Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Rao Manzar Hayat
  3. Register

Register

رجسٹر

ایک دوست جس کا تعلق وسطی پنجاب کے مشہور شہر سے ہے، کوئی دس برس پہلے ایک چھوٹی سی ٹیکسٹائل مل کھول لی۔ ایک ڈیڑھ برس کاروبار سمجھنے میں لگا۔ پھر کارخانہ چلنا شروع ہو گیا۔ خوشحالی بھی آگئی۔ گاڑی بھی بڑی اور قیمتی خرید لی۔ اچانک کاروبار حد درجہ بدحالی کا شکار ہو گیا۔

ہر سرکاری ادارہ چیل کی طرح اس کے کارخانے پر یلغار میں مصروف کار ہو گیا۔ شاید ماس کی تلاش تھی۔ بینک سے قرضہ کبھی نہیں لیا تھا۔ صرف اس لیے کہ سود کے حرام ہونے پر یقین تھا۔ کوشش اور سفارش کر کے بینک سے قرض بھی حاصل کر لیا۔ کاروبار تھوڑا سا بہترہوا۔ مگر پھر بینک کی معہ سود ادائیگیوں نے کمر توڑ ڈالی۔ سات آٹھ برس پہلے میرے پاس آیا۔ کہنے لگا کہ دوبئی یا بنگلادیش میں کاروبار منتقل کرنا چاہتا ہے۔ شاید کچھ بہتری کی صورت نکل آئے۔

سرکاری بابو کو بھلا کاروبار کا کیا معلوم۔ تسلی دینے کے علاوہ کوئی خاص مدد نہ کر سکا۔ لیکن یہ ضرور کیا کہ اپنے ایک کامیاب واقف کار کے پاس بھیج دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ زندگی کی دوڑمیں مصروفیت ہی مصروفیت تھی۔ مکمل طور پردوست کے معاملات کو بھول گیا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک شادی پر ملاقات ہوئی۔ بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ تقریب کے خاتمہ پر کہنے لگا کہ چلو اکٹھے کہیں کافی پیتے ہیں۔ خیر جب ڈرائیور اس کی گاڑی لایا۔ تو حیران رہ گیا۔ یہ نئے ماڈل کی رولز رائس تھی۔ مارکیٹ میں اس کی قیمت تقریباً اکیس کروڑ ہے۔

میری حیرت کو بھانپ گیا۔ لاہور کے ایک کافی ہاؤس میں چلے گئے۔ باتوں کا دور شروع ہو گیا۔ کہنے لگا کہ آج میں نے آپ کو تھوڑا سا حیران دیکھا ہے۔ جواب تھا۔ کہ تھوڑا نہیں، از حد حیران ہوں۔ آپ تو کاروبار چھوڑ کر بیرون ملک جانے کا سوچ رہے تھے۔ پھر ماشاء اللہ اتنی وسعت کیسے۔

دوست نے قہقہہ لگایا۔ کہا کہ مجھے صرف پانچ منٹ کے لیے غور سے سنو۔ ہاں، اگر وقت زیادہ ہو جائے تو ضرور ٹوک دینا۔ یاد ہے۔ مشاورت کے لیے ایک کامیاب کاروباری شخصیت کے پاس بھیجا تھا۔ بڑی مشکل سے مجھے یاد آیا کہ ہاں۔ مگر اس نے ایسا کون سا مشورہ دیا کہ تمہاری کایا پلٹ گئی۔ دوست نے بتایا کہ آپ کے دوست اور میرے اس محسن نے مشورہ دیا کہ صرف ایک رجسٹر خرید لو۔

میرے لیے یہ بات عجیب سی تھی۔ بھلا سو روپے کے رجسٹر سے کاروبار کیسے بہتر ہو گا۔ خیر رجسٹر خریدا اور اس کے پاس دوبارہ چلا گیا۔ اس کاروباری شخص نے ایک لکیر کھینچی۔ ایک طرف اخراجات اور دوسری طرف آمدنی لکھ دی۔ ایسا لگا کہ یہ شخص کاروباری بدحالی دیکھ کر میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ بھلا ایک طرف اخراجات اور دوسری طرف آمدنی لکھنے سے کیا تیر مارا جائے گا۔ اس کے بعد، کاروباری محسن نے اخراجات کے پہلے خانے میں لکھا "رشوت"۔ میں چونک گیا۔

ایسے لگا کہ اس نے بھرے بازار میں مجھے برہنہ کر دیا ہے۔ غصے میں اٹھ کر جانے لگا۔ تو سمجھ گیا کہ میں غصہ میں آ گیا ہوں۔ رشوت کا لفظ کاٹ کر انگریزی میں Speed money لکھ دیا۔ کہنے لگا کہ کاروبار میں سب سے پہلا خرچہ یہی ہے جو تم مختلف اداروں اور شخصیات کو دینے سے انکار کرتے رہے ہو۔ واپس جاؤ۔ گھر نہ جانا۔ کارخانہ میں جاؤ۔ اکاؤنٹنٹ کو بلاؤ۔ جو بھی متعلقہ ادارہ یا شخص ہے۔ اس کو بے دریغ پیسے دینے شروع کر دو۔ خاموشی اور راز داری سے ان کے نام رجسٹر میں درج کرتے جاؤ۔ رات کے دو بجے مل میں پہنچا۔ کام تقریباً ٹھپ پڑا تھا۔

اکاؤنٹنٹ کو گاڑی بھیج کر بلوایا۔ رات گئے ہڑبڑاتا ہوا آیا۔ رجسٹر اس کے ہاتھ میں دیا۔ اور کہا کہ اب ہر طرف اسپیڈ منی تقسیم کرنا شروع کر دو۔ ایک مہینے میں کوئی ستائیس لاکھ روپے تقسیم ہوئے۔ اب میرے کاروبار کے متعلق سرکاری پوچھ گچھ قدرے کم ہونے لگی۔ فون کر کے اپنے کاروباری محسن سے پوچھا کہ مزید کیا کرنا ہے۔ اس نے سنجیدگی سے مشورہ دیا کہ اب اپنے دفتر میں ایک برانچ بناؤ۔ جس کا کام صرف اور صرف رشوت دینا ہو۔ یاد رہے کہ اس میں ایک دو حد درجہ مذہبی نظر آنے والے افراد اور دو تین پڑھی لکھی خوبصورت لڑکیاں ہونی چاہیں۔

اس ڈیپارٹمنٹ کا مصرف صرف یہ ہو کہ جہاں بھی تمہارا کام ہو وہاں جا کر تسلی اور ادب سے پیسے تقسیم کریں اور خاموشی سے واپس آ جائیں۔ مجھے عجیب سا لگا۔ بہر حال کیونکہ اب کارخانہ منافع میں چل رہا تھا۔ لہٰذا اسپیڈ منی یا رشوت دینے کا ایک شعبہ قائم کر لیا۔ دو حد درجہ مذہبی دکھائی دینے والے حضرات اور دو اچھے ادارے سے تعلیم یافتہ لڑکیاں ملازم رکھ لیں۔ دو عدد ٹیمیں بھی ترتیب دے ڈالیں۔ ایک حضرت صاحب اور ایک خوبصورت لڑکی۔ اب ہونا یہ شروع ہوا کہ جس دفتر میں کوئی کام ہوتا۔ میری ایک ٹیم جاتی اور بغیر کسی تردد کے پیسے تقسیم کر کے واپس آ جاتی۔

جب بتاتے کہ فلاں سرکاری بابو نے ان سے اتنے پیسے وصول کیے ہیں، تو میں حیران رہ جاتا۔ کیونکہ وہ تو ظاہری طور پر بہت ایماندار مشہور تھا۔ میرا کاروبار اب تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا۔ میں نے ایک ٹریول ایجنٹ کو بلایا اور اپنے رشوت دینے والے ڈیپارٹمنٹ کو حکم دیا کہ اگر کوئی بھی اہم آدمی، بیرون ملک یا اندرون ملک جانے کے لیے ٹکٹ مانگے یا ہوٹل کی فرمائش کرے تو یہ ٹریول ایجنٹ اس کا انتظام کرے گا۔ پیسے دفتر ادا کرے گا۔ کاروں کے ایک شو روم سے بھی معاہدہ کر لیا کہ جب بھی، جس وقت بھی، میرے اہلکار، کسی کے لیے گاڑی مانگیں، آپ نے آنکھیں بند کر کے دے دینی ہے۔

ڈاکٹر صاحب! آپ یقین فرمائیے۔ اسپیڈمنی کے شعبہ کی کارکردگی کمال ہو گئی۔ افسروں، وزیروں، ان کے اہل خانہ اور اہم ترین لوگوں کی تمام ضروریات عمدہ طریقے اور راز داری سے پوری ہونے لگیں۔ اب ایک سے دو، اور پھر سات ٹیکسٹائل ملیں ہو گئیں۔ پیسے گنے نہیں جاتے تھے۔ میں نے ایک اور کام بھی شروع کیا۔ پاکستان کے اہم ترین سیاسی لوگوں کو پارٹی فنڈ دینا شروع کر دیا۔ اگر کہیں کوئی قومی حادثہ ہو گیا۔ تو فوراً دو چار کروڑ سرکاری فنڈ میں جمع کروا دیتا۔

حالت یہ ہو گئی کہ ملک کے اہم ترین لوگ ذاتی دوست بن گئے۔ وجہ صرف وہ پیسہ تھا جو میں انھیں دیتا رہتا تھا۔ کاروبار تو خیر اب چل نہیں بلکہ دوڑ رہا تھا۔ مگر سارا کام اسپیڈمنی کے شعبہ سے شروع ہوا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ میرا کاروبار حد درجہ بہترنہیں بلکہ بہترین چل رہا ہے۔ کوئی سرکاری عمال یا سیاسی پار ٹی تنگ نہیں کرتی۔ ہر حکومت میری ترقی کی مثال دیتی ہے۔ وزیراعظم اور وزراء بیرون ملک جاتے ہوئے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ وہاں میں بیگمات کو دل کھول کر شاپنگ کرواتا ہوں۔ دولت، کامیابی اور مستقل اقتدار، اب میرے گھر اور دفتر کی چوکھٹ پر سربسجدہ ہیں۔

بات کو پانچ منٹ نہیں بلکہ چالیس منٹ ہو چکے تھے۔ ملاقات کے بعد واپسی پر پاکستان میں کامیابی کے اس ماڈل پر غور شروع کر دیا۔ حیران ہو گیا کہ کوئی ایک بھی ایسا کامیاب کاروباری ادارہ نہیں ہے۔ جو "اسپیڈ منی" کے شعبہ کے بغیر کام کر رہا ہو۔ کوئی ایک بھی بھرپور رشوت دیے بغیر کامیاب نہیں ہے۔ شاید تسلیم کوئی بھی نہ کرے۔ مگر بڑے سے بڑے کاروباری لوگوں اور اداروں نے سرکاری، نیم سرکاری اور دیگر شعبوں سے خوشگوار تعلقات کے لیے انتہائی زبردست " اسپیڈمنی سیل" بنا رکھے ہیں۔

اس ذیلی ادارے کا کاوربار سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر اسی کے دم سے تمام کاروبار چمک اور دمک رہے ہیں۔ اس کو تسلیم کوئی نہیں کرے گا۔ کوئی بھی "نکو" نہیں بننا چاہتا۔ مگر ہر کامیاب شخص جانتا ہے کہ بھرپور ترقی کی کنجی کیا اور کہاں ہے۔

میرے دوست اور اس طرز کے لوگوں کو آپ اخلاقیات کے کٹہرے میں کھڑا کر کے کوڑے مار سکتے ہیں۔ ان کے طرز عمل کو پھانسی کی سزا بھی سنا سکتے ہیں۔ اسے ہر طریقے سے منفی بھی قرار دے سکتے ہیں۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آپ بالکل درست سوچ رہے ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے آپ کا فیصلہ حد درجہ مقدم بھی ہے۔ مگر زمینی حقائق کسی طور پر بھی بلند ترین اخلاقی اصول کے تحت نہیں چل رہے۔ یہ ہمارے جیسے ملکوں کا اصل المیہ ہے کہ یہاں کوئی بھی فیصلہ میرٹ پر نہیں ہوتا۔

ہمارے حکمرانوں کی مثال سامنے رکھیے۔ ان میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکتا کہ وہ کیسے اتنا امیر ہوا ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ ان سے اربوں نہیں کھربوں کا حساب مانگنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں۔ دکھاوا اور کارروائی تو ہے مگر کوئی ادارہ یا اہم شخص یہ نہیں چاہتا کہ ہمارے سیاسی لیڈروں کو معمولی سا بھی نقصان پہنچے۔ اس کارِ خیر یا کارِ بد میں تمام فریق بالکل ایک جیسے ہیں۔ تمام کے تمام" اسپیڈمنی کے شعبہ " کے ذریعے چل رہے ہیں۔ عوام تو بے وقوف ہیں ہی۔ مگر کمال یہ ہے کہ برف باری میں اپنا حصہ زبردستی وصول کرنے سے باز نہیں آتے۔

صاحبان! معاف فرمائیے۔ یہ ملک اور اس کا نظام اسپیڈ منی کی بدولت ہی چل رہا ہے۔ رجسٹر میں پیسے وصول کرنے والے سرکاری بابوؤں، سیاسی گماشتے، ریاستی اداروں کے افراد اور اہم ترین لوگوں کے نام پڑھ کر آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ مگر حیرانگی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس دو نمبر ملک میں، دس نمبر کے لوگ پورے نظام پر قابض ہیں۔

Check Also

Udas Naslain, Khan Deedawar, Trump Maseeha

By Nusrat Javed