Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Rao Manzar Hayat/
  3. Nadani

Nadani

نادانی

ملک کے سیاسی حالات کشیدگی کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ سیاست میں گروہ بندی، اب ذاتی دشمنی کی شکل بن چکی ہے۔ پوری دنیا میں ریاستی، اقتصادی، سماجی معاملات بلیک اینڈ وائٹ، یعنی "قطعی تفریق" کے ساتھ نہیں دیکھے جاتے۔ پیشتر اہم ترین پالیسیاں"گرے" ایریا میں ہوتی ہیں۔

یعنی وہ ایک محلول کی طرح ترتیب دی جاتی ہیں۔ جو قومی مفادات میں ہر دم بدلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مگر ہر قدرتی اور دنیاوی اصول کے برعکس، ہماری سوچ، طرز حکومت اور عملی رجحان ہر ایک کے لیے "قطعی" صورت حال میں ڈھل چکا ہے۔ یعنی اگر میں ایک مخصوص سیاسی یا مذہبی گروہ کے ساتھ ہوں، تو صرف میں درست ہوں۔

باقی نہ صرف غلط ہیں۔ بلکہ ان کا وجود ہی مٹا دینا چاہیے۔ یہ وہ سنجیدہ ترین نکتہ ہے جس پر بات کم سے کم کی جاتی ہے۔ یہاں ایک اور امر کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ ہر بات کہنے کی نہیں ہوتی۔ ہر معاملہ میں تفریق روا رکھنی ضروری ہے۔ خواص کی بات، عامی تک پہنچانا غیر دانشمندی ہی نہیں، یہ خلاف تدبیر بھی ہے۔ افسوس! ہمارے سماج میں کشیدگی حد درجہ زیادہ ہے۔

یہ تفریق ہر شعبہ زندگی میں زہر گھول چکی ہے۔ یہاں ایک اور بات ذہن نشین کرنا اہم ہے۔ تفرقہ اپنی جگہ، مگر ہمارے عمل میں"ذاتی عزت" کا عنصر قدرے کم معلوم ہوتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ آٹا کم یاب ہو چکا ہے۔ عام لوگ، بے ترتیب ہجوم بنا کر دھکم پیل سے سستا آٹا وصول کرنا قطعاً عیب نہیں سمجھتے۔ مگر کوئی بھی آٹا چھین کر لے جانے کی استطاعت نہیں دکھاتا۔ یعنی ہماری جتنی مرضی بے عزتی ہو جائے۔ جتنی مرضی ذلت اٹھانی پڑے۔ ہم اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے سے محروم ہیں۔

جو مقامی دانشور، ہمارے ملک میں انقلاب یا خانہ جنگی کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے خلاف استدلال صرف ایک ہے کہ لوگوں کی اکثریت اپنے حقوق کے لیے لڑنا مرنا نہیں جانتی۔ ہر شخص، گروہ اور سیاست دان، ہر ادارہ مصلحت کی کالی عینک لگائے خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔

ابتدائی تمہید کے بعد موجودہ صورت حال کو کسی بھی نظریہ کے بغیر دیکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ حد درجہ مشکل کام ہے۔ اس لیے کہ انسان کا اپنے تعصب پر فتح پا کر آگے چلنا غیر معمولی دل گردے کا کام ہے۔

اس وقت سیاست میں متضاد بیانات کا دھواں، آگ اور بارش ہر دم موجود ہے۔ مگر ایسے لگتا ہے کہ سیاست میں عمران خان اب کوئی سیاسی لیڈر نہیں رہا، بلکہ ایک "سیاسی سطح کا جن" بن چکا ہے۔ ہرگز ہرگز، عمران خان کی تعریف نہیں کر رہا۔ اس کی طرز حکمرانی حد درجہ ادنیٰ ہے۔ مشاورت پر یقین نہ رکھنا اور ضعیف اعتقادی بھی صائب رویہ نہیں ہے۔ مگر اپنے ہم عصروں سے سیاسی سطح پر آگے نکل چکا ہے۔

کسی بھی بندے کا نام لیے بغیر عرض کرونگا کہ عمران خان، پرانے سیاست دانوں کی بداعمالیوں کے خلاف ایک رد عمل بن کرسامنے آیا ہے۔ آج تک کوئی ایسا دل گردے والا بندہ اداروں کے سامنے آ کر کھڑا ہی نہیں ہوا۔ جس طرح اس "غیر سنجیدہ" انسان نے کیا ہے۔

اداروں کے پاس بھی اب کوئی روایتی فارمولا نہیں رہا، جس سے اس جن کو واپس بوتل میں مقید کر دیں۔ پاکستان میں کم از کم یہ سب پہلی بار ہو رہا ہے۔ اس میں عمران خان کی کوئی حکمت عملی یا کارنامہ نہیں۔ بلکہ دہائیوں سے عوام کے ذہنوں میں اس لاوا کی موجودگی ہے جو بے بسی سے دیکھتے، سنتے اور برداشت کرتے رہے ہیں۔

اور اب یہی آتش فشاں، روایتی لیڈروں کے بس سے باہر ہو چکا ہے۔ لازم ہے کہ اس کا سیاسی فائدہ عمران خان کے سوا کسی کو نہیں ہوگا۔ لندن، واشنگٹن اور مہربان، سب پریشان ہیں کہ اب کونسا داؤ پیچ آزمایا جائے کہ انہونی، سچ مچ نہ ہو جائے۔

پہلے عمران خان کو سمجھایا گیا۔ پھر دھمکیوں کا استعمال کیا گیا۔ اس کے ساتھیوں کو ذلیل کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ اور پھر آخر میں قاتلانہ حملہ، یہ ایک سلسلہ وار کام ہے جسے بہر حال ہماری آنکھوں کے سامنے سرانجام دیا گیا۔ مگر ان سب کے لیے پریشانی یہ ہے کہ خان آج بھی سیاست میں موجود ہے اور سب کی چھاتی پر مونگ دل رہا ہے۔

اس طرح کی محیر العقول سیاسی صورت حال آج تک کم از کم ہمارے ملک میں برپا نہیں ہوئی۔ ایک اور جانب بھی نظر دوڑایئے۔ دانشوروں اور لکھاریوں کو کسی نہ کسی طور پر مسخر کر کے ان سے مسلسل عمران خان کے خلاف ٹی وی پروگرام اور کالم لکھوائے جا رہے ہیں۔ یہ رجحان سازی کی طرف ایک صائب قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔

مگر یہ حربہ بھی ناکام نظر آ رہا ہے۔ لندن سے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کی سوشل میڈیا پر پہنچ غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے۔ گجرات سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کا انٹرویو بظاہر غیر سنجیدہ نظر آتا ہے۔ مگر کم از کم لوگوں کے ذہنوں میں عمران خان پر حملے کے متعلق ایک نئی جہت کی طرف اشارہ ضرور کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر عمران خان کے حق میں غیر معمولی ستائش موجود ہے۔

یہ درست ہے یا غلط۔ اس نکتہ پر بھی قطعی طور پر کچھ بھی کہنا حد درجہ مشکل ہے۔ مگر ایک بات ثابت ہو رہی ہے کہ تیرہ سیاسی جماعتیں، ایک پیج پر ہونے کے باوجود، کم از کم عمران خان کو گرانے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔ دوبارہ عرض کرونگا۔

یہ عمران سے محبت نہیں بلکہ روایتی حکمرانوں کے پیہم جھوٹ کے خلاف نفرت ہے جو طویل عرصہ سے جاری تھی اور آج بھی خوفناک طور پر جاری و ساری ہے۔ مہربان پہلی بار خائف نظر آ رہے ہیں۔

ایک بات تو طے ہے کہ فوری الیکشن کسی صورت میں نہیں ہونگے۔ اقتدار پر بیساکھیوں سے قابض گروہ کسی صورت میں فوری الیکشن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انھیں خوف ہے کہ ووٹ ان کی ناقدری کو ثابت کر دے گا۔ لہٰذا اب کیا ہو سکتا ہے۔ موجودہ اسمبلیوں کو نہ صرف اپنی مدت پوری کروائی جائے گی بلکہ واضح امکان ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت ایک سال یا اس سے بھی زیادہ بڑھائی جائے گی۔

اس کے لیے عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کی ناپسندیدہ روایت بہر حال موجود ہے۔ اس کا عوامی درعمل کیا ہو سکتا ہے۔ اس پر غور وفکر جاری ہے۔ اس بات پر بھی کام جاری ہے کہ اگر پنجاب میں موجودہ وزیراعلیٰ تھوڑا سا بھی اسٹینڈ لینے کی جسارت کرینگے تو پنجاب کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ اور یہ صوبہ بھی پی ڈی ایم کے حوالے کر دیا جائے گا۔

اب قیامت یہ ہے کہ "مفاہمت کا بادشاہ" لاہور بیٹھا رہا اور ایک ایم پی اے بھی نہ توڑ پایا۔ "بادشاہ گر" مکمل ناکام ہو کر واپس گیا۔ دلیل پر سوچ کے زاویہ کو آگے بڑھایئے۔ مقتدر ٹولہ پاکستان کو معاشی ڈیفالٹ کی طرف لے کر گیا ہے۔

مقصد صرف یہ کہ ملک کے ہاتھ پیر باندھ کر بین الاقوامی قوتوں کے سامنے بے دست و پا پھینک دیا جائے۔ جو مؤثر اثاثے موجود ہیں، ان کو بھی چھین لیا جائے۔ موجودہ معاشی ڈیفالٹ تخت پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی ناحق حکمت عملی ہے۔ ورنہ ملک کو اٹھانا بالکل مشکل نہ تھا۔

مگر رکیے۔ وہ افراد جو ریاستی اداروں کے صرف چند ماہ پہلے درپے تھے، ایک دم اتنے موم کیسے ہو گئے۔ مہربانوں کے ذہن میں ان کا ماضی بالکل سامنے ہے۔ شنید ہے کہ سوچ رہے ہیں کہ ان سے جان چھڑائی جائے۔ یعنی الیکشن بھی نہ ہوں، اور ملک بھی درست سمت کی طرف گامزن ہو جائے۔ اس کا کوئی آئینی طریقہ تو موجود نہیں ہے۔

تو پھر، کوئی غیر آئینی عمل بہرحال ہو سکتا ہے۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔ ویسے آئین کی عملی حیثیت تو ہمارے محبوب ترین رہنما، جنرل ضیا الحق نے دکھا ہی دی تھی؟ خاکسار اس میں اب کیا اضافہ کر سکتا ہے۔ یعنی انہونی ہو سکتی ہے اور وہ بھی کسی نئی شکل میں۔ مگر مہربانوں کے اندر اب دراڑ موجود ہے۔

کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ موجودہ کرداروں کو فارغ کر کے الیکشن کروائے جائیں اور جو جیتے اسے اقتدار حوالے کر دیا جائے۔ مگر پی ڈی ایم کسی بھی قیمت پر الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ حد درجہ خوفناک جنگ ہے جس میں ہر فطری اور غیر فطری ہتھیار استعمال کیا جائے گا۔

ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کا حد درجہ متضاد دھارے کا جنگی اتحاد اس کی طرف ایک عملی قدم ہے۔ آنے والے دنوں میں اقتدار کا کھیل مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ اس کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔ اس نادانی کی گنجائش تو نہیں، مگر امکان ضرور ہے؟

Check Also

Doctors Day

By Naveed Khalid Tarar