میڈم کمشنر
بھارت کی پہلی خاتون پولیس کمشنر کی یہ خودنوشت کمال ہے۔ 1980 میں وہ اپنے پولیس بیج میں اکیلی خاتون افسر تھیں جو اکیڈمی میں امتحان پاس کرنے بعد تربیت لے رہی تھیں اور اپنے male colleagues سے سخت مقابلہ بھی کررہی تھیں جو اسے ہرانے پر تلے ہوئے تھے۔
آپ اس کتاب کو شروع کریں تو پھر پڑھتے ہی جائیں۔ مجھے جو بات اچھی لگی ہے اس خاتون افسر نے اپنی اس کتاب میں مجبوریوں کا رونا رو کر پولیس میں کرپشن اور ظلم و ستم کا دفاع نہیں کیا بلکہ انہیں ایکسپوز کیا ہے۔ انہوں نے اپنے پیٹی بھائیوں کو معاف نہیں کیا کہ اس سے پولیس فورس کا مورال کمزور ہوگا جیسے ہمارے ہاں بڑی شدو مد سے کیا جاتا ہے۔ کھل کر بتایا ہے کہ تیس سال سے زائد سروس میں انہوں نے پولیس میں کیا کیا برائیاں دیکھیں اور ان سے کیسے ڈیل کیا۔
اگرچہ اس کتاب میں بہت کچھ ہے لیکن دو تین باتیں اہم ہیں۔
جب انہیں ممبئی بھیجا گیا کہ وہاں پورٹ پر بہت چوریاں ہوتی تھیں۔ بہت سارے کنٹینرز آتے جاتے تھے۔ پہلے جس علاقے میں تھیں وہاں سے ان کا ٹرانسفر ہوا تو مقامی لوگ جو ان سے خوش تھے انہوں نے اس پر احتجاج کیا کہ انہیں وہاں سے مت ہٹائیں۔ اس پر ایک افسر نے اس خاتون افسر کو کہا آپ فورا جا کر جوائن کریں۔ کبھی ان عوامی مظاہروں کو اپنے حق میں استمعال نہ کریں۔ یہ سبق عمر بھر یاد رکھا۔ خیر جب وہ پہنچیں تو انہوں نے سخت اقدامات لیے تو پورا مافیا ان کے خلاف ہوگیا۔ ایک دن اخبار میں ان کے خلاف خبر چھپی لیڈی پولیس آفسر پورٹ پر چوریاں روکنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ اس پر انہیں بڑی تپ چڑی تو وہ پولیس باس سے ملنے پہنچ گئیں کہ ان کو اپنی سائیڈ آف اسٹوری بتائیں کہیں وہ بھی اخبار کی خبر پڑھ کر اس پر نہ تپ جائیں۔
جب وہ باس کے آفس پہنچ کر ان سے ملیں تو ان بارے مشہور تھا وہ بہت کم گو اور سخت افسر تھے۔ خاتون افسر کو ڈر تھا وہ کلاس لیں گے۔ باس نے اس خاتون افسر کو بٹھایا۔ دراز سے وہی اخبار نکالا جس پر خبر چھپی تھی اور صرف اتنا کہا یہ خبر پڑھ کر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ شاندار کام کررہی ہیں۔ اس مافیا کی چیخیں اس خبر میں گونج رہی ہیں۔ آپ اچھا کام کررہی ہیں۔ اب آپ جا سکتی ہیں۔
اس وقت اس خاتون افسر کو احساس ہوا کہ اچھا اور سمجھدار باس کیسا ہوتا ہے۔
یہ واقعہ پڑھ کر مجھے خود یاد آیا کہ 1998 میں جب ملتان سے ڈان اسلام آباد آیا اور رپورٹنگ شروع کی تو کچھ عرصہ بعد میری فائل کی گئی خبروں پر حکومت کا ردعمل آنا شروع ہوگیا اور میری خبروں کو وہ جھٹلانے کے لیے پریس ریلیز جاری کرتے تھے۔ میں پریشان ہوا کہ ابھی نیا نیا ملتان سے آیا ہوں۔ سب بڑے رپورٹرز ڈان میں بیٹھے ہیں۔ ڈان کا بڑا نام ہے۔ یہ تو میرے لیے اچھا نہیں۔ خبریں بالکل ٹھیک ہیں اور دستاویزات ساتھ فائل کی ہیں۔
اس پریشانی میں سوچا اپنے بیوروچیف ضیاء الدین صاحب کو اپنی پوزیشن کلیر کروں تاکہ وہ کہیں میری چھٹی نہ کرا دیں۔
میں اپنی خبریں اور دستاویزی ثبوت اور وہ حکومتی تردیدیں لے کر ان کے کمرے میں گیا۔ انہیں پوری بات بتائی کہ میرے پاس سب ثبوت موجود ہیں۔
وہ مسکرائے اور مجھے کہا ایک بات یاد رکھو اس رپورٹر کی خبروں کی تردید حکومت کرتی ہوتی ہے جو سچی ہوتی ہیں۔ اس رپورٹر کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کام کرتا ہے۔ خبر لاتا ہے۔ جو خبریں نہیں لاتے ان کی خبروں کی کوئی تردید نہیں ہوتی۔ میں سب تمہاری خبریں فالو کررہا ہوں۔ جائو اپنا کام جاری رکھو۔
ضیاء الدین صاحب کے اس ایک جملے نے وہ انرجی بھر دی کہ پھر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا اور 1998/2001 ڈان میں فائل کیے گئے سکینڈلز پر دو دفعہ APNS best reporter of year کا ایوارڈ ملا جس کے ساتھ ایک لاکھ روپے کیش انعام بھی تھا جو کراچی جا کر ایک بڑی تقریب میں وصول کیا تھا۔
اس کتاب میں وہ ایک واقعہ لکھتی ہیں کہ اکیڈمی میں ایک پولیس افسر جو ساتھ زیرتربیت تھے وہ ان پر فدا ہوگئے۔ ایک رات دروازے پر دستک ہوئی تو باہر وہی کھڑے تھے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ان دونوں کو اکٹھے ایک کمرے میں رہنا چاہئے۔ اس خاتون افسر نے افسر کی شکایت لگا دی جس پر خاصا ایشو بنا۔
خیر ٹریننگ ختم ہوئی اور اب پاسنگ پریڈ ہونی تھی تو اس خاتون افسر کو ایک ڈاکٹر نے بلایا اور کہا ان سے ایک ریکوسٹ کرنی تھی۔
جس افسر کی آپ نے شکایت کی تھی اب اس کی بیوی بھی اس پریڈ میں شریک ہونے آرہی ہے۔ مہربانی کر سکیں تو اس کی بیوی کو شکایت نہ کیجے گا وہ بہت پریشان پھر رہا ہے۔