ڈرائیونگ سینس
اگرچہ اب اس میں حیرانی کی کوئی بات رہ تو نہیں گئی لیکن کبھی کبھار پھر بھی دل کر جاتا ہے کہ کچھ چڑچڑے پن کا مظاہرہ کیا جائے۔ کچھ خود پر تبرہ پڑھا جائے۔ مجھے لگتا ہے ہمیں پرائمری سکول، ہائی سکولز، کالجز اور یونیورسٹی میں کچھ بینادی باتیں اور رویے سکھانی چاہئے تھے۔ لیکن پھر خیال آیا ان استادوں کو کون سکھاتا کہ وہ ہمیں سکھاتے۔ نہ ہمارے درستی کتب میں ایسی باتیں لکھی تھیں نہ ہمیں کسی نے پڑھایا۔
ابھی یہ دیکھ لیں کہ یہ ایک خوبصورت یونیورسٹی کی فوڈ کینٹن کی پارکنگ جگہ ہے۔ اتنی بڑی پارکنگ خالی پڑی ہے لیکن یہاں گاڑیاں پارک کرنے کی بجائی گاڑیاں سڑک کنارے پارک کی گئی ہیں۔
ایک دوست ساتھ تھا کہنے لگا ہمارا بس نہیں چلتا کہ ہم دکان کے اندر جا کر اپنی بائیک یا گاڑی پارک کریں۔ آپ بتائیں یہ کتنا فاصلہ بنتا ہے؟ ہم چند قدم بھی نہیں اٹھانا چاہتے۔ وہ سڑک کنارے گاڑی پارک کرنے کا رسک لے لیں گے اور اگر کسی کی ٹکڑ ہوگئی تو لڑ لیں گے، دوستوں کا جھتہ بلا لیں گے، تھانہ کہچری بھگت لیں گے لیکن وہ گاڑی کو ٹھیک پارک نہیں کریں گے۔ پتہ نہیں اتنی جلدی ہمیں کس بات کی ہے کہ پھر مارنی ہم نے گپیں ہی ہیں۔
میں بھی 2006 تک ایسا ہی تھا۔ پھر لندن گیا تو شعیب بٹھل سے کچھ ڈرائیونگ sense سیکھی (اگرچہ اس کی بیگم صاحبہ کو اعتراض ہے کہ ابھی وہ ہر ماہ تین چار سو پونڈز پارکنگ ایشو جرمانہ کرا دیتا ہے کہ ری چارج کرنا بھول جاتا ہے)۔
شعیب ساتھ ٹریول کرتے احساس ہوا کہ پارکنگ آپ کو دور ملے یا قریب آپ نے کرنی ٹھیک جگہ پر ہے۔ آپ نے ڈرائیو کرتے جہاں اپنا خیال رکھنا ہے وہیں آپ نے دوسرے ڈرائیور کو بھی ایزی کرنا ہے۔ ہارن کا استمعال بہت کم کرنا ہے۔ پیدل چلنے والوں کو راستہ دینا ہے، جو راستہ دے اس کا شکریہ ادا کرنا ہے، پارکنگ جہاں مل رہی ہو وہ لے لیں چاہے ایک میل دور ہی کیوں نہ ورنہ آگے آپ کو پارکنگ بھی نہیں ملے گی اور واپسی تک پچھلی جگہ پر کوئی پارک کر چکا ہوگا۔
یہ چند تصویریں ہمارے مزاج اور معاشرے کو ریفلکٹ کرتی ہے۔ اب یہاں قائداعظم یونیورسٹی انتظامیہ نے باقاعدہ پارکنگ کی جگہ دی لیکن ہم سب پڑھے لکھوں نے کہا نہیں ہم حکومتوں اداروں کو گالیاں دیں گے کہ سہولتیں نہیں دیتے اور جہاں سہولت ملی ہوئی ہو وہاں ہم گاڑی دکان کے اندر پارک کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب پڑھے لکھے ہیں جنہوں نے سڑک کنارے پارکنگ کی لیکن پراپر پارکنگ جگہ پر نہیں کی۔
اس سے یہ بات تو ثابت ہوئی کہ ہمارے ہاں پاکستان میں آپ تعلیم سے نہیں بلکہ آپ تربیت سے سیکھتے ہیں جو ہمارے ہاں ناپید ہے بس صبح شام ملک کے حالات پر تبرہ اور کڑھنا ہم سے کرا لو۔ اس کی پوری پوری تربیت ہمیں بغیر کسی تربیت ہماری گھٹی میں ملی ہوئی ہے۔