Tuesday, 17 December 2024
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Kahani Kashmir Kahani Ki

Kahani Kashmir Kahani Ki

کہانی "کشمیر کہانی" کی

چند برس پہلے کی بات ہے، میں لاہور گیا ہوا تھا۔ اِتوار کے روز لاہور میں ہوں تو کچھ بھی ہو جائے، میں انارکلی کتابوں کے بازار ضرور جاتا ہوں۔ وہ بھی اس طرح شاید سردیوں کی کوئی ٹھنڈی میٹھی خوبصورت دوپہر ہوگی۔ اپنی جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، انار کلی لاہور میں کتابوں کے اتوار بازار میں پرانی کتابوں کے درمیان چلتے پھرتے میں ایک بک سٹال کے سامنے جا کر رُک گیا جہاں انگریزی کے پرانے ناولز کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔

میں فِکشن کا بندہ ہوں لہٰذا ناول اور افسانے میری کمزوری ہیں۔ اب اس کمزوری میں تاریخ، سیاست، بائیوگرافی اور فلسفہ بھی شامل ہو چکا ہے۔ اکثر ایسے سٹالز سے مجھے بہت شاندار ناول یا تاریخ پر بہترین کتب مل جاتی ہیں۔ میں اپنی پسند کی کتابیں ڈھونڈنے میں لگا ہوا تھا کہ سٹال کے مالک نے میرے ہاتھ میں کتاب تھمائی اور کہا، "صاحب، اسے پڑھا ہے؟ بہت ہی شاندار کتاب ہے"۔

میں نے اس کے ہاتھ سے کتاب لی تو وہ مجھے بہت پرانی لگی اور شاید درمیان سے اُدھڑ بھی رہی تھی۔ لیکن اس کتاب کا نام اور سرورق جانے پہچانے لگے۔ مجھے اس کتاب کا نام پڑھ کر یاد آیا، اس کا ذکر تو کئی دفعہ پڑھا تھا۔ اس کتاب کو کسی بُک شاپ پر دیکھا بھی تھا لیکن کبھی اسے خریدنے یا پڑھنے کو دل نہ کیا۔

میں اس پرانے ایڈیشن کو چند لمحوں تک ہاتھ میں لیے دیکھتا رہا۔ پھر اسے الٹا کر اس کا بیک کور پڑھنا شروع کیا۔ میں اکثر کتابیں خریدنے کا فیصلہ کتاب کا بیک کور اور پھر اندر عنوانات دیکھ کر ہی کرتا ہوں۔ میں نے خود کو اس کتاب کے بیک کور میں کھویا ہوا پایا۔ جب بیک کور آدھا پڑھ چکا تو میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ کتاب خریدوں گا۔ خود پر تھوڑی سی حیرانی ہوئی کہ اب تک اس کتاب کو نظر انداز کیوں کرتا آیا تھا۔ خود پر غصہ بھی آیا کہ اتنی اہم کتاب جو 1970ء کی دہائی میں چھپی تھی، جس نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی تھی وہ کئی دفعہ بک شاپس پر دیکھ کر بھی میں چھوڑ چکا تھا۔ میں نے اس کتاب کی خراب حالت کو نظر انداز کیا کہ اسے اسلام آباد جا کر جِلد کروا لوں گا۔ اگر اب اسے چھوڑ دیا تو شاید پھر نہ خرید پاؤں۔

اتنی دیر میں وہ بُک سٹال کا مالک مجھے بڑے غور سے دیکھتا رہا۔ وہ میرے چہرے کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا جو ہر سطر کے ساتھ بدل رہا تھا۔ میں نے نظریں اوپر اٹھائیں تو ایک گہرا سانس لیا۔ وہ دُکاندار جلدی سے بولا، "صاحب، صرف تین سو روپے دے دیں۔ آپ سے زیادہ نہیں لوں گا۔ مجھے علم ہے آپ مجھ سے پہلے بھی کئی بُکس لے چکے ہیں"۔

میں نے بغیر مزاحمت کیے جیب سے پیسے نکالے اور اسے تھما دیے۔ جب اسلام آباد کی طرف واپس آ رہا تھا تو میرے ساتھ گاڑی میں میرے مہربان رانا اشرف موجود تھے۔ انھیں کہا، آپ گاڑی چلائیں، میں ذرا یہ کتاب پڑھنا چاہتا ہوں۔ یوں اسلام آباد تک پہنچتے پہنچتے میں شاید ایک سو کے قریب صفحات پڑھ چکا تھا۔ گھر پہنچ کر وہ کتاب ایک سائیڈ پر رکھی اور لکھنے بیٹھ گیا۔

اگر آج "کشمیر کہانی" کتابی شکل میں چَھپ رہی ہے تو اس کا کریڈٹ انارکلی کے اُس پرانی کتابوں کے سٹال کے مالک کو جاتا ہے جسے کتابوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی علم تھا کہ کون سا بندہ کون سی کتاب پسند کرے گا۔ صرف تین سو روپے میں اگر وہ یہ کتاب مجھے نہ تھماتا تو شاید آج "کشمیر کہانی" نہ چھپ رہی ہوتی۔

یہ کتاب تھی "Freedom at Midnight" جو بڑی محنت اور تحقیق کے بعد لکھی گئی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں اس کتاب نے مجھے ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا۔

تحقیق تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن جس طرح ان دو مؤرخین نے اس کتاب کو ایک سنسنی خیز سیاسی اور تاریخی ناول کی طرح لکھا وہ بہت ہی متاثر کن تھا۔ واقعی یہ کتاب اس طرح کی تھی جسے آپ ایک دفعہ شروع کریں تو پھر نیچے نہ رکھ پائیں۔ اس کتاب میں ماؤنٹ بیٹن سے لے کر لیڈی ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو، مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح کے درمیان اعصاب، ذہانت اور حوصلے کی لڑائی کو جس انداز میں پیش کیا گیا تھا وہ اپنی جگہ ایک کمال تھا۔ آپ کو پڑھتے ہوئے یوں لگے گا جیسے آپ اُس وقت میں زندہ ہیں۔

جب ہندوستان میں پاور ٹرانسفر ہو رہی ہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے سب اہم کردار ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں اور آپ ایک خاموش تماشائی کی طرح ان سب کرداروں کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کی جنگ لڑتے دیکھ رہے ہیں۔ نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا معاشقہ آپ کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، ماؤنٹ بیٹن کو پشاور دورے میں قتل کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ اگر وہ اس حملے سے بچ بھی گیا تو وہ ایک لاکھ پٹھانوں سے کیسے بچ پائے گا جو وائسرائے کی پشاور میں موجودگی کا سُن کر اکٹھے ہو گئے ہیں، یا پھر ماؤنٹ بیٹن کو اطلاع ملتی ہے۔

محمد علی جناح کو کراچی میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور وہ خود جناح کے ساتھ اس گاڑی میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتا ہے جس کو بم سے اڑانے کا پلان ہے، یا ہندوستان کی ریاستوں کے بے تاب راجے مہاراجے تقسیم سے پہلے اپنی ریاستوں کو آزاد رکھنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، گوروں کو ہر قسمی سفارشیں اور رشوتیں دی جا رہی ہیں، یا پھر ماؤنٹ بیٹن کی حالتِ زار کا اندازہ کریں جسے اپنی پاورفل شخصیت پر پورا اعتماد تھا کہ وہ اپنے سامنے بیٹھے کسی بھی شخص کو اپنے چارم سے متاثر کر سکتا تھا لیکن حیران کن طور پر وہ جناح کو متاثر نہ کرسکا تھا اور مرتے دم تک حیرت زدہ رہا کہ جناح اس سے متاثر کیوں نہیں ہوا تھا۔ جب برطانوی بادشاہ، شہزادے یا شاہی خاندان کے افراد ہوں یا اشرافیہ سب اس سے متاثر ہوتے تھے۔

لیکن جناح نہ ہوا تھا اور تو اور نہرو اور گاندھی جیسے بڑے لوگ بھی ماؤنٹ بیٹن کی سحرانگیز شخصیت کی کشش سے بچ نہ پائے تھے لیکن جناح کس مٹی کا بنا ہوا تھا جس نے اسے ایک عام انسان کی طرح ٹریٹ کیا تھا؟ یا پھر قبائلی پٹھانوں کا لشکر رات کے اندھیرے میں سری نگر کی طرف چل پڑا ہے تاکہ وہ کشمیر پر پاکستان کا جھنڈا لہرا دے جبکہ کشمیر کا خوفزدہ راجہ اپنے قابل اعتماد افسر کو کہہ کر سویا ہوا ہے کہ اگر وہ پٹھانوں کو اس کے محل کی طرف آتا دیکھے تو اسے سوتے میں ہی گولی مار دے۔ یہ الگ بات ہے وہ قبائلی لشکر سری نگر پہنچنے کی بجائے بارہ مولہ میں سینکڑوں گھروں میں گھس کر سامان اکٹھا کرنے لگ گیا تھا اور اتنی دیر میں وزیرِ اعظم نہرو کی منظوری سے دلّی نے بھارتی فوج سری نگر ایئرپورٹ پر اتار دی تھی اور کشمیر کبھی فتح نہ ہو سکا تھا۔

پھر میں نے "فریڈم ایٹ مِڈنائٹ" کے علاوہ دیگر کتابوں کی تلاش شروع کی تاکہ مختلف مؤرخین کو سامنے رکھ کر کتاب لکھی جائے۔ یوں میں نے چھ سات مزید کتابیں پڑھیں جہاں سے مجھے ہندوستان میں ہونے والے ان واقعات کو سمجھنے میں مدد ملی۔ ریفرنس کے طور پر ان کتابوں کے نام اس کتاب کے آخر میں دے دیے گئے ہیں۔ میرا اِس کتاب کو لکھنے میں کوئی کریڈٹ نہیں ہے۔ سب کریڈٹ ان مؤرخین اور بڑے لوگوں کو جاتا ہے جن کی کتابیں پڑھ کر میں نے یہ "کشمیر کہانی" لکھی ہے۔ اس کتاب پر نام کے اصل حق دار وہ سب ہیں، میں نہیں۔

وی پی مینن کی کتاب بہت اہم تھی جس نے ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ بیٹھ کر ہندوستان کی پاور ٹرانسفر کا پورا ڈرافٹ لکھا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن تو ہندوستان میں پونے چھ سو کے قریب ریاستیں چھوڑ کر واپس جانا چاہتا تھا اور یہی سب کچھ ان ریاستوں کے شہزادے اور راجے چاہتے تھے۔ اس ڈرافٹ کو دیکھ کر نہرو پاگل ہوگیا تھا اور اس نے چیخ کر ماؤنٹ بیٹن کو کہا تھا، "یہ تم کیا کرنے جا رہے ہو؟ کوئی اندازہ ہے کہ پونے چھ سو آزاد ریاستیں ہر وقت جنگ و جدل میں مصروف رہیں گی"۔ پھر نہرو کے ایک اور قریبی افسر کی یادداشتیں پڑھیں تو اندازہ ہوا کہ اُن دنوں سب کیا چل رہا تھا۔

ان کتابوں میں ایسے ایسے سنسنی خیز واقعات قید تھے کہ میں خود کو روک نہ سکا اور لکھتا ہی چلا گیا۔ ان ہی دنوں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک مختصر ہوائی جھڑپ ہوئی جس میں بھارت کا جنگی طیارہ پاکستانی پائلٹ نے گرایا اور ابھی نندن پکڑا گیا تو اچانک پاکستان اور پوری دنیا میں پھر سے کشمیر کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔

میں ہمیشہ سوچتا تھا، اگر مجھے کبھی تاریخ پر سنجیدہ کتاب لکھنے کا موقع ملا تو میں ہرگز درسی کتب کے انداز میں نہیں لکھوں گا۔ میں جب بھی تاریخ پر سنجیدہ کتابیں پڑھتا تو یوں لگتا کسی سکول کالج کی بوریت سے بھرپور نصابی کتب پڑھ رہا ہوں۔ میرے خیال میں انسان شروع ہی سے قصے کہانیاں سننے اور پڑھنے کا شوقین رہا ہے۔ لہٰذا تاریخی حقائق سامنے رکھ کر اسے ایک تھرلر کی طرح کیوں نہیں لکھا جا سکتا۔ ایک ایسی کتاب لکھی جائے جسے کوئی شروع کرے تو وہ نیچے نہ رکھ پائے۔ یہ میرا ہمیشہ سے خواب تھا اور "کشمیر کہانی" نے مجھے اپنے خواب کو پورا کرنے کا موقع دیا اور میں نے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

ہم نے تو اب تک پاکستانی درسی کتب ہی میں کشمیر کا مسئلہ پڑھا تھا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ہم نے اتنے اہم موضوع پر مختلف نیوٹرل مؤرخین کے بیان کردہ حقائق کو بھی پڑھا۔ جن لوگوں نے وہ کتابیں لکھی تھیں، جہاں سے اب میں مواد لے رہا تھا، انھوں نے اُس دور کی خفیہ خط و کتابت، آرکائیوز سے دستاویزات نکال کر پوری تحقیق اور محنت کے ساتھ وہ کتابیں لکھی تھیں۔ اُس دور کے اہم تاریخی کرداروں سے انٹرویوز کرکے بھی وہ کتابیں لکھی گئی تھیں جس میں اور تو اور ماؤنٹ بیٹن کا بھی تفصیلی انٹرویو شامل تھا۔ چند کتابیں تو دراصل اُس دور کے اہم لوگوں کے پرسنل سیکریٹریز یا سٹاف کی خودنوشتیں تھیں جو دوسرے لفظوں میں اس پورے پراسس کا حصہ تھے یا عینی شاہد۔

اس کتاب میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیٹی پامیلا کا اپنے والدین کے معاشقوں پر لکھا گیا باب بہت اہم ہے۔ ایک سترہ سالہ بچی جو لندن کے بورڈنگ سکول سے تازہ تازہ نکل کر والدین کے ساتھ دلّی ایئرپورٹ پر اتری تھی لیکن کچھ عرصے بعد جب وہ واپس لندن گئی تو کتنی بدل گئی تھی۔ اس کے دوست تک اسے پہچان نہ سکے۔ وہ یہاں سے کتنی افسردہ گئی۔ ہندوستان میں جو کچھ اس نے دیکھا اس نے چند ماہ میں ایک کھلنڈری لڑکی کو ایک سنجیدہ عورت کے روپ میں بدل دیا تھا۔

یہ "کشمیر کہانی" ان دنوں کی کہانی ہے جب انسان ایک دوسرے کا لہو بہا رہے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے باؤلے ہوگئے تھے۔ انسانی پاگل پن عروج پر تھا۔ کل تک کے دوست ایک دوسرے کی عزتوں اور بچوں کے دشمن ہوگئے تھے۔ کھیت کھلیان لہو اور لاشوں سے بھر گئے تھے۔ خود ماؤنٹ بیٹن نے کبھی نہ سوچا تھا کہ اس کا پاور ٹرانسفر کا پلان جو اس نے بہت جلدی میں فائنل کیا تھا اتنے بڑے پیمانے پر خون خرابے کا سبب بنے گا۔ ماؤنٹ بیٹن کی پاور ٹرانسفر کرنے میں جلدی ہندوستان کی بربادی کا سبب بنی تھی کیونکہ وہ واپس لندن جاکر اپنی نیوی کی اعلیٰ جاب کو جوائن کرنا چاہتا تھا جو اس کی چوائس جاب تھی۔ اس کے نزدیک ہندوستان کا وائسرائے بننا اتنا بڑا کام نہیں تھا جتنا برٹش نیوی کے کمانڈر کے طور پر اپنی ڈیوٹی دینا۔ جنگِ عظیم دوم میں اس کی کارگردگی کو جس طرح سراہا گیا تھا اس سے اس کا دل اب وہیں لگتا تھا۔

یہ سب کتابیں پڑھ کر لکھتے ہوئے میں نے جہاں خود بہت کچھ سیکھا اور سمجھا ہے وہاں بہت سارے واقعات پر دل بہت افسردہ ہوا۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ چند دہائیاں پہلے اس خطے میں اس پیمانے پر لہو بہایا گیا تھا۔

یہ کتاب اگر اب چھپ کر آرہی ہے تو اس میں دو لوگوں کا ہاتھ ہے۔ ایک میرے بیٹے احمد رؤف کا جو ہر دفعہ مجھے یاد دلاتا رہتا ہے، بابا آپ کتابیں لکھا کریں۔ یہ آپ کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی (اب مجھے نہیں پتا ڈیجیٹل ایج میں کب تک زندہ رکھ سکیں گی) اور پھر بُک کارنر کے امر شاہد کا کریڈٹ ہے۔ امر شاہد سے اس کا دو تین سال پہلے تذکرہ کیا کر بیٹھا کہ اس نوجوان نے ہر ہفتے مجھے یاد دلانا شروع کر دیا کہ اس کا مسودہ میرے حوالے کریں۔ میں ٹالتا رہا، جی آج اور کل کرتے ہیں۔ یہ آج کل کے چکر میں پورے تین چار سال نکل گئے۔ اب آخر امر شاہد نے دھمکی دی کہ میں خود اٹھا کر چھاپ دوں گا۔ امر شاہد اگر اتنا اصرار نہ کرتا تو شاید یہ کتاب ابھی بھی میرے پاس کہیں پڑی مٹی چاٹ رہی ہوتی۔

اس کتاب کو لکھنے کے لیے مجھے جن کتابوں کی ضرورت پڑی ان میں سے کچھ لندن سے میرے پیارے صفدر عباس زیدی نے ڈھونڈ کر دیں۔ اس اہم کتاب کا انتساب میں صفدر بھائی کے نام کر رہا ہوں۔ صفدر بھائی کا میری اور میرے بچوں احمد اور مہد کی زندگیوں میں لندن کے دنوں میں اہم کردار ہے۔ صفدر بھائی سے زیادہ خوبصورت کمپنی مجھے نہ ملی۔ حالانکہ ان سے ملے بیس برس گزر گئے ہیں لیکن ابھی بھی محسوس ہوتا ہے ان سے زندگی میں دیر سے ملاقات ہوئی۔ لندن کی سڑکوں پر میں اور صفدر بھائی بہت پیدل چلے ہیں، لندن کے بھلا وہ کون سے قدیم کیفے ہوں گے یا کتب خانے جو ہم دونوں نے نہ چھان مارے ہوں اور کیسی کیسی کمال کتابیں انھوں نے مجھے لندن سے ڈھونڈ کر دیں۔

آج بھی کسی پرانی کتاب کی تلاش ہو، اُنھیں میسج کروں، وہ پاتال سے بھی ڈھونڈ کر نکال لاتے ہیں۔ لندن میں اسما باجی، صفدر بھائی، ان کے بچوں جواد کاشر اور جنید کاشر نے جو ہم سب کو ان گنت محبتیں دی ہیں، وہ قرض ہم سب کبھی نہیں اتار سکیں گے۔

گگن شاہد اور امر شاہد کا شکر گزار ہوں جنھوں نے مجھے اور میری کتابوں کو ہمیشہ اہمیت دی۔ وہ دونوں بھائی اپنے بک کارنر سمیت اب ایک عالمی برانڈ بن چکے ہیں۔ بک کارنر اور میں ایک دوسرے کے لیے خوش نصیب واقع ہوئے ہیں۔ یہ کہانی پھر کبھی سہی!

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Kamal Ko Pohanchi Masnoi Zahanat

By Nusrat Javed