ریاست مدینہ:سودی بینکاری کا متبادل
امام ابو حنیفہؒ کا وہ معاشی ماڈل جو انہوں نے کوفہ اور دیگر شہروں میں نافذ کر کے دکھایا، آج کے جدید دور کے اس سب سے بڑے سوال کا جواب ہے کہ بڑے بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سودی قرضے درکار ہوتے ہیں۔ جن کے لیے بینکوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ امام صاحب نے لوگوں کو شراکت دار بنایا، ان کی رقم کو قرض تصور کیا اور اس رقم سے جو بھی کاروبار ہوا، اس کے منافع میں شراکت داروں کی مرضی سے خرچ کیا۔
آج ہم بھاشا ڈیم کے لیے جو لوگوں سے خیرات مانگ رہے ہیں اور لوگ ایک جذبے کے ساتھ اسے دے بھی رہے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں اور ایسا سرمایہ بھی کم ہوتا ہے جو ضروریات سے زیادہ ہو اور اسے خیرات کر دیا جائے۔ لیکن ملک کی اکثریت کے پاس آڑے وقت کے لیے بچت ضرور موجود ہوتی ہے۔ ان میں بھی اکثریت ایسی ہوتی ہے جنہوں نے سود کے خوف سے سونے یا زمین کی صورت جمع کر رکھی ہوتی ہے۔ یہ لوگ روپیہ ڈوب جانے کے خطرے سے کسی کاروبار میں بھی نہیں لگاتے۔
اگر حکومت ہر ایسے بڑے پراجیکٹ کے لیے علیحدہ علیحدہ وقف قائم کرے جس کی ذمہ دار حکومت ہو۔ اور لوگوں کو کہا جائے کہ وہ اپنی بچت اس میں لگائیں۔ ساتھ میں حکومت کا حصہ بھی شامل ہو تو پھر اس ڈیم کی تکمیل کے بعد جو آمدن آئے۔ اس میں سے ہر حصے دار کو اس کے حصے کے مطابق منافع دیا جائے، حکومتی منافع کو واپس اسی پراجیکٹ میں لگا دیا جائے تاکہ جلد از جلد یہ اپنی لاگت پوری کر سکے۔
ایسا کرنا سودی بینکاری کے اس تصور کے باکل مختلف ہو گا جس میں بنک ایک ساہوکار کی طرح عام آدمی سے اس شرط پر سرمایہ لیتا ہے کہ وہ اسے دس فیصد سود دیتا ہے اور پھر اس آدمی کی مرضی کے بغیر اس سرمائے کو پندرہ فیصد سود پر کسی دوسرے کو قرض دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ سرمایہ شراب کی فیکٹری لگانے، جوئے کا کسینو کھولنے۔ یا ڈانس کی تعلیم کی اکیڈمی کے لیے سود پر قرض دے دے۔ اس طرح اول تو سود حرام اور دوسرا اس سارے منافع سے جو رقم ملے گی وہ کھاتے داروں میں تقسیم ہو گی۔
ایک پرہیز گار کے گھر میں جہاں سود آئے گا۔ وہاں وہ شراب کی فیکٹری میں اجتماعی طور پر حصے دار بھی ہو گا اور منافع بھی کمائے گا۔ ہر کاروبار، ہر سرکاری بڑے منصوبے کی علیحدہ علیحدہ کمپنیاں یا وقف بنانا امام ابو حنیفہؒ کا ماڈل ہے تاکہ اول سود سے بچا جائے اور دوسرا جو سرمایہ قر ض دیتا ہے اسے پتہ ہو کہ اس سے کہیں حرام کاروبار تو نہیں ہو رہا۔ کسی بھی حکومت کے لیے اس ماڈل کو نافذ العمل کرنا انتہائی آسان ہے۔ ہر بڑا کاروبار تین مختلف مقامات پر اپنی کمپنی کی رجسٹریشن کرواتا ہے۔ اور ہر حکومتی پراجیکٹ کی بھی ایک کمپنی بنتی ہے۔
اگر اس میں بنک سے قرضے کی بجائے اس ماڈل پر عملدرآمد کرنے کو کہا جائے تو اس نئی "ریاست مدینہ" سے اسی فیصد سے زیادہ سود ختم ہو جاتا ہے۔ چونکہ اس امت کو گزشتہ چودہ سو سال میں کبھی بھی ایسی منظم "سودی قوت" یعنی بینکاری نظام کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس لیے اس امت کے فقہا اور مجتہدین نے سود کے حرام ہونے پر تودفترکے دفترلکھے لیکن کسی متبادل معاشی ماڈل پر گفتگو نہ کی۔ سودی مالیاتی نظام کی عمارت کی بنیاد آج سے 324سال قبل 1694ء میں بنک آف انگلینڈ کے چارٹر سے رکھی گئی تھی۔ تقریباً پہلے سو سال تک یہ سست روی سے معاشروں میں سرایت کرتی گئی۔
پھر سود کے لالچ نے ان اداروں کو اعتماد بخشا اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ان بینکاروں نے جو سرمایہ کاری کی اس سے انہیں جو منافع حاصل ہوا وہ تاریخی تھا۔ کروڑوں انسانوں کی قتل گاہ پر ان کی سودی منافع کی عمارت تعمیر ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ہمارے دوست جناب مجاہد کامران نے اپنی ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب The international Bankers(عالمی بینکار: جنگ عظیم اول دوئم اورآگے)world war I'II and beyondمیں جو سودی منافع خوری اور انسانی قتل و غارت کے شواہد اکٹھے کئے ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد امت مسلمہ کے علماء و فقہا کو اس بات کا احساس ہوا کہ سود ایک منظم نظام بن چکا ہے اور ہمیں بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک غیر سودی متبادل معاشی نظام ترتیب دینا ہو گا ورنہ ہم مسلسل سودی نظام میں زندہ رہنے پر مجبور ہوں گے۔ آپ حیران ہوں گے کہ جہاں اقبال کے افکار کے مطابق قائد اعظم نے سٹیٹ بنک کا افتتاح کرتے ہوئے ایک غیر سودی معیشت کے قیام کے لیے ہدایات دی تھیں۔ وہیں پاکستان کی بیشتر حکومتوں نے بھی 1988ء تک خود کو اس ذمہ داری سے غافل نہ رکھا۔
1964ء سے 1966ء تک اسلامی نظریاتی کونسل نے دو سال کی محنت سے تمام بینکی نظاموں کا جائزہ لیا اور سودی معیشت کو حرام قرار دیا۔ یہ ایوب خان کی آمریت کا دور تھا۔ اس کے بعد یحییٰ خان کی آمریت آئی اور یہ کام جاری رہا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے 3دسمبر 1969ء کو اپنی رپورٹوں کا اعادہ کیا آمریت گئی، ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت آئی۔ سودی نظام کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے گئے۔ بس آئین میں ایک لائن لکھ کر فارغ ہو گئے۔ ضیاء الحق نے دوبارہ کام شروع کروایا اور 25جون 1980ء کو سودی بینکاری کا ایک متبادل تجویز کیا گیا۔
یہ متبادل نظام شیخ محمود احمد کی کتاب "سود کی متبادل اساس" میں موجود ہے۔ اس میں ایک نہیں دس متبادل طریق کار تجویز کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب Man and moneyمیں اس متبادل پر تفصیلی بحث موجود ہے۔ شیخ محمود احمد صاحب کے ان متبادلوں کا ذکر سپریم کورٹ کے 1999ء کے اس فیصلے میں بھی موجود ہے جو سود کی حرمت پر دیا گیا تھا۔ شیخ صاحب تو بارگاہ الٰہی میں اپنے اجر و ثواب کے ساتھ جا پہنچے لیکن پھر کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی۔ لیکن انفرادی سطح پر لوگوں نے بہت کام کیا یہ کام پوری دنیا میں ہوا ہے۔
جدہ میں مقیم ڈاکٹر عمر چھابرا کا بہت بڑا کام ہے۔ ان کی سودی معیشت کے خلاف وہ تقریر Islam and Economic developmentاور پاکستان کی معیشت کے بارے میں تقریرWhat is wrong with pakistanپڑھنے کے قابل ہیں۔ گزشتہ دنوں پشاور کے عبید اللہ صاحب نے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسز میں ان تمام معاشروں کا ذکر کیا ہے جہاں آج بھی غیر سودی معیشت پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ اس میں خاص طور پر کینیا کا "بنگلہ پیسہ ماڈل" جو آج بھی نافذ العمل ہے خواہ ایک کمیونٹی تک محدود ہے لیکن اس کمیونٹی کی خوشحالی قابل رشک ہے، کا ذکر ہے۔
اس وقت متبادل کی بحث نہیں کہ متبادل لاتعداد موجود ہیں صرف اور صرف اس فیصلے کی ضرورت ہے کہ عمران خان کی ریاست مدینہ سود سے پاک ہو گی یا نہیں۔ اگر ہو گی تو پھر آج ہی سے اسے ان تمام لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہو گا جو اس کے متبادل پر کام کر رہے ہیں تاکہ وہ ایک ماہ کے اندر اس ٹیم کو ڈیزائن کر سکیں۔ ایسے افراد کی ایک فہرست، میں بھی پیش کر سکتا ہوں۔ آج سے ایک ماہ قبل میں نے عمران خاں صاحب کو اس بارے میں ایک میسج کیا تھا۔
جس کے جواب میں 24ستمبر 2018ء کو سوا آٹھ بجے رات ان کا جواب آیا تھا"will call later tonight"میں آج بھی اس later tonightکے انتظار میں ہوں کہ اس 63سال کی عمر میں جو اب تک کام کر سکا اور جن احباب کو جانتا ہوں ان کے نام حوالے کر کے اپنے لیے توشۂ آخرت بنا لوں کہ شاید وقت بہت کم ہے۔ ہمیں کوئی دکھا دو اک کرن ہی ٹمٹماتی سیکہ جب ہو گی فروزاں بزم عالم ہم نہیں ہوں گے(ختم شد)