شیخو
شیخو دو ماہ پہلے ہی دنیا کی بہترین یونیورسٹی Berkeley سے ایل ایل ایم کی ڈگری لے کر پاکستان آیا ہے۔ چار سال پہلے لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا تھا۔ مکمل طور پر ایک پڑھا لکھا انسان۔ سوال یہ ہے، کہ کتنے نوجوان ہیں، جو اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکا سے پاکستان آتے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ ایک فیصد یا اس سے بھی کم۔ نناوے فیصد لوگ تو اس بدقسمت خطے سے مغربی دنیا میں بھاگنا چاہتے ہیں۔ اب تو عالم یہ ہے کہ پاکستانی، ادنیٰ کشتیوں میں بیٹھ کر ناجائز طریقے سے سمندر عبور کر کے یورپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس خطرناک مشن میں اکثریت جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
ان تمام حقائق کے برعکس، شیخو تو قانون کی بہترین تعلیم لے کر شعوری دھارے کے برعکس پاکستان واپس آیا ہے۔ شیخو تو گھر کے اندر کا نام ہے۔
اصل نام تو محمد اقبال ہے۔ بلکہ پورا سرکاری نام رائے محمد اقبال ہے۔ انتیس سال کا ذہین نوجوان۔ انتیس برس سے مجھے شیخو کا اصل نام ہی معلوم نہیں تھا۔ بچپن سے لے کر آج تک میرے لیے وہ صرف اور صرف شیخو تھا اور ہے۔ یہ اصلی نام بھی دو دن پہلے مجھے اون نے دیا۔ جو شیخو کا چھوٹا بھائی ہے۔
وہ بھی چند ہفتے پہلے امریکا سے زراعت کی ڈگری لے کر واپس پاکستان آیا ہے۔ اگر اون مجھے شیخو کا نام نہ بتاتا، تو شاید آج بھی میں اسے صرف گھر کے نام کے مطابق پکار رہا ہوتا۔ دونوں بچے جو اب نوجوان ہیں، رائے حسن نواز کے صاحبزادے ہیں۔ جو ساہیوال کی سیاست میں نمایاں اور شریف ترین کردار ہے۔
اس لیے یہ قلمبند نہیں کر رہا کہ حسن نواز سے قریبی عزیز داری ہے۔ بلکہ اس لیے کہ وہ آج کل کی موجودہ سیاسی آلائشوں سے مکمل طور پر دور ہے۔ پرانے سیاست دانوں کی طرح، آج بھی اپنی گرہ سے پیسے خرچ کر کے الیکشن لڑنے والا انسان۔ رائے حسن نواز دراصل نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھا۔ مگر پھر چند درباری سطح کے آدمیوں نے اسے، مسلم لیگ ن سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
تحریک انصاف اس وقت سیاسی طور پر حد درجہ کمزور تھی۔ بارہ برس پہلے کی بات ہے۔ مگر حسن نواز بہرحال، اس ضعیف جماعت میں آ گیا۔ ایم این اے رہا۔ جب پنجاب سے پی ٹی آئی کے دو چار ایم این اے ہی تھے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ اس کے تحریک میں آنے سے جماعت سیاسی طور پر توانا ہوئی۔
چند دن پہلے جب عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا تو پورے پاکستان میں اس کا ردعمل ہوا۔ تحریک کے اکثر لوگوں نے اس میں جذباتی طریقے سے حصہ لیا۔ روز ہر شہر میں گرفتاریاں دینے والے بڑھتے چلے گئے۔ اس رجحان کو میڈیا نے کبھی مثبت طریقے سے بیان نہیں کیا۔
حقیقت یہی ہے کہ ہر طرح کے مخالفانہ منفی پروپیگنڈے کے برعکس، جیل بھرو تحریک بھرپور طریقے سے کامیاب رہی۔ شیخو نے بھی چند دن پہلے گرفتاری دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ساتھ ہی رائے مرتضیٰ جو تحریک کے ایم این اے رہے، وہ بھی قید ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔
جب مجھے معلوم ہوا تو کوشش کے باوجود ان دونوں کو کچھ نہ کہہ سکا۔ اس لیے کہ بذات خود، سرکار کے عتاب اور غصہ کا نشانہ رہا ہوں۔ ایک حاکم شاید لکھنے کی وجہ سے ناراض ہوگیا اور مجھے کئی ہفتے عقوبت خانے میں رکھا گیا۔ جس میں سترہ دن قید تنہائی بھی شامل تھی۔ بہر حال ذاتی معاملہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جیل بھرو تحریک اور شیخو کے بارے میں عرض کرنا مقصود ہے۔
چنددن پہلے شیخو نے ساہیوال سے گرفتاری دی۔ پرعزم نوجوان، وکٹری کانشان بناتے ہوئے قیدیوں کی گاڑی میں سوار ہوا اور تمام ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ وی کا نشان بنا کر وین میں داخل ہونے کی تصویر سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگئی۔ گزشتہ روز تمام قومی سطح کے اخبارات کے فرنٹ پیج پر موجود تھی۔
معلوم ہوا کہ شیخو کو لودھراں لے جایا جا رہا ہے۔ گرفتاری دینے سے چند گھنٹے پہلے شیخو سے فون پر بات ہوئی وہ مکمل حوصلے میں تھا۔ پرعزم تھا اور ہنس رہا تھا۔ ایک نوجوان سے اتنے پختہ رویے کی مجھے ہرگز ہرگز کوئی امید نہیں تھی۔ بہرحال، شیخو اب لودھراں جیل میں ہے۔
وہ ایک سیاسی قیدی ہے۔ کس حال میں ہوگا۔ مجھے کچھ علم نہیں۔ مگر جس جذبے سے بذات خود گرفتار ہوا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آج بھی تکالیف کو مسکرا کر جھیل رہا ہوگا۔ جس وقت کالم لکھ رہا ہوں وہ اس لمحہ سیاسی قیدی ہے۔
پاکستان میں عقوبت خانے میں رہنا دل گردے کا کام ہے۔ اور وہ اسے محبت اور ظرف سے نبھا رہا ہے۔ مجھے یہ کالم لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی کہ آپ کو ایک سیاسی قیدی کا فکری رجحان بتا سکوں۔ بلکہ یہ اس وجہ سے ضروری ہوگیا کہ میڈیا کی اکثریت نے جیل بھرو تحریک کو مکمل طور پر ناکام قرار دیا۔
مختلف وجوہات کی بدولت، مین اسٹریم الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا شدید ترین دباؤ کا شکار ہے۔ یہ تحریک نہ صرف کامیاب رہی۔ بلکہ اس کا نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں صف اول کے لیڈران نے گرفتاری دینے میں پہل کی۔ کسی اور موجودہ سیاسی جماعت یا گروہ نے یہ اعلیٰ ظرف حرکت نہیں کی۔ اکثریت سیاسی جماعتیں جو اب صرف دھڑوں تک محدود ہیں۔ ہمیشہ کارکنان سے قربانی مانگتی ہیں۔
حالیہ مثال سیلاب میں حکمران دھڑے کی دو عملی ہے۔ بدترین سیلاب میں بھی حکمران طبقہ، اپنی دولت کا کچھ قلیل حصہ، سیلاب زدگان کے لیے خرچ نہ کر پایا۔ مغربی دنیا کو تو خیر ان کی دولت کا علم ہے۔
اس لیے، کسی ملک نے سیلاب میں ہماری کوئی قابل ذکر مدد نہیں کی۔ مجھے موجودہ سیاسی حکمران ٹولے میں سے ایک جماعت دکھادیجئے جس میں کارکنان نہیں، بلکہ قائدین نے گرفتاریوں میں پہل کی ہو۔ نیب اور کرپشن کے مقدمات کا ذکر نہیں کررہا۔
وہ تو خیر اہم ترین سیاسی لوگوں سے ہی مزین تھے۔ اس لیے بھی کہ ناجائز دولت ہے ہی ان کے پاس۔ باقی لوگ تو پلاسٹک کے شناختی کارڈ ہیں جو بجلی اور گیس کے ظالمانہ بل دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ یا کرکٹ میچ کے میچوں پر بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ یعنی بے مقصد سے لوگ۔ جنھیں سیاسی طور پر ہمیشہ بے وقوف بنایا گیا ہے۔
لکھاری کو تعصب سے آزاد ہو کر لکھنا چاہیے۔ اور تجزیہ کار کو بھی لگی لپٹی کے بغیر کھل کر سچ بولنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جہاں سے ذاتی فائدہ ملا، اسی چوکھٹ پر ڈھیر ہو گئے۔
ہمارے ملک میں کیونکہ ذاتی مسائل حد درجہ زیادہ ہیں۔ لہٰذا، بولنے اور لکھنے والے لوگوں کی اکثریت کو جیب میں ڈالنا قدرے آسان ہے۔ تحریک انصاف کی مخالفت میں خان کی جیل بھرو تحریک کو مکمل طور پر ناکام قرار دیا گیا۔ ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
جس میں عمران خان کے ہر فیصلے کی طرح، اس تحریک کے بارے میں بھی ایک جعلی سرکاری بیانیہ پیدا کیاجائے۔ ذاتی مشاہدہ نہ ہوتا، تو میں بھی یہیں لکھتا کہ جناب جیل بھرو تحریک تو حد درجہ ناکام ٹھہری۔ پر ایسا ہوا نہیں ہے۔ ہر ضلع سے لوگ نکلے ہیں۔ اپنی مرضی سے مقید ہوئے ہیں۔
بہر حال، یہ معاملہ سپریم کورٹ کے بروقت فیصلے سے تھم گیاہے۔ ہلکی سی امید تھی کہ حکومت سیاسی قیدیوں کو از خود آزاد کردے گی۔ حکومت کے ایک بھی قائد نے یہ بلند ظرف فیصلہ یا اعلان نہیں کیا کہ جیل بھرو تحریک کے سیاسی قیدیوں کو آزاد کیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کے بعد، یہ تحریک انصاف سے گلا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار نہیں۔
دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ شیخو اور اس جیسے ان گنتے نوجوان، جیل کی پہلی رات کو یہ تو ضرور سوچتے ہوں گے کہ وہ ایک حد درجہ مہذب معاشرے کو چھوڑ کر ایک ایسے کرخت ترین نظام میں کیونکر آ گئے، جہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ دراصل اس جنگل میں طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور طبقات صرف اپنے ذاتی فوائد کو صائب سمجھتے ہیں۔
ملکی ترقی کی تو خیر کسی کو بھی فکر نہیں۔ پھر بھی ان حالات میں شیخو جیسے نوجوان ہمارے اچھے مستقبل کی نوید ہیں۔ شاید یہ اپنی زندگی میں بہتر پاکستان دیکھ پائیں؟