خرگوش‘ شیر اور سانپ
صاحب سے چند ماہ سے کوئی ملاقات نہ ہوئی تھی۔ ملک کی ہیجان خیز زندگی تو خیر ہے ہی، مگر اب بذات خود اتنا مصروف ہو چکا ہوں کہ دن گزرنے کا معلوم ہی نہیں ہوتا۔ چند دن پہلے خلاف توقع فون آیا۔ وہی پہلا سوال کہ کدھر ہو۔ اگلا فقرہ حد درجہ معنی خیز تھا۔
گزشتہ پندرہ دن سے پاکستان آیا ہوا ہوں اور کسی قسم کا کوئی کام نہیں کر رہا۔ سوائے ایک کام کے، جو فون پر بتایا نہیں جا سکتا۔ خیر لاہور ہی میں ہوں۔ دو دن بعد ملاقات ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں جلدی سو جاتا ہوں۔ صاحب کی کاروباری زندگی شروع ہی رات نو بجے کے بعد ہوتی ہے۔ خیر باہمی بحث کے بعد رات نو بجے کا وقت مقرر ہوا۔
ٹھیک وقت پر ان کے فارم ہاؤس پہنچا۔ غیر ملکی ملازم نے بتایا کہ صاحب، گھر میں قائم اپنے چڑیا گھر میں موجود ہیں۔ فارم ہاؤس کے اندر ہر طرح کے قیمتی جانور، پرندے اور reptilesموجود ہیں۔ پگڈنڈی سے ہوتا ہوا پنجروں کی جانب گیا۔ تو صاحب ایک پنجرے کے اندر بڑے آرام سے بیٹھے تھے۔ بالکل ساتھ، ایک مہیب سفید شیر بڑے سکون سے گوشت کھا رہا تھا۔ پنجرے میں دو کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔
خوف محسوس ہوا کہ اتنا خوفناک جانور ہے جو منٹوں میں انسان کے پر پرزے اڑا سکتا ہے۔ مگر صاحب نے کہا کہ پنجرے کے اندر آ جاؤ، یہ کچھ نہیں کہے گا۔ صاحب پوچھنے لگے کہ ملک کے کیا حالات ہیں۔ میرا جواب تھا۔ کس ملک کے۔ صاحب دراصل تین چار ملکوں کے شہری ہیں۔ بہرحال ان کا طویل عرصہ، پاکستان میں گزرا ہے۔ لہٰذا پاکستان ہی کا پوچھ رہے تھے۔ سوچ کر جواب دیا۔
پاکستان کے حالات ہمیشہ ہی سے ابتر رہے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی معمولی سی ترقی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس پر کیا بات کرنی۔ صاحب، خاموش ہو گئے۔ ان کے پاؤں کے بائیں طرف ایک زندہ خرگوش بیٹھا ہوا تھا۔ صاحب نے بڑے آرام سے خرگوش کو پکڑا اور گیند کی طرح ہوا میں اچھال دیا۔ تمام شیر بجلی کی طرح یک دم لپکے۔ خرگوش ایک گیند کی طرح ایک پھرتیلے شیر کے مونہہ میں جا کر غائب ہوگیا۔ غور سے دیکھا تو شیرنی تھی۔
صاحب کی اس عجیب حرکت سے کوفت سی ہوئی۔ کتنا سنجیدہ سوال ہے کہ ملک کے کیا حالات ہیں۔ اور یہ کتنا غیر سنجیدہ سا رویہ ہے۔ صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ کہ ڈاکٹر، تمہارے ملک کو خرگوش بنا کر فضا میں اچھال دیا گیا ہے اور نیچے اسے کھانے کے لیے شیر موجود ہیں۔ خرگوش ابھی فضا میں قلا بازیاں کھا رہا ہے۔ دیکھو آگے کیا ہوتا ہے۔ بڑی وحشت ناک سی مثال تھی۔
خیر دونوں پنجرے سے باہر آئے تو صاحب فارم ہاؤس کے پسندیدہ حصے میں بڑے آرام سے بیٹھ گئے۔ سوئیمنگ پول کے بالکل ساتھ۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کا پالتو پیلا سانپ باہر آ گیا۔ سانپ کو محفوظ رکھا اور معصوم خرگوش کو شیروں کی غذا بنا دیا۔ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، ڈاکٹر، یہ اور دیگر سانپ میرے پالتو ہیں۔ مجھے بہت عزیز ہیں۔ جہاز میں بھی میرے ساتھ ہی سفر کرتے ہیں۔
بھلا کوئی اپنے اتنے عزیز جانور کوکیسے قربان کرتا ہے۔ خرگوش نہ تو کسی کا پالتو ہوتا ہے اور نہ ہی گھاس کے علاوہ کسی سے رغبت رکھتا ہے۔ سو خرگوش بھی مل کر نہ کسی سے مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر سانپ دشمن کو ڈس کر مار دیتا ہے۔ لہٰذا سانپ پالنا بہت بہتر ہے۔ مگر صاحب، میں تو ملکی حالات کی بات کر رہا تھا۔
آپ نے خرگوش اور سانپ کے قصے میں الجھا دیا۔ کہنے لگے۔ تمہارے پورے ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات، سانپ، شیر اور خرگوش بن چکے ہیں۔ مگر ایک فرق ہے۔ جانور اپنی فطرت پر قائم رہتے ہیں۔ مگر تم لوگ، تمہارے لیڈر، رہنما یا قائدین اپنی جون بدلتے رہتے ہیں۔ ایک لمحہ میں خرگوش سے شیر بن جاتے ہیں۔ اور یک دم سانپ بھی بن جاتے ہیں۔ ان کی کوئی نسل ہی نہیں ہے۔ اور ہاں۔ یہاں مستقل شیر بھی کوئی نہیں ہے۔
جیسے حالات بہتر ہوتے ہیں تو خرگوش بل سے باہر نکل کر، بڑی سی کھال پہن کر شیر کی طرح دھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔ صاحب کی بات بہت صائب تھی۔ اکثر اوقات ایک سیاست دان بدحالی کی انتہا پر ہوتا ہے۔ دوسرے لمحے اسے طاقت ور بنا دیا جاتا ہے۔ کہنے لگے۔ ڈاکٹر، آؤ تمہیں ایک نئی چیز دکھاتا ہوں۔
دونوں اٹھ کر اسٹڈی میں آ گئے۔ یہاں چھ سات مختلف اقسام کے سانپ لیٹے ہوئے تھے۔ صاحب کو کہا کہ اس اسٹڈی میں تو پہلے آیا ہوا ہوں۔ اور مجھے اتنے سانپ بالکل اچھے نہیں لگتے۔ صاحب نے ٹیبل پر پڑا ہوا ریموٹ اٹھایا۔ ایسے لگا کہ ٹی وی آن کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یک دم اسٹڈی کی دیوار سامنے سے ہٹ گئی۔ دراصل اسٹڈی کے پیچھے ایک کمرہ تھا۔
دونوں کے درمیان ایک دیوار جو ریموٹ سے سمٹ جاتی تھی۔ یہ صاحب کہنے لگے یہ میرالاکر ہے۔ کافی بڑا کمرہ تھا۔ اندر گیا تو آنکھیں پھٹ گئی۔ ڈالر، پاؤنڈ، درہم، دنیا کی تقریبا ہر کرنسی ان گنت تعداد میں بڑے قرینے سے مختلف جانب لگی ہوئی تھی۔ صاحب آپ یہ سب کچھ کیوں دکھا رہے ہیں۔ صاحب نے زور سے قہقہہ لگایا کہ گزشتہ دو سالوں میں تمہارے ملک کی کرنسی ساٹھ سے ستر فیصد گری ہے۔
آج سے ٹھیک دو سال پہلے پاکستان کے اہم ترین شخص نے مجھے بتا دیا تھا کہ ہم کرنسی کو گرا رہے ہیں۔ چنانچہ فوراً ڈالر اور پاؤنڈ خرید لیے۔ پھر چند دوستوں نے بھی پیسے دیے۔ لگ بھگ ایک بلین کے تو صرف ڈالر خریدے۔ اب بتاؤ اگر یہ ڈالر مارکیٹ میں بیچ دوں تو ایک ڈالر پر تقریباً دو گنی قیمت وصول ہوگی۔ میرے پیسے پڑے پڑے دوگنے ہو گئے۔ اس سے اچھا بہتر اور زبردست کام اور کیا ہوگا۔ پریشان دیکھ کر صاحب، سیف سے باہر آئے اور اسٹڈی میں بیٹھ گئے۔
کہنے لگے، کہ ڈاکٹر یہ سارے پیسے میرے نہیں ہیں۔ تمہارے ملک کے اہم ترین لوگوں کے پیسے بھی اس میں شامل ہیں۔ نام نہیں بتا سکتا۔ مگر تمہارے ملک کی پوری قسمت، میرے ایک سیف میں بند ہے۔ صاحب، آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو ملکی مفاد کے خلاف ہے۔ صاحب نے بڑے آرام سے کہا۔ دولت کمانے کو برا کیسے کہا جا سکتا ہے۔
میں تو خیر سرے سے پاکستانی ہوں ہی نہیں۔ یہ جن کے ہیں یہاں محفوظ پڑے ہیں اور وہی تو تمہارے ملک کی قسمت کے مالک ہیں۔ ان سے کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ میرے پاس صاحب کی اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ تھوڑا سا پریشان دیکھ کر صاحب کہنے لگے۔ ڈاکٹر، ابھی تمہارے ملک کے ساتھ کچھ خاص برا نہیں ہوا، دو چار ماہ بعد دیکھنا۔ کیا حالات ہونگے۔ میں چونک گیا۔
صاحب، سمجھا نہیں۔ اس سے زیادہ مزید حالات کیا بگڑ سکتے ہیں۔ عوام تو ہر طرح سے کچل دیے گئے ہیں۔ صاحب نے بجھے ہوئے سگار کو دوبارہ سلگایا۔ نہیں ڈاکٹر، جس طرح کا سیف تم نے ابھی دیکھا ہے۔ اس طرح کے میرے پاس ان گنت سیف ہیں۔ ان میں پاکستانیوں سمیت بہت سے ملکوں کے اہم لوگوں کے پیسے محفوظ پڑے ہیں۔ دولت بذات خود ایک مذہب ہے۔ یہاں پر کوئی امیر نہیں بلکہ ہر طور امیر ہونا چاہتا ہے۔ تو پھر عوام کا کیا ہوگا۔
صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پنجرے میں خرگوش کا حال دیکھا تھا۔ بس تمہارے عوام اسی سطح کے ہیں۔ شاید خرگوش سے بھی ادنیٰ۔ ان کے ساتھ جو مرضی زیادتی کر لو، یہ احتجاج کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ ان کے لیے پٹرو ل چار سو روپے لیٹر کر دو۔ یہ ہرگز ہرگز بغاوت نہیں کریں گے۔ بلکہ لائنوں میں کھڑے ہو کر پٹرول خریدتے رہیں گے۔
ہاں ایک اور بات۔ تمہارے ملک کے امیر اور طاقتور لوگ میرے پاس دھڑا دھڑ آرہے ہیں کہ کسی مغربی ملک کی شہریت دلوا دیں۔ میں اس میں بھی مونہہ مانگے پیسے کما رہا ہوں۔ صرف چار ماہ میں یورپ کے ایک ملک کا پاسپورٹ دلوا دیتا ہوں۔ اور یہی لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر حب الوطنی کے گیت ہر دم گاتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر، تمہیں آدھے پیسوں میں یورپ کے اچھے ایک ملک کی شہریت دلوا دیتا ہوں۔ زندگی بھر دعائیں دو گے۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جب گھر کی طرف نکلا تو سفید شیر، لان میں آ کر بیٹھ گئے تھے۔ دراصل صبح ہو چکی تھی۔ اور مجھے وقت گزرنے کا معلوم ہی نہیں ہو سکا!