یہ فتنہ پرور
فرقانِ حمید میں حکم دے دیا گیا کہ "جو رسول تمہیں دے دے اُسے لے لو اور جس سے منع کر دے اُس سے رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈروکہ وہ سخت عذاب دینے والا ہے" (سورۃ حشر ۷)۔ ایسے ہی احکام سورۃ بقرہ 143، 285 سورۃ قصص 5، سورۃ انبیاء 107، سورۃ جِن 23، سورۃ انفال24، سورۃ اعراف 157، سورۃ مزمل 7، سورۃ معارج 5، سورۃ ہود 112سورۃ احقاف 35، اور سورۃ احزاب 66 میں بھی دیئے گئے ہیں جن سے عیاں ہوتاہے کہ حضورِاکرمؐ کی سنت اور سیرت کو نظرانداز کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ گویا سیرت و سنتِ رسولؐ کی پیروی ہر مومن مسلمان کی زندگی کا جزوِ لاینفک۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بطور مسلم ہم سنتِ رسولؐ پر عمل پیرا ہیں؟ کیا ہمارا اُٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا سنتِ رسولؐ کے تابع ہے؟ حقیقت مگر یہی کہ بطور قوم ہمارے اوپر اسلام کا لیبل تو ضرور چپکا ہے لیکن ہمارے اقوال، افعال اور اعمال اِس کی گواہی نہیں دیتے۔ جدیدیت کا لبادہ اوڑھنے کی خواہش اور غیروں کا شعار اپنانے کا شوق اتنا فراواں ہو چکا کہ اب روحانی اقدار کی کوئی اہمیت نہ اسلاف کی روایات کی کوئی حیثیت۔ اب افکار واظہار میں پاکیزگی ہے نہ گفتار وکردار میں۔ ایک طرف لازمۂ انسانیت سے تہی مردوں کی وحشت وبربریت کے قصے زبان زدِ عام تو دوسری طرف آزادی کی دِلدادہ خواتین کے ہاں ایسے نعرے جنم لیتے ہوئے جنہیں پڑھ سن کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں اور جبینیں عرقِ ندامت سے تَر ہو جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمیں ادراک ہی نہیں کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہماری زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑتا اور حیا بھی حیاتِ انسانی کا ایک پہلو ہے جس کی قُرآن مجید میں جابجا تلقین کی گئی ہے۔ سورۃ اعراف میں بے شرمی کے کاموں کو خواہ وہ کھلے ہوں یا پوشیدہ، حرام قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ انعام 101 میں ارشاد ہوا "اور نہ تم بے حیائی کے کاموں کے قریب جاؤ، چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ"۔ خوشی اور غم وغصہ کا اظہار تو جانور بھی کرتے ہیں لیکن شرم وحیا وہ وصف ہے جو صرف اشرف المخلوقات کو بخشا گیا۔ اگر اِس وصف سے صرفِ نظر کیا جائے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اِسی لیے قرآن مجید میں تنبیہہ کی گئی "بے شک وہ لوگ جو ایمان والوں کے درمیان بے حیائی پھیلانا پسند کرتے ہیں اُن کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے" (النور 19)۔ ملحوظِ خاطر رہے کہ حیا کی پابندی مرد وزَن پر یکساں ہے۔ ارشادِ ربی ہے "اے نبی! مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے" (سورۃ النور 30)۔ اِسی سورۃ مبارکہ میں عورتوں کے لیے حکم ہے "اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، بجز اِس کے جو خود ظاہر ہو جائے " (سورۃ النور 31)۔ دینِ مبیں میں آرائش وزیبائش کی اجازت ہے لیکن حدودوقیودکے اندر۔ اِسی لیے سورۃ نور 31 میں عورتوں کو بناؤ سنگھار ظاہر نہ کرنے اور سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اُنہیں یہ بھی حکم دیا گیاہے "وہ اپنے پاؤںزمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت اُنہوں نے چھپا رکھی ہو اُس کا لوگوں کو علم ہو جائے" (النور 31)۔ لیکن عصرِحاضر میں آرائشِ جمال کا مقصد ہی نمائشِ حسن بن کر رہ گیاہے۔ یہی نمائش کی خواہش جب اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو بے حیائی جنم لیتی ہے۔ بد قسمتی سے مغرب کی اندھی تقلید نے مشرقی عورت کو بھی نمائش کا آلہ بنا کے رکھ دیا ہے۔ اب فن، آرٹ اور ترقی کے نام پر شرفِ نسوانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ فرمانِ الٰہی تو یہ ہے "اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیاکہ تمہارے قابلِ شرم حصّوں کو ڈھانپے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو" (اعراف 26)۔ لیکن ہمارے ہاں وہ لباس جس پر بے لباسی بھی شرما جائے۔
عورت مارچ میں خواتین نے جو پوسٹر اور بینرز اُٹھا رکھے تھے اُن پر "آج بھی کل بھی میرا جسم میری ہی مرضی، میری شادی نہیں میری آزادی کی فکر کرو، میری غیرت میرا مسلٔہ، اور ہم چھین کے رہیں گے آزادی" جیسے نعرے اُن مردوں کو کھلا چیلنج ہے جنہیں اسلام نے اُن کا قوام اور محافظ قرار دیاہے۔ ارشادِ ربی ہے "مرد عورتوں پر قوام ہیں، اِس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اِس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں " (سورۃ النساء 32)۔ یہاں قوام کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرد بَرتَر اور عورت کمتر ہے بلکہ گھر کی چھوٹی سی وحدت میں سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے اور معاشی کفالت، محافظت و مدافعت کی ذمہ داری اُس کے مضبوط کندھوں پر رکھی گئی ہے۔ حتیٰ کہ عورت اگر صاحبِ جائیداد بھی ہو تو پھر بھی نان ونفقہ مرد ہی کے ذمہ ہے۔ اِس کے علاوہ عورت صنفِ نازک ہے۔ وہ کئی ایسے امور سرانجام نہیں دے سکتی جو مرد دے سکتاہے۔ اِس سربراہی کے سوا تمام امور میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ فرمانِ ربی ہے "مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں " (سورۃ توبہ 71)۔ سورۃ احزاب 33-35 میں یوں ارشاد ہوا "اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں، ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں، فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، ثابت قدمی دکھانے والے مرد اور ثابت قدمی دکھانے والی عورتیں، عاجزی اختیار کرنے والے مرد اور عاجزی اختیار کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والی عورتیں۔ اِن سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے"۔ اِس کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں کئی جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کا برابر درجہ رکھا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کو برابر کا درجہ دے رکھا ہے تو دَورِ حاضر کی خواتین کون سی آزادی مانگ رہی ہیں۔ کالم کا دامن تنگ ہے اِس لیے اِن خواتین کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ قرآن کا حقِ وراثت اور حقوقِ نسواں زیادہ مفید اور فطرتِ نسواں کے قریب ہے یا یورپ کا قانونِ وراثت اور حقوقِ نسواں جس نے عورت کی نسوانیت چھین کر اُسے جنسِ بازار بنا کر رکھ دیاہے۔ آج مغرب میں جنسی بے راہروی اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ انسان اور جانور میں امتیاز باقی نہیں رہا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ فی زمانہ پاکستانی معاشرہ "مردوں کا معاشرہ" ہے جس میں خواتین کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں لیکن یہ دین کا درس ہرگز نہیں۔ دینِ مبیں نے تو مرد وزَن کو برابری کا درجہ عطا کیا ہے جس پر مردوں کی انانیت کلی طور پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں اِس لیے میں عورت مارچ کے ہرگز خلاف نہیں البتہ جن حقوق کے لیے وہ نعرہ زَن ہیں اُن کی دین اجازت نہیں دیتا۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعویداروں سے مطالبہ کریں کہ اُنہیں وہ تمام حقوق دیے جائیں جن کا حکم رَبِ لَم یَزل نے فرقانِ حمید میں دیا ہے۔