علامہ اقبالؒ کے کلام کا انقلابی پہلو
علامہ اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا لیکن قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی کے بعد مرتب ہونے شروع ہوئے۔ اسرارِ خودی کی اشاعت اور انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ان کی روح پرور شرکت نے نہ صرف فکرِ اقبال کے نئے دور کا آغاز کیا، بلکہ اسی سے ان کی ملّی زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح بھی ہوا۔ اقبال نے اپنا پیغام، نظم و نثر اور زبان و قلم کے ذریعے پیش کیا اور بالآخر عملی سیاست میں شرکت کرکے تغیر اور تعمیر کے عمل میں موثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی تعمیرِ جدید، ایک غلام قوم کی آزادی اور ایک عظیم اسلامی مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اقبال کا کارنامہ ساتویں صدی ہجری میں جو کام مولانا جلال الدین رومی نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے دورِحاضر میں اقبال نے اوّلاً اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی اور پھر جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق کے ذریعے انجام دیا۔
اقبال نے مسلمانوں کے ماضی اور حال دونوں پر تنقید ی نگاہ ڈالی۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ انھوں نے غیراسلامی اثرات کے تحت ایک ایسے تصورِحیات کو شعوری طور پر اختیار کرلیا، جو اسلام کی ضد تھا۔ اس سے ان کی صلاحیتیں پراگندہ ہوگئیں اور وہ تاریخ کی اہم ترین تعمیری قوت ہوتے ہوئے بھی تمدنی زوال، سیاسی غلامی اور فکری انتشار کا شکار ہوگئے?. بگاڑ کے اسباب کی تشخیص کے بعد، اقبال نے اسلام کے تصورِ حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا۔ اسلام کی جو تشریح و توضیح اقبال نے کی ہے، اس کی امتیازی خصوصیت اس کا حرکی اور انقلابی پہلو ہے۔ کائنات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عملِ تخلیق و ارتقا جاری ہے۔ کائنات محض ایک تخلیقی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس میں کن فیکون کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی، اور پھر کائنات کی تخلیق اور اَمر، کی نوعیت پر غور کرکے ہی اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر خلق میں پیدایش اور وجود کی طرف اشارہ ہے، تو اَمر میں سمت اور منزل کی تعیین ہے۔ ہرچیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور وجود کا اساسی پہلو یہی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکیت اور مطلوب کی طرف بڑھنے کا شوقِ آرزو ہے۔
مردِ مومن اور ملت ِاسلامیہ کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنا وظیفہ انجام نہ دیں تو بگاڑ رونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔ مذہب کا انقلابی تصور ایمان اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرنے میں، اقبال نے غیرمعمولی ندرت کا ثبوت دیا۔ اثباتِ خودی اور تعمیرِشخصیت ایک مسلسل عمل ہے، جس کے بغیر انسان مقامِ انسانیت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ نیابت ِ الٰہی کے تقاضے صرف تسخیر کائنات اور اصلاح تمدن ہی کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ خودی ایک بے لگام قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدا پرستی اور اخلاقی تربیت سے ترقی پاتی ہے۔ عشق اس کی قوتِ محرکہ ہے اور مادّی قوت کو دین کی حفاظت اور پوری دنیا میں نظامِ حق کے قیام کے لیے استعمال کرنا اس کی اصل منزل ہے۔ یہی خلافت ِ الٰہی ہے، یہی انسان کا مشن ہے۔ اقبال نے دینِ اسلام کا یہی انقلابی تصور اجاگر کیا اور پوری ملّت میں حرکت پیدا کردی۔
اس تصورِ حیات اور اس مشن کا لازمی تقاضا ہے کہ خود ریاست، سیاست، معیشت اور قانون اسلام کے تابع ہو۔ نہ صرف یہ کہ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تقسیم نہیں، بلکہ دین اور ریاست ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ اگر دین اور سیاست جدا ہوجائیں تو دین صرف رہبانیت بن جاتا ہے اور سیاست چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی قومیت ان کے دین ہی سے تشکیل پاتی ہے اور ان کی ریاست، معاشرت اور معیشت دین کے مقاصد ہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنے اظہار کے لیے ریاست اور تمدن کا روپ دھار لے۔ مسلمانوں کو ایسے خطہ زمین کی ضرورت ہے، جہاں وہ اغیارکے اثرات سے آزاد ہوکر اپنے تمدنی وجود کا مکمل اظہار کرسکیں اور پھر اس روشنی کو باقی دنیا میں پھیلا سکیں۔ اسی عمل کو اقبال نے اسلام کی مرکزیت، کہا ہے اور اسی کے لیے ایک آزاد زمین کا مطالبہ کیا۔ آزاد اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ خود اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔
اقبال نے مغربیت اور اس کے بطن سے رونما ہونے والی مختلف تحریکوں، خصوصیت سے لادینیت، مادیت، قومیت، سرمایہ داریت اور اشتراکیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں۔ نیز یہ کہ دراصل یہی تحریکیں انسان کے دکھوں اور پریشانیوں کا سبب ہیں۔ مسلمانوں کی نجات ان کی پیروی میں نہیں بلکہ اپنی خودی کی بازیافت اور اپنے دین کے احیا میں ہے۔ اگر انھوں نے مغرب کی تقلید کی روش کو اختیار کیا، تو یہ ان کی خودی کے لیے زہرِ قاتل ہوگا۔ زندگی اور ترقی کا راستہ نہ ماضی کی اندھی تقلید ہے اور نہ وقت کے تقاضوں کی کورانہ پیروی، یہ راستہ اسلامی تعمیرنو کا راستہ ہے جواثباتِ خودی، احیاے ایمان، تعمیرِاخلاق، اجتماعی اصلاح اور سیاسی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سیاسی غلامی سے بھی نجات ہوسکے گی، اور اس سے زیادہ خطرناک ذہنی، تمدنی اور تہذیبی غلامی سے بھی۔ پھر وہ جو زمانے کے پیرو بننے پر قناعت کر رہے ہیں، زمانے کی امامت کا فریضہ انجام دے سکیں گے اور یہی ملت اسلامیہ کے کرنے کا اصل کام ہے۔ اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا تو دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبہ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی ہے اقبال کا اصل کارنامہ، اور اسی بناپر وہ بیسویں صدی کے اسلامی تشخص کا امام اور اس میں تجدید کی روایت کا بانی ہے۔ ان معروضات کی روشنی میں اس حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ اقبال محض ایک فرد کا نام نہیں، وہ ایک دور کی شناخت اور خصوصیت سے مسلمانانِ برعظیم کے جدید دور میں تحریک احیاے اسلامی کا ایک نمایاں معمار ہے۔ اس نے برعظیم کی امت ِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے میدانِ حیات میں اپنا تہذیبی اور سیاسی مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کی طرف پکارا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کی انقلابی تحریک کا عنوان ہے اور میرے جیسے ہزاروں متلاشیانِ حق کے افکار و جذبات کی تہذیب میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہم نے شعور کی آنکھ اقبال کے کلام کی روشنی میں کھولی اور ہمارے فکر اور جذبات کی صورت گری اس کی ضوفشانیوں کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم شاعر تھا مگر جس چیز نے شعرِاقبال کو ذہنی، فکری، احساساتی اور شعورِ زندگی کی تشکیلِ نو کی جدوجہد میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنایا، وہ اس کا پیغام ہے جس سے کلامِ اقبال کا ایک ایک حرف روشن اور تابندہ ہے۔