Doosri Taraf Gola Barood
دوسری طرف گولہ بارود
بڑے بزرگوں سے سنا تھا کہ جب خشک سالی کے دن طویل ہو جاتے، بارش کا دور دور تک نام و نشان دکھائی نہ دیتا، تو لوگ کسی بزرگ ولی، بابے سے درخواست کرتے کہ وہ بارش کی دعا کرے، دعا کا انتظام نماز استسقاء کی صورت میں کیا جاتا۔ ہاتھ پھیلا کر اللہ میاں سے باران رحمت کی درخواست کی جاتی اور بزرگ ولی اس وقت ہاتھ نیچے نہ کرتا جب تک بارش کی یلغار خشک سالی کا تیا پانچہ نہ کر دیتی۔
بڑوں سے ہم نے جو سنا وہ ہم نے آج تک دیکھا نہیں شاید یہ دور قحط الولایت کا دور ہے، مگر میں نے یہ ضرور پڑھا کہ تان سین کے راگوں میں اتنی تاثیر تھی کہ وہ راگوں سے کھیلتے کھیلتے بارش لے آتا۔ پتہ نہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ نہیں مگر مجھے لگتا ہے فطرت کبھی بے ذوق نہیں ہوتی اس کا ذوق موسیقی بہت اعلی ہے، اچھے سر تال، راگ کی داد فطرت بھی ضرور دیتی ہے۔
یہ لخن داؤدی کا اثر تھا کہ پرندوں کو مسحور کر دیتا، کہیں شاہ اسماعیل شہید کے متعلق بھی پڑھا تھا کہ وہ کافی خوش الحان تھے، قیام بالاکوٹ کے دوران پہاڑوں پر بیٹھ کر اس سوز و ساز سے تلاوت کرتے کہ پرندے فضا میں رک جاتے، شاید یہ بھی روحانی گپ ہی ہو، مجھ جیسا ناستک کہاں ان کرامات عجیبہ کو مانے۔ مگر یہ ناستکانہ منافقت ہے کہ احقر جہاں دم درود کے اثرات کا منکر ہے وہی موسیقی کے اثرات غریبہ کا قائل بھی ہے۔
جیسے کہ البیرونی نے کتاب الہند میں راگ کے ذریعے شکار کا ذکر کیا ہے، اس فن میں ماہر راگ کے ذریعے شکار کو مسحور کرتے اور پھر گردن سے پکڑ لیتے، البیرونی لکھتا ہے "سراندیپ میں بندروں کی بہتات تھی اگر کوئی بندروں کے نرغے میں کوئی آ جاتا تو رامائن کے گیت پڑھنا شروع کر دیتا جس سے بندر بھاگ جاتے، شاید یہ رامائن کے معانی سے زیادہ اس کے صوتی اثرات ہوں"۔
ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب غبار خاطر میں رقص و موسیقی کی ایک خاص قسم کا ذکر کیا ہے جس سے صحرائی جانوروں کو رام کیا جاتا تھا، بادشاہ اکبر ہرن کے شکار کا خاصا شوقین تھا، اس کے شکاری طائفے میں رقص و موسیقی کے ایسے باکمال فن کار بھی تھےجو موسیقی کا جال پچھا دیتے، جب وہ رقص کی محفل پرپا کرتے تو ہرنوں کے غول ہر طرف سے امڈ آتے اور عشق موسیقی میں صیاد کے ہتھے لگ جاتے۔
مہدی حسن بھی راگوں سے گلاس توڑنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے، مگر ہم نے ان میں سے کسی بھی نہ دیکھا، میں نے نہ۔ لخن داؤدی کا مشاہدہ کیا ہے، نہ راگوں سے ہرن پکڑنے کا مگر میں نے مائیکل جیکسن کے میوزک کنسرٹ دیکھے ہیں۔
لاکھوں کے انسانی مجمعے کو اپنی منفرد موسیقی اور ڈانس موو سے مسحور کر دیتا تھا، سن پچاسی کا bad tour کا کنسرٹ دیکھیں، لاکھوں کا ہجوم ہے، سٹیج پر man in the mirror پر مائیکل جیکسن تھرتھرا رہا ہے، اپنی ماسٹر پیس مون والک کر رہا ہے، مجمعے کو دیکھیں، لوگ سحر زدہ ہیں جیسے انھیں ہپناٹائیز کر لیا گیا ہو، لڑکیاں ہیں کہ رو رہی ہے، ہپپی بے خودی میں ناچ رہے ہیں، دیوانے مائیکل جیکسن کے جسم ایک لمس لینے کے لئے باڑ پھلانگ کر سٹیج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لگ رہا یہ ہجوم موسیقی کی عبادت پر تلا ہے۔
میں نے تان سین کے راگوں سے بارش لے آنا تو نہیں دیکھی، نہ ولیوں کی نماز استسقاء میں آہ زاری سے آسمان کو برسنے پر مجبور کرتے دیکھا ہے مگر میں فریڈی مرکری کے شہرہ آفاق کنسرٹ live aid میں ہیرا جگر انسانوں کو میوزک سے پاش پاش ہوتے دیکھا ہے۔
فریڈی اپنے مشہور زمانہ گانے bohemian rhapsody پر ناچ رہا ہے، لندن کا فٹبال سٹیڈیم عوام کے سمندر سے کچھا کھچ ہے، لگ رہا ہے، فاتح بر و بحر کہکشاں انسان نامی دو پایہ موسیقی کی چند دھنوں کی مار ہے۔
جہاں صوتی اثرات سے انسان نامی سفاک جنس رام ہو جاتی ہے وہاں فطرت اتنی بد ذوق کہاں، کہ کھلے میدان میں اگر کوئی خوش الحان امام نماز استسقاء میں بارش کا مطالبہ کر رہا ہو اور فطرت جواب نہ دے، شاید بارش کا ہونا مقدس کلمات کے معانی سے زیادہ البیرونی کے صوتی اثرات کا اثر ہو۔
وگرنہ مقدس کلام کے اثرات کا یہ عالم ہے، روسیوں نے بخارا کے گرد گھیرا تنگ کر لیا تھا، بخارا کی ہر مسجد، مدرسے میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جارہا ہے تاکہ بلائے روس ٹل جائے، مگر ختم قرآن ختم نہ ہوا تھا کہ روسیوں نے بخارا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی جس کا نقشہ ابوالکلام آزاد کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "ایک طرف یا مقلب القلوب تھا دوسری طرف گولہ بارود"۔
طبعی دنیا میں دم درود گولہ بارود سے شکست کھا جاتا ہے۔
آج کل نماز استسقاء کا زیادہ رجحان وہابیوں میں پایا جاتا ہے، ہم وہابیوں کے گلے بھی اپنے عقائد کی طرح بے سرے اور خشک ہوتے ہیں، تو خوش الحانی سے آسمان کے ذوق موسیقی کی تسکین پہچانے سے رہے، مگر اس صوتی مسلئے کا توڑ علماء نے خفیہ بدعت جدیدہ کی صورت میں نکالا ہے، وہ ہے weather forecast، اب گوگل پر موسم کی پیشن گوئی دیکھ کر نماز استسقاء کا دن مقرر کیا جاتا ہے، جس دن بارش کا بتایا گیا ہو اس سے ایک پہلے نماز پڑھا کر دعا کروائی جاتی ہے اور جب اگلے بارش ہو جائے حضرت کی ولایت کا ڈنکہ چار سو بجنے لگتا ہے۔