اصل قصور تو مرنے والوں کا تھا؟
کیفیت ایکسپریس، ہندوستان میں ایک بڑی کامیاب ٹرین ہے۔ دہلی سے کان پور تک جاتی ہے۔ ہزاروں لوگ روزانہ کی بنیاد پر سفر کرتے ہیں۔ اگست 2017 میں اپنے ٹائم ٹیبل کے مطابق چل رہی تھی، اتر پردیش کے ایک قصبہ ادرایا کے بغیر پھاٹک کراسنگ پر ایک ڈمپر، عین لائن پر کھڑا تھا۔
ٹرین ڈرائیور نے بریک لگائی مگر پھر بھی ریل گاڑی ڈمپر سے ٹکرا گئی۔ حادثے میں بائیس مسافر ہلاک ہو گئے، ستر کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ دیکھا جائے تو، بنیادی غلطی ڈمپر ڈرائیور کی تھی جو اسے ریلوے لائن پر کھڑا کر گیا تھا۔ اس کراسنگ پر پھاٹک بھی نہیں تھا۔ ٹرین ڈرائیور نے کوشش ضرور کی مگر ٹرین کو حادثے سے نہ بچا پایا۔ انڈین ریلوے کے چیئرمین اشوک متل کو جیسے ہی پتہ چلا تو فوراً ریسکیو کا کام شروع کرا دیا۔ چند گھنٹوں میں پٹڑی صاف ہو گئی۔
زخمیوں کو اسپتال میں پہنچا دیا گیا۔ مرنے والوں کی لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئیں۔ اشوک متل کا اس حادثے سے دور یا نزدیک، کوئی تعلق نہیں تھا۔ ساری رات دفتر میں ریسکیو آپریشن کی نگرانی کرتے ہوئے اس نے ایک کاغذ پر اپنا استعفیٰ لکھا اورمتعلقہ وزیر کے پاس بھجوا دیا۔ وزیراعظم اور دیگر وزراء نے متل کو سمجھایا کہ اس حادثے میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔
لہٰذا استعفیٰ بے جواز دیا ہے۔ مگر اشوک متل نے کہا کہ وہ ہندوستان ریلوے کا چیئرمین ہے۔ اگر کوئی بھی حادثہ ہوتا ہے تو اس کی ذمے داری صرف اور صرف چیئرمین پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اشوک متل نے استعفیٰ واپس لینے سے انکار کر دیا اور اپنے گھر واپس چلا گیا۔ یہ ذمے داری کا وہ احساس تھا جو کسی بھی ادارے کے سربراہ کے لیے مشعل راہ بھی ہے اور عزت کمانے کا ذریعہ بھی۔
دنیا میں ہر ملک میں ہر طرح کے حادثے ہوتے رہتے ہیں۔ حادثات کو کم تو ضرور کیا جا سکتا ہے مگر ان کو ختم کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ پھر یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ اگر کوئی سانحہ ہو جائے تو اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی سرکاری یا سیاسی گرو، ذمے داری محسوس کرتا بھی ہے یا نہیں۔ یہ چند سوالات لے کر مری حادثے کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔
آج سے ٹھیک تین چار دن پہلے محکمہ موسمیات نے اعلان کر دیا تھا کہ اس بار مری اور گلیات میں غیرمعمولی برف باری ہو گی۔ یہ بروقت اعلان، مری اور پنڈی کی انتظامیہ کے لیے ایک وارننگ تھی کہ وہ کسی بھی حادثہ سے بچنے کے لیے تمام تیاری برے وقت سے پہلے کر لیں۔ مگر انتظامی غفلت کی انتہا دیکھیے کہ کسی بھی قسم کی تیاری نہیں کی گئی۔ سیاحوں کی ان گنت تعداد برف باری دیکھنے مری روانہ ہو گئی۔
ہزاروں گاڑیوں میں لاکھوں سیاح وہاں پہنچ گئے۔ یہ خبر ہر وقت میڈیا دکھاتا رہا اور یہ بھی کہ مری میں اتنی زیادہ گاڑیاں چلنے اور پارک کرنے کی گجائش بھی نہیں ہے۔ وہاں کے ہوٹل بھی اتنے سیاحوں کو مناسب رہائش نہیں فراہم کر سکتے۔ میڈیا کی انتہائی ذمے دارانہ رپورٹنگ کے باوجود انتظامیہ کے کان پر جون تک نہ رینگی اور انھوں نے کوئی انتظامی تدابیر اختیار نہیں کی۔ یہ مقامی سطح پر دوسری غلطی تھی۔ آگے چلیے۔ مری جانے کے لیے گاڑیوں کو ٹول ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ ہزاروں گاڑیاں ٹول پلازہ پر پیسے دے کر اسلام آباد سے مری روانہ ہوئیں۔
یہ تمام معلومات فوری طور پر انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے پاس پہنچائی جانی چاہیے تھیں۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ٹول پلازہ پر پولیس بھی موجود ہوتی ہے۔ ان کے پاس وائرلیس کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے مگر کسی بھی سرکاری ارسطو نے شور نہیں مچایا کہ جناب گاڑیوں کا سیلاب، مری کی طرف جا رہا ہے۔ برف باری جاری ہے۔ خدارا گاڑیوں کو فی الفور روکا جائے۔
مگر صوبائی، ضلع اور ڈویژنل انتظامیہ مکمل طورپر نااہل ثابت ہوئی۔ سب اپنے اپنے ماحول میں مست رہے۔ یہ شدید ترین سرکاری غفلت کا یاد گار نمونہ ہے۔ اگر کوئی انتہائی معمولی سوجھ بوجھ کا انتظامی ڈھانچہ فعال ہوتا تو مری سے اسلام آباد تک ہر کلو میٹر پر پولیس رضا کار، بیلچے، برف ہٹانے کی مشینری، پانی اور کھانے پینے کا سامان اور معمولی سطح کی ادویات موجود ہوتیں۔ یہ بنیادی طرز کا کام تھا۔ اتنے وسائل مقامی انتظامیہ کے پاس موجود تھے۔
نہ بھی ہوتے تو اسلام آباد کی انتظامیہ اور دیگر نزدیک شہروں سے کمک وصول کی جا سکتی تھی۔ سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے۔ زندگی کے چونتیس برس انتظامی عہدوں پر گزارے ہیں۔ یہ کام تو مقامی انتظامیہ چٹکیوں میں کر سکتی تھی۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ کسی نے میڈیا کی دہائی سنی، نہ کوئی ٹول پلازہ پر ان گنت گاڑیوں کی انٹری کو خاطر میں لایا۔
جب ہزاروں گاڑیاں برف میں پھنس گئیں۔ لوگ رات کو اپنی اپنی گاڑیوں میں پناہ گزیں ہوئے۔ بائیس قیمتی ترین جانیں ضایع ہو گئیں۔ میڈیا نے دہائی ڈالی تو پھر انتظامی ایکشن لیا گیا۔ وزیرداخلہ کی انتہائی سطحی گفتگو بھی قیامت گزرنے کے بعد سننے میں آئی۔ صوبائی انتظامیہ کی کارروائیاں لوگوں کے مرنے کے بعد کا واویلا ہے۔
اسلام آباد کے ایک پولیس اہلکار کی گھنٹوں تک موبائل فون پر آہ و زاری پر کسی سیاسی نوسرباز یا سرکاری نوٹنکی باز نے بروقت نوٹس نہیں لیا۔ بائیس افراد، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے، قہر آلود برف باری میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر دم توڑ گئے۔ ان انسانی جانوں کو معمولی اہلیت والا انتظامی افسر، بڑے آرام سے بچا سکتا تھا۔ میڈیا نے جان پر کھیل کر سچ لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور حکومت کے پاس کوئی حیلہ بہانہ بھی نہ رہا۔ تب ایکشن شروع ہو گیا۔ وزیراعلیٰ بھی لاہور سے پنڈی آ گئے۔ حالانکہ قیامت تو ان کے آنے سے پہلے گزر چکی تھی۔
اس موقعہ پر ایک بات اور کرنا چاہوں گا۔ سرکاری غفلت ایک طرف۔ مگر محترم عمران خان کے ٹویٹ سے دل آزاری بالکل دوسری طرف۔ وزیراعظم کی ٹویٹ کہ لوگ، موسم کا حال جانے بغیر، کسی تیاری کے بغیر مری چلے گئے۔ یہ حد درجہ غیر ذمے دارانہ تھا۔ اگر لوگوں کے مزاج میں لاپرواہی تھی تو محترم خان صاحب، آپ کی چہیتی انتظامیہ کیا کر رہی تھی۔ انھوں نے لوگوں کی حفاظت کے لیے کیا قدم اٹھائے۔ کون سی وارننگ ایشو کی۔ گاڑیوں کو موقع پر ٹول پلازہ سے واپس کیوں نہیں بھجوایا۔ ہزار طرح کے حفاظتی کام ہیں جو انتظامیہ کرنے میں مکمل ناکام رہی۔
محترم خان صاحب کے استدلال کے مطابق تو مرنے والوں کی کوتاہی تھی کہ وہ موسم کی شدت کا اندازہ لگائے بغیر، سرکار کے بھروسہ پر تفریح کے لیے چلے گئے۔ اس دلیل کے بعد ہوائی جہاز میں سفر کرنے سے پہلے ہر مسافر کو پائلٹ سے ایک سرٹیفکیٹ لینا چاہیے کہ جہاز اڑنے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ پولیس اور ریاستی اداروں کے جوانوں کو دہشت گردوں سے لکھ کر ایفی ڈیوٹ وصول کرنا چاہیے کہ وہ کوئی ایسا اسلحہ استعمال نہیں کریں گے جس سے جوانوں کی جان کو خطرہ ہو۔ اور ہاں، مریض ڈاکٹر سے لکھوائیں گے کہ وہ ہرگز ہرگز فوت نہیں ہوں گے۔ محترم خان صاحب کو ٹویٹ کرنے سے پہلے حد درجہ غور کرنا چاہیے تھا کہ کہیں، یہ سوگواروں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
اور ہاں۔ بائیس جانوں کی قربانی کیا رائیگاں جائے گی؟ اشوک متل کی طرح کوئی بھی بلند اخلاقی مثال قائم کرتے ہوئے استعفیٰ نہیں دے گا؟ انتظامیہ بھی ویسے ہی قائم و دائم رہے گی؟ ہمارا اخلاقی قدروں سے کیا تعلق۔ ہمارا پورا سیاسی اور انتظامی ڈھانچا غیر اخلاقی قدروں پر قائم و دائم ہے۔ ہمارے سورما بھلا کیوں استعفیٰ دیں۔ کیا یہ بے وقوف یا پاگل ہیں۔ نہیں صاحب، حد درجہ عقل مند لوگ ہیں! معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے۔ لوگ مرتے رہیں گے۔ اور نیرو بانسری بجاتا رہے گا!اصل قصور تو بائیس مرنے والے لوگوں کا تھا؟