Tuesday, 17 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sumaira Imam
  4. Aaj Ki Shab To Kisi Tor Guzar Jaye Gi

Aaj Ki Shab To Kisi Tor Guzar Jaye Gi

آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی

میں چونکہ آج کل ارد گرد کی دنیا سے مکمل طور پہ کٹی ہوئی ہوں۔ بس اندر کی دنیا کی بتیاں روشن ہیں۔ خود سے ملاقات کا سفر جاری ہے۔ کبھی ہمیں محسوس ہوتا ہے نا کہ ہم سے ہمارا آپ کہیں کھو گیا ہے چلیے اسکو تلاش کیا جائے۔ بس آج کل وہی تلاش جاری ہے۔

آپ ہمیں پڑھتے ہیں لیکن اس ناسٹلجیک کیفیت سے بور ہورہے ہیں کہ باجی گڑھے مردے اکھاڑے بیٹھی ہیں تو کچھ دن آپ بھی ہماری وال سے بریک لے سکتے ہیں لیکن بس کچھ دن مجھے وہی لکھنا ہے جو میرا دل مجھ سے کہتا ہے۔

دل کو زندہ رکھنے کے لیے کبھی دل کی سن لینا بھی ضروری ہے۔ میں یقیناً کوئی پوڈ کاسٹ ریکارڈ کر لیتی کہ اس وقت لکھنے سے زیادہ میرا جی چاہتا ہے کہ بولا جائے گفتگو کی جائے لیکن میں گاؤں میں ہوں اور یہاں اس وقت آدھی رات ہے۔ نہایت گہرا سناٹا ہے کہ اگر آپ سوئی پھینکیں تو آواز شاید پورے گاؤں میں پھیل جائے۔

پہاڑی گاؤں پیالہ نما ہوتے ہیں بس دامن میں سمٹے ہوئے اور اردگرد حفاظت کے لیے پہاڑوں کا حصار قائم ہوتا ہے۔ یہ مکمل طور پہ شور اور آوازکی آلودگی سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ عشاء کے بعد یہاں گھور سیاہ اندھیرا ہوتا ہے اور لوگ سوجاتے ہیں۔ فقط جھینگروں ' جھرنوں ' گیدڑ اور کتوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

میرا دل چاہا میں باہر برآمدے میں جا کے اس خاموشی کو ریکارڈ کروں اسی خاموشی میں لکھی ہوئی بات کہنے کی کوشش کروں لیکن بھلا ہو میرے بھائی کا سرِ شام دروازے بند کرکے ہدایت کر گیا رات کو باہر نہیں نکلنا شیروں کا خطرہ ہوتا ہے۔

باجی بہت بہادر سہی لیکن اتنی بھی نہیں ہیں کہ ایک پوڈ کاسٹ کی ریکارڈنگ کے لیے شیر کا نوالہ بننے کو تیار ہوجائیں۔

لہذا بہت شرافت سے کمبل تان کے سو گئیں لیکن کیا کیجیے کہ بارہ بجے ہی آنکھ کھل گئی۔

کمرے کی کھڑکی گھر کی بیک سائیڈ پہ کھلتی ہے جہاں ابا کی قبر ہے۔

اور جیسے یادوں کے کئی دریچے وا ہوگئے۔ مجھے بچپن میں سردیوں سے بے حد محبت تھی کیونکہ شام ہوتے ہی سب بستروں میں گھس جاتے اور میرے پاس کتابیں پڑھنے کے لیے لمبی رات ہوتی۔ ہمارے گھر کے سبھی کاموں کا رات کے نو بجے بند ہوجانا یقینی تھا۔ نو بجے کے بعد کوئی کام نہ ہوتا۔ لیکن مجھے استثناء حاصل تھی کیونکہ میں ایک پڑھاکو بچی تھی۔ جو پوری رات کتابیں چاٹتی۔

نصاب پڑھ پڑھ کے تھک جاتی تو ناول پڑھتی تاریخی کتب پڑھتی سیرت پڑھتی غرض پڑھنے سے ایسا شغف تھا کہ جو کتاب ہاتھ لگتی جب تک وہ چاٹ نہ لی جاتی پڑھائی جاری رہتی۔

لحاف میں گھس کے مونگ پھلی پاس رکھ کے چائے کا تھرمس بھر کے ہماری کتابوں کا آغاز ہوتا۔ ابا کے اصول مسلم تھے لیکن انکی لاڈلی نے ہر قاعدے اور قانون کو اپنے مطابق سیٹ کر رکھا تھا۔ چونکہ بچی کی دلیل میں وزن ہوا کرتا لہذا بہت سے ان ڈیو فیور عطا کیے جاتے۔

میرے بہن بھائی پڑھنے سے زیادہ بہتر سمجھتے کہ سو جائیں یا میری جلائی گئی بتی کا فائدہ اٹھا کے عمران سیریز پڑھ لیں۔

ہماری اماں نے کبھی ہم سے کوئی کام نہیں کروایا بلکہ مجھے یاد ہی نہیں پڑتا کہ کبھی زندگی میں ہم سب بہن بھائیوں نے پڑھنے کے علاوہ کسی کام کو ہاتھ لگایا ہو۔ اب ہم نے اتنے ڈھیر سارے کام کیسے سیکھے یہ بھی معمہ ہی ہے۔

اب سوچتی ہوں والدین کیسے اولاد کے لیے ڈھیروں قربانیاں دیتے ہیں۔ ہماری امائیں بیمار رہتی ہیں اور الحمد للہ سبھی بچے انھیں ہاتھ کا چھالا بنائے رکھتے ہیں۔

کبھی میں سوچتی ہوں بچے اس قدر فرماں بردار اور تابعدار کیسے ہوئے؟ ہمیں تو کبھی کسی نے فرماں برداری سکھائی ہی نہیں بلکہ ہم سے تو کبھی تنکا تک نہیں تڑوایا گیا پھر کیسے خدمت گزاری سیکھ لی گئی؟

جو محبت والدین اپنے بچے کو دیتے ہیں جو خیال انکے بچپن میں انکا رکھا جاتا ہے وہ بہت خاموشی سے وہ طور طریقے خود سیکھ لیتے ہیں۔

پیرنٹنگ کیا ہے۔ میں نے بس یہی سیکھا کہ جو آپ دیتے ہیں وہی سود سمیت آپ پاتے ہیں۔ آپ بچے کو ذہنی سکون دیں گے وہ بدلے میں وہی لوٹائیں گے۔

آپ انھیں اچھا مستقبل دیں گے وہ آپکو پرسکون بڑھاپا دیں گے۔ آپکا لاڈ پیار محبت کبھی ضائع نہیں جاتے۔

ہمارے ابا بے حد اصول پرست تھے لیکن انکی اصول پسندی فقط ہماری تعلیم کے معاملے میں تھی کہ بچوں کے لیے پڑھائی نہایت لازم تھی۔ دین سیکھنا لازم تھا۔

لیکن ابا کی سخت گیری کے باوجود انکی اولاد ان پہ جان چھڑکتی۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ابا ان سے راضی ہوجائیں۔ قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کی تمام سہولتیں اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے وقف کیں۔ اللہ کی ان پہ خاص رحمت ہو تمام عمر فقط ایک ہی دعا مانگتے یا اللہ میرے بچوں کو دین کے لیے قبول فرما لے۔

ابا کی قبر میرے لیے فقط ایک مٹی کی ڈھیری نہیں ہے۔ محبت ہے سکون ہے خوشی ہے۔ ہر مرتبہ گھر آنے پہ نہایت شدید کمی کا احساس ہوتا ہے جب کوئی اٹھ کر دروازے میں آپکا استقبال نہیں کرتا۔ جب کوئی ہر دو منٹ بعد نہایت جوش اور چمکتے چہرے سے یہ کہنے والا نہیں ہوتا میری بیٹی آئی ہے بہار آئی ہے۔

پتا نہیں تحریر کس مقصد کے لیے لکھنی شروع کی تھی یاد کا کونسا دروازہ کھل گیا۔

سمیرا امام

Check Also

Talkh Ho Jata Hoon

By Syed Mehdi Bukhari