قائدؒ کا پاکستان
لمحہ موجود میں جو پاکستان اہلِ فکر و نظر کے سامنے ہے اُس کا خواب اقبالؒ نے دیکھا نہ قائدِاعظمؒ نے۔ عام انتخابات کی مشق بھی رائیگاں کہ وہی آزمودہ چہرے برقرار اور سیانے کہہ گئے "آزمودہ را آزمودن جہل است۔ راہ نوردانِ شوق کی تشنہ کامی برقرار کہ خضرِراہ مفقود اور ظلمت وجہالت کے علمبردار جابجا۔ یہی تو وہ عبدِجہالت ہیں جن کے بارے میں فرما دیا گیا "جاہل مُنہ کوآئیں تو کہہ دیں تم کوسلام" (الفرقان آیت 63)۔ 27 رمضان المبارک کومنصہئی شہود پر اُبھرنے والی رَبِ لَم یزل کی عطا کردہ دھرتی کااب یہ عالم کہ نوروظلمت کی تفریق کا شعور مِٹ چکا۔ عزووقار عنقا اور ثناخوانِ تقدیسِ مشرق نایاب البتہ "وہ جو گراں تھے سینہئی چاک پروہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر"۔
بات سیاسی اندازِ فکر کی نہیں کہ ہرکسی کا زاویہ نگاہ مختلف ہوسکتا ہے، بات مگر مذہب کی کہ اُم الکتاب کے ایک حرف سے بھی انکار گویا پورے فرقانِ حمید سے انکار کے مترادف۔ یہ الگ بات کہ ہمارے "کاٹھے انگریزوں" کا حیلہئی تسکیں افکارِ مغرب میں۔ اُن کا ملجاوماوا"لبرل ازم" جو اُنہیں مادرپدر آزادی دیتے ہوئے کہتا ہے "ہم پر دین لاگو نہ کرو، ہمیں اپنی زندگی گزارنے دو"۔ یہ لبرل ازم راستہ ہے اور سیکولرازم منزل۔ ایسے متشکک اذہان وقلوب کے حامل مسلم اہلِ وطن کی خدمت میں عرض ہے کہ انسان کے پاس اللہ کی نیابت ہے اور وہ اُس کے حکم سے سرِمُو بھی انکار نہیں کر سکتا۔
سورۃ الانعام آیت 165 میں ارشاد ہوا "اللہ کی ہستی تو وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا اور بعض کے بعض پردرجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اُس نے تمہیں دے رکھا ہے اُس میں تمہاری آزمائش کرے"۔ اِس لیے دینِ مبیں میں شتر بے مہار آزادی جیسی لغویات کی ہرگز گنجائش نہیں۔ یادرہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے جہاں قدم قدم پر آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قُرآنِ مجید میں ارشاد ہوا "کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اُن کے صرف اِس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے، ہم اُنہیں بغیر آزمائے چھوڑ دیں گے؟" (سورۃ العنکبوت آیت 1)۔
سورۃ البقرہ آیت 155 میں تنبیہ کردی گئی"اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے"۔ اِس کے علاوہ سورۃ الزمر آیت 49، الانبیاء آیت35 اور الانفال آیت 28 اور سورۃ ال عمران کے علاوہ متعدد سورۃ مبارکہ میں دنیا کو دارالامتحان کہا گیا ہے۔ اِس لیے یہ ہمارے ایمان کا جزوِلاینفک کہ دینِ اسلام میں مردوزَن کی آزادی کا وہ تصور ہرگز نہیں جو لبرل اور سیکولر کے ہاں ہے۔
لبرل اور سیکولر عناصر متواتر یہ پراپیگنڈا کرتے چلے آرہے ہیں کہ قائدِاعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو کہتا ہے کہ اگر قائدِاعظم زندہ ہوتے تو اُن کی زندگی میں قراردادِ مقاصد دستورساز اسمبلی میں پیش اور منظور نہیں کی جاسکتی تھی۔ جب اِن سے سوال کیا جاتا ہے کہ قراردادِ مقاصد میں آخر ایسا کیا ہے جو قائدِاعظم کے نزدیک ناپسندیدہ ٹھہرتا۔ اُن کا گھڑا گھڑایا جواب قائدِاعظم کی 11 اگست 1947ء کی وہ تقریر جس میں اُنہوں نے مذہبی آزادی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا "آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اِس سے کوئی لینادینا نہیں"۔
قائدِاعظم کے اولین سوانح نگار ہیکٹربولائیتھو نے لکھا کہ قائدِاعظم نے اِس خطبے پر کئی گھنٹے صرف کیے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائدِاعظم کا یہ خطبہ میثاقِ مدینہ ہی کا عکس ہے جس کی شِق نمبر 25 میں درج ہے "یہودی اپنے دین پر کاربند رہیں گے اور مسلمان اپنے دین پر البتہ جس نے گناہ کیا وہ اِس کے نتیجے میں خود اور اپنے گھر والوں کو تباہی میں ڈالے گا" (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 21 صفحہ 912)۔
قائدِاعظمؒ کا 11اگست کا خطب اسی اطاعت اور اِتباعِ رسولﷺ میں ہے اور قراردادِ مقاصد بھی تو یہی ہے جس میں درج ہے "مسلمانوں کواِس قابل بنایا جائے گاکہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی قُرآن وسنت میں درج اسلامی تعلیمات ومقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں"۔ اِس کے ساتھ ہی یہ درج "اِس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں"۔ اب صاحبانِ بصارت و بصیرت خودہی فیصلہ کرلیں کہ کیا قائدِاعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر اور قراردادِ مقاصد کی اِن شقوں میں کوئی فرق ہے؟ اگر نہیں توپھر بھلا قائد کو قراردادِمقاصد کو آئین کا حصہ بنانے میں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
شاید سیکولر حضرات کو یہ اعتراض ہو کہ قراردادِ مقاصد میں آئین کو اسلامی جمہوری بنانے کاکیوں لکھا گیا ہے جبکہ قائدِاعظمؒ تو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اِس اعتراض کا جواب یہ کہ قائدِ اعظمؒ نے اپنے بیشمار خطبات وبیانات میں کہیں بھی سیکولر ریاست کا ذکر نہیں کیا۔ ویسے بھی جو شخص یہ کہے "میری زندگی کی واحد تمنا یہی ہے کہ مسلمانوں کو آزاد وسربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین واطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خُدا گواہی دے رہاہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی ہے اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا ہے" (خطاب آل انڈیا مسلم لیگ 21 اکتوبر 1939ء)۔
جو اسلام کی تجربہ گاہ کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا چاہتا ہو۔ جو یہ کہے "پاکستان کوئی نئی چیز نہیں یہ تو صدیوں سے موجود ہے۔ ہمیں ایک ایسی آزاد اور خودمختار اسلامی حکومت چاہیے جس میں مسلمان اپنے مذہب، تہذیب وتمدن اور قُرآن وسنت کے قوانین کے مطابق زندگی بسرکر سکیں" (انٹرویو ہندوستان ٹائم 5ستمبر 1942ء)۔ وہ بھلا سیکولر ریاست کا خواب کیسے دیکھ سکتا ہے۔ قائدِاعظمؒ نے 13فروری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا "اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اُس اسوہئی حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرﷺ نے ہمارے لیے بنایا۔ یہ بھی قائد ہی کا فرمان ہے کہ "ہمیں کسی نئے دستور کی ضرورت نہیں، ہمارا دستور تو 1300 سال قبل بن چکاہے جو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے قرآن وسنت کی صورت میں عطا کیا"۔ بقول ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم قائدِاعظمؒ کے تشکیلِ پاکستان سے پہلے101 بار اور قیامِ پاکستان کے بعد کم از کم 14 بار بڑے واضح اور غیرمبہم انداز میں فرمایا تھاکہ پاکستان کے آئین، نظامِ حکومت، قانون اور انتظامی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔
کالم کا دامن تنگ اِس لیے قائد کے تمام فرمودات یہاں بیان نہیں کیے جا سکتے البتہ یہ طے کہ اُنہوں نے اسلام ہی کو باربار ضابطہئی حیات اور نظامِ زندگی قرار دیا۔ اِن لبرل اور سیکولر حضرات کے پاس چونکہ قائد کی 11 اگست کی تقریر کے سوا اور کچھ نہیں اوراِس تقریر کو بھی وہ توڑ مروڑ کر حصولِ مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اِس لیے یہ اِسی کا پروپیگنڈا کرتے رہے اور کرتے رہیں گے۔