Hamen Kitni Jamhuriat Chahiye?
ہمیں کتنی جمہوریت چاہیے؟
ہم سب کو جمہوریت کے بارے میں حققیت پسند ہونا پڑے گا۔ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فوراً یورپ/امریکہ وغیرہ کا تصور آ جاتا ہے۔ عرض ہے کہ یورپ، امریکہ میں الیکشن کئی سو سالوں سے ہو رہےہیں۔ دوسرا یورپ، امریکہ میں لٹریسی ریٹ 95 سے 99 فیصد ہے۔
پاکستان کی ٹوٹل عمر ہی 76 سال ہے، بدقسمتی اور سیاستدانوں کی کرپشن اور غلط پالیسیوں اور اپنے خاندان کو نوازنے کی وجہ سے 35 سال ڈائیریکٹ مارشل لاء اور باقی کا عرصہ نیم مارشل لاء یا نیم جمہوریت میں گزرا۔ جس میں ن لیگ، پی ہی پی اور پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومتیں نمایاں ہیں اور پاکستان کا لٹریسی ریٹ با مشکل 50 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ایک سیکورٹی سٹیٹ ہے۔ یہاں فوج کی اہمیت بہت زیادہ ہے جس کی یہ وجوہات اور حقیقتیں یہ ہیں۔
ایک طرف افغانستان، ایک طرف انڈیا اور اوپر سے بلوچستان اور کے پی کے خراب سیکورٹی حالات، دہشت گردی جس کی وجوہات بیشک اندرونی بھی ہیں لیکن اندرونی کمزوریوں کو بیرونی دشمن خوب اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے بیٹے بیٹیاں جانے یا ان جانے میں بیرونی دشمنوں کے آلہ کار بن گئے ہیں اور کے پی کے میں آئے روز حملے اور دہشت گردی ہو رہی ہے اور یہ لوگ اپنے ہم وطنوں، اپنے سیکورٹی اداروں اور پاک سر زمین پر حملے کرتے ہیں۔
ایسے حالات میں ہم چاہیں یا نا چائیں، ہمیں اچھا لگے یا نا لگے جمہوریت کمزور ہو ہا مضبوط ہمیں پاکستان میں ایک مضبوط فوج کی اشد ضرورت ہے۔ ناصرف ضرورت ہے بلکہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیئے نا گزیر ہے۔
جن ممالک میں فوج نہیں تھی یا کمزور تھی یا کمزور کر دی گئی تھی حالیہ سالوں میں ان کے حالات کا جائزہ ان چند ممالک کی مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔
عراقی فوج کمزور ہوئی تو ملک بکھر گیا اور صدام جیسے شیر حکمران کا ایک غار سے برآمد ہونا اور عید والے دن صدام کو پھانسی دے کر پھانسی کی ویڈیو ریلیز کرنا ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے لئے اور امت کے لئے ایک انتہائی تکلیف دہ لمحات تھے۔
لیبیا، قزافی کو جس طرح مضبوط فوج نا ہونے پر گلیوں اور سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور برے طریقے سے لاٹھیوں، حاکیوں سے مار مار کر قتل کیا گیا بہت تکلیف دہ لمحات تھے۔
شام، اسد فیملی کا 54 سالہ اقتدار کس طرح ختم ہوا، یہ تو آج سے چند دن پہلے کی بات ہے۔
تو میں عرض کر رہا تھا مضبوط فوج اور ایٹم بم ناصرف پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں بلکہ اللہ پاک کی طرف سے بہترین تحفہ بھی۔ اگر مضبوط اور منظم فوج اور ایٹم بم نا یوتا تو اجمل قصاب، اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد سے بر آمد ہونا جیسے واقعات کے بعد کیا کیا ہو سکتا تھا؟ اس تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
جہاں تک فوج کا سیاست میں مداخلت کا معاملہ ہے آئیڈیلی تو نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن کوئی سیاسی جماعت بھی فوج کے سیاست میں مداخلت کی مخالف نہیں۔ مخالف ہے تو اس بات پر کہ فوج کی مداخلت میرے حق میں کیوں نہیں۔
جس کی واضع اور بالکل حالیہ مثالیں جان کی امان پا کر عرض کرتا ہوں 2014 سے 2018 تک پی ٹی آئی فوج کی آشیر باد سے شادیانے بجا بجا کر بالآخر 2018 میں حکومت میں آئی۔ تب ن لیگ مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کا چورن بیجتی تھی اور عمران خان جنرل باجوہ کو قوم کا باپ کہتا رہا۔
پھر پی ٹی آئی مطلب عمران خان کی حکومت ختم کرکے ن لیگ کے سر پر ہاتھ رکھا گیا تو مجھے کیوں نکالا کے بجائے مجھے واپس بلاؤ اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ایون فیلڈ کے پرتائش محل نما فلیٹوں کے کوڑے دان کی نظر ہوگیا اور میاں صاحب پاکستان میں، شہباز شریف وزیراعظم اور ادھا پاکستان مطلب پنجاب مریم بی بی کے حوالے۔
تب پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت بلکہ دشمنی پال لی۔ پی ٹی آئی کو پاکستان پیپلز پارٹی سے سیکھنا چاہیے تھا کہ ایک حکومت نہیں تین/ چار حکومتوں اور بہت سی جانوں کے نذرانے کے بعد بھی کس طرح اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر نہیں بلکہ ساتھ چل کر حکومت اور سیاست کی جاتی ہے۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کو (پی ٹی آئی سے میری مراد سنجیدہ اور بڑی عمر کے پی ٹی آئی کے لیڈرز ہیں) ورنہ 18 سال۔ کی عمر ہو جانے پر جن بچے بچیوں کا شناختی کارڈ بنتے ہی مستقل پتے پر ووٹ بنتا ہے اور یہ ووٹ زیادہ تر پی ٹی آئی کا ہوتا ہے۔
اب 18 سال کے بچوں کو تو اتنی سوچ سمجھ نہیں ہوتی وہ تو سوشل میڈیا کے مواد کو ہی سب کچھ مانتے ہیں جو 80 فیصد جھوٹ اور افواہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
تو میں عرض کر رہا تھا کہ پی ٹی آئی کی سنجیدہ لیڈرشپ اور عمران کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تب کی اسٹیبلشمنٹ کے جنرل باجوہ کو قوم کا باپ اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے دشمنی کے درمیان بھی کوئی راستہ ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی دونوں دوستی اور دشمنی کی انتہاؤں (ایکسٹریم) پر گئی تھی اور چلی گئی ہے۔
سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ ن لیگ اور پی پی کو تین تین حکومتوں کے خاتمے کے بعد یہ بات سمجھ آئی اور عمران خان اور پی ٹی آئی کو بھی یہ بات اگر صرف ایک حکومت کے خاتمے کے بعد سمجھ آ جائے تو غنیمت ہے۔
امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی پینٹاگون کی بہت اہمیت ہے بلکہ امریکہ کے ایم ترین فیصلوں میں پینٹاگون کی رائے بڑی اہمیت رکھتی۔ یورپ میں مضبوط جمہورتوں کے باوجود نیٹو کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔
اس لئیے پاکستان کے محل وقوع، ارد گرد کے حالات اور پاکستان کے 35 سالہ مارشل لاء اور باقی کا عرصہ نیم مارشل لاء یا نیم جمہوریت کو سامنے رکھ کر فوج کے کردار اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں اتنی جمہوریت چاہیے جو نا بادشاہت کی طرح گھٹن زدہ ہو اور نا ہمیں پاکستان میں کہیں سو سالوں سے جمہوریت زدہ یورپ یا امریکہ جیسی جمہوریت کی توقع کرنی چاہیے۔
پاکستان میں جس کی کل عمر 76 سال ہے، پاکستان کے معروضی حالات اور پاکستان کے لٹریسی ریٹ کو سامنے رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کی اہمیت کو تسلیم کرکے جتنی 60/70/80 فیصد جمہوریت ملتی ہے اتنی لے کر آہستہ آہستہ ملکی معیشت، لٹریسی ریٹ اور سیاسی شعور اور مسلسل الیکشن سے ہم جمہوریت کے اعلیٰ ترین درجے تک گریجولی پہنچ پائیں گے۔
ایسی صورت حال میں ہمیں جمہوریت کے ساتھ ساتھ آئندہ کے دس پندرہ سالوں میں ایک مضبوط فوج، مضبوط معیشت اور مضبوط پاکستان ملے گا۔ ورنہ 76 سالوں سے جو رونا دھونا، جو چوئے بلی کا کھیل جاری ہے، جاری رہے گا معشیت تباہ غریب، غریب تر اور اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوگی۔
میری بھی سیاسی جماعت سے وابستگی ہے میں بھی ووٹ دیتا ہوں میں بھی جمہوریت پسند ہوں لیکن میں سب سے پہلے مسلمان، پھر پاکستانی اور پھر سیاسی یا جمہوری ہوں۔ یہ جو کچھ میں نے لکھا ہے ایک پاکستانی بن کر لکھا ہے۔
آپ بھی اس کو پاکستانی بن کر پڑھیں ناصرف پڑھیں بلکہ سمجھیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت کی عینک لگا کر پڑھیں گے تو میری یہ باتیں شاہد آپ کو پسند نا آئیں یا سمجھ نا آئیں۔
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین۔۔
پاکستان زندہ باد