں رکھی تھیں۔ جیسے ہماری مساجد میں قرآن رکھے ہوتے ہیں۔ جو کوئی کتاب ساتھ نہیں لایا، وہ یہاں سے اٹھائے اور پڑھے۔
میں جس مقدس یا غیر مقدس مقام پر جاتا ہوں۔ اس کے دروازوں اور دیواروں کو ضرور چھوتا ہوں۔ دیوار گریہ کو بھی ہاتھ لگائے اور خود کو مقدس جانا۔ ایک جگہ کرسیاں رکھی تھیں، وہاں میں اور حسن صاحب بیٹھ گئے اور کچھ دیر عبادت گزاروں کی کیفیات کا اندازہ کرتے رہے۔
سچ کہوں، مکہ کے حاجی، کربلا کے شیعہ، ویٹی کن کے زائر اور یروشلم کے یہودی کے اخلاص میں کوئی فرق نہیں۔ جب تک وہاں رہتے ہیں، ان سے اچھا کوئی نہیں۔ جیسے ہی باہر نکلتے ہیں، اندر کا تعصب بھی نکل آتا ہے۔ کوئی مقدس مقام کسی حاجی، کسی زائر کا تعصب ختم نہیں کرپاتا، بلکہ بڑھادیتا ہے۔ ہماری دنیا اسی لیے خاک شفا سے شفایاب یا زم زم سے دھلی ہونے کے بجائے خاک و خون میں لتھڑی ہوئی ہے۔