Tuesday, 17 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Talkh Ho Jata Hoon

Talkh Ho Jata Hoon

تلخ ہو جاتا ہوں

چھٹی والے دن بھی میں اپنی جاب کے ٹائم پر صبح سات بجے اُٹھ جاتا ہوں۔ روٹین بن گئی ہوتی ہے آنکھ اپنے وقت پر کھُل جاتی ہے۔ پھر دوپہر کے بعد سہ پہر کو نیند آ جاتی ہے۔ گذشتہ روز میں سہ پہر کو سو رہا تھا۔ موبائل سائلنٹ پر لگا ہوا تھا۔ ایک انجان نمبر سے کالز آنے لگیں اور مسلسل آنے لگیں۔ موبائل کی وائبریشن سے میری آنکھ کھُلی۔ مجھے سخت کوفت ہوئی۔ میں نے وائبریشن بھی آف کر دی اور پھر سو گیا۔ شام سات بجے جاگا۔ موبائل دیکھا تو اس پر آٹھ کالز تھیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے وہ نمبر اس سوچ کے زیر اثر ملا دیا کہ دیکھوں کون ہے اور اگر کوئی بہت اہم یا ضروری بات نہیں ہے تو اس کی طبیعت صاف کروں کہ اگر ایک شخص نمبر نہیں اٹھا رہا تو اسے اپنے تعارف کے ساتھ میسج چھوڑ دو۔ یہ کیا حرکت ہوئی مسلسل کالز کرتے جانا۔ کال اٹینڈ ہوئی تو آواز سے مجھے بزرگ آدمی لگے۔ میں نے ان کو اپنا تعارف کروا کے پوچھا کہ آپ کی کافی کالز آئیں ہوئیں تھیں خیریت؟

آگے سے جواب آیا کہ میں رئیٹائرڈ آرمی آفیسر ہوں۔ کالز اس لیے کر رہا تھا کہ مجھ سے رہا نہیں گیا سوچا ایک بار بات کروں۔ میں چائے پی رہا تھا۔ موبائل پر آپ کی ایک تحریر سامنے آئی اسے پڑھنے لگا۔ یقین مانئیے مجھے ہنسانا بہت مشکل کام ہے۔ میں ایک فوجی افسر ہوں ہم لوگ معمولی بات پر نہیں ہنستے۔ بلکہ ہم تو ہنسنا بھول جاتے ہیں۔ مگر آپ کی باتیں پڑھ کر مجھے زندگی میں پہلی بار بری طرح غوطہ لگ گیا۔ چائے میری ناک سے باہر آ گئی اور کچھ کپڑوں پر گر گئی۔ میرا بیٹا یہ حالت دیکھ کر بھاگتا آیا۔ میں کچھ سنبھلا تو بیٹے کو کہا کہ اس بندے کا فون نمبر دیکھو اگر ملتا ہے۔ آپ کی پروفائل سے ہی اس نے نمبر لیا اور میں ہی فرط جذبات میں کالز کر رہا تھا اس کے لیے معذرت، آپ شاید بزی تھے مجھے یہ خیال ہی نہیں آ سکا۔

یہ سب سن کر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کو ہنستے ہوئے کہا کہ سچ پوچھیں میں نے آپ کو قدرے بیزاری سے کال کی تھی کہ نجانے کون ہے جو مسلسل کالز کر رہا ہے۔ میری جانب سے بھی معذرت۔ انہوں نے فوجی سٹائل انگریزی میں کہا کہ رہنے دیں یہ تکلفات۔

پھر بولے میں نے آپ کی وال پر کافی کچھ پڑھا۔ آج میرا کافی وقت اسی میں گزرا ہے اور میں کبھی ہنسا ہوں کبھی رویا ہوں۔ آپ میرے بیٹے کی عمر کے ہو گے؟ چالیس پینتالیس سال کے؟ اس عمر میں اتنی پختہ سوچ کیسے آ گئی؟ نہ مجھے ہنسانا آسان کام ہے نہ رُلانا آسان ہے۔

میں نے سُن کر پھر سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جی آپ کے بیٹے کی عمر کا ہی ہوں۔ بس کبھی برائے مزاح لکھ دیتا ہوں کہ اس جنونی معاشرے میں نامساعد حالات میں جیتے لوگ پڑھ کر ہنس لیں اور کبھی سنجیدہ ہو جاتا ہوں کہ چھالے کا علاج نشتر ہی ہوتا ہے۔

خیر، انہوں نے کافی باتیں کیں۔ میری سہولت پر مجھے اپنے گھر کھانے یا چائے کی دعوت دیتے کہنے لگے جب دل کرے والٹن کی جانب آنا ہو تو جسٹ ایک کال کرکے ضرور آؤ مجھے خوشی ہوگی۔ پھر کہنے لگے کہ فوج کے اتنا خلاف ہو مجھے اندازہ ہوگیا ہے مگر میں رئیٹائر فوجی ہوں اور ویسا فوجی بھی نہیں جن کے آپ خلاف ہو۔ میں نے ہنس کر کہا کہ سر میں بحیثیت ادارہ فوج کے خلاف نہیں ہوں۔ میری مخالفت اعلیٰ افسران کی غیر آئینی حرکات اور سیاست میں مداخلت پر ہے۔

فون بند ہونے سے پہلے کہنے لگے کہ میرا بیٹا مجھے کہہ رہا تھا کہ یہ کون بندہ ہے جس کو آپ اتنا غور سے پڑھ رہے ہیں اور بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس بندے کو تو میں ابھی نہیں جانتا مگر جو بھی ہے لگتا ہے اس کے بہت سے اچھے برے لائف ایکسپئیرنس ہیں اور اس نے بہت کچھ دیکھ رکھا ہے۔ تو آپ کبھی آؤ میرے گھر میرے بیٹے سے بھی ملو اور لکھتے رہو۔ بس آج کے حالات میں فوج پر کچھ لکھتے احتیاط کر لیا کرو۔ میرا یہ ایماندارانہ مشورہ ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی آپ کی کسی بات کا بُرا نہ منا جائے۔

مجھے یہ مشورہ میرے مخلص احباب دوست دیتے رہتے ہیں۔ خوشی مجھے اس بات کی ہوتی ہے جب کوئی میری کسی تحریر کے سبب ہنستا ہے یا کچھ سیکھتا ہے یا اداس ہو کر رو پڑتا ہے اور جب وہ شخص عمر میں مجھ سے بھی کافی بڑا ہو تو مجھے تب لگتا ہے کہ لکھا پڑھا بیکار نہیں گیا ہے۔ میری ماں کی تربیت بھی رائیگاں نہیں گئی ہے۔ واہ واہ، تالیوں کی گونج اور روائیتی تعریفی جملے میں نے اپنے فن یا ہنر کی بدولت بہت سنے ہیں، مجھے وہ متاثر نہیں کرتے۔ کبھی اچھا لگتا تھا مگر وقت کے ساتھ انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب الفاظ، واہ واہ، تعریفی جملے سب کلیشے ہیں۔ یعنی اپنا مفہوم کھو چکے برائے رسماً و عادتاً ادا کئے جانے والے جملے ہیں۔

اس سماج سے بہت کچھ بنام مذہب و سیاست، بنام حب الوطنی اور بنام ریاست چھین لیا گیا ہے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ کیا چھن گیا ہے مگر ہاں لوگ اب خالص سچ بولتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ دل کھول کے سامنے نہیں رکھتے بلکہ سامنے والے کا ذہنی ناپ لے کر ایسا باتونی لباس سیتے ہیں جو سننے والے کو تنگ محسوس نہ ہو۔ سب پرتپاک ہیں لیکن کسی کو کسی پر یقین نہیں کہ کس کے ڈانڈے کہاں پر مل رہے ہیں۔ میرے منہ سے نکلی بات کا دوسرا کیا مطلب لے گا اور اس پر کیا ردِعمل دے گا۔ یہ ردِعمل فوری ہوگا یا بعد میں کسی اور شکل میں سامنے آئے گا۔

سب بظاہر ایک دوسرے کو فیس ویلیو پر لے رہے ہیں۔ الفاظ وہی ہیں مگر گودا غائب ہے۔ میز پر گفتگو کے چھلکوں کا انبار ہے۔ روز ساتھ بیٹھنے والوں میں اب یہ لاشعوری احتیاط اور ٹٹول بھی در آئی ہے کہ اللہ جانے پردے کے پیچھے کیا ہے۔ کہیں یہ بھیڑیا تو نہیں، سور تو نہیں، تیندوا تو نہیں، بندر تو نہیں، طوطا، چڑیا تو نہیں۔ ہو سکتا ہے جسے میں خرگوش سمجھ رہا ہوں دراصل سانپ ہو اور جو کل تک مینا تھی آج وہی مینا دراصل بچھو ہو۔

ہاں یہی سماج تھا جہاں کبھی بھی کوئی بات کہتے ہوئے دائیں بائیں نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔ حساس ترین مذہبی و غیر مذہبی معاملات پر دوستوں سے الجھتے ہوئے بھی کوئی اندر سے لگامیں نہیں کھینچتا تھا۔ رک جا، ابے رک جا، پاگل ہوگیا ہے کیا، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ ہوا تیز چل رہی ہے مگر سانس رک رہی ہے۔ بظاہر کوئی کسی پر نگراں نہیں مگر ہر کوئی اپنا ہی ہمہ وقت نگراں ہے۔ سب آزاد گھوم رہے ہیں مگر اپنی سوچ اور روح اپنی ہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔ صرف اس لالچ میں کہ اس جیسی کیسی زندگی کے چند دن اور میسر آ جائیں کہ جس زندگی سے ہر کوئی تنگ ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ زندگی کی تنگی و تلخی کو اپنے پڑھنے والوں کو محسوس نہ ہونے دوں مگر ایسا کرتے کرتے کبھی کبھی میں خود تنگ و تلخ ہو جاتا ہوں۔

Check Also

Aaj Ki Shab To Kisi Tor Guzar Jaye Gi

By Sumaira Imam