پاکستان دشمنوں کا محبوب: عبدالرزاق اچکزئی
کوئٹہ سے چمن جائیں، تو افغانستان سے چند کلو میٹر پہلے خوجک کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ آتا ہے، اس کی ہر بلندی پر برطانوی فوج نے پختہ مورچے بنائے ہوئے ہیں۔ اسی پہاڑ کے اندر ساڑھے تین میل لمبی ریلوے کی سرنگ نکال کر، چمن کے شہر کو بقیہ ہندوستان سے ملایا گیا تھا۔ پہاڑ پر بل کھاتی ہوئی سڑک ایک مقام پر آتی ہے، جہاں کھڑے ہو کر آپ میلوں دور تک دیکھ سکتے ہیں۔ اس بلندی سے نیچے وسیع و عریض میدان میں چمن کا شہر، اس کی ملحقہ آبادیاں، عین افغان سرحد پر واقعہ ریلوے اسٹیشن، ایک جانب سمگلنگ کے سامان کی خریدو فروخت کے لیے بظاہر عارضی، لیکن مسلسل اور مستقل "رنگین منڈی" سرحد کے ساتھ ساتھ برساتی پانی کے بہائو کا نالہ اور دور افغانستان میں "سپن بلدک" کا قصبہ ہے۔
یہ قصبہ قندھار میں گزشتہ دنوں، قتل ہونے والے جنرل عبدالرزاق اچکزئی کی جائے پیدائش ہے۔ عبدالرزاق عین اس سال پیدا ہوا، جب افغانستان میں یادش بخیر سوویت یونین کی افواج اپنی قوت کے نشے میں داخل ہوئی تھیں۔ پورا علاقہ دو بڑے قبیلوں میں تقسیم تھا۔ نورزئی اور اچکزئی۔ دونوں قبائلی طور پر ایک دوسرے سے چپقلش میں تھے۔ اچکزئی قبیلے نے بالعموم افغان حکومت اور روسی افواج کا ساتھ دیا، اور نورزئی قبیلے کے لوگ ہجرت کر کے، چمن کے ساتھ پہاڑوں کے دامن میں "بوغرہ کاریز" میں آباد ہو گئے۔
80ء کی دہائی میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر گولہ باری ہوتی، اور چمن کا شہر رات بھر اس گھن گھرج میں جاگتا رہتا۔ سپن بلدک میں عبدالرزاق اچکزئی کے قبیلے کے، عصمت اللہ مسلم اچکزئی کو اسی طرح نجیب اللہ نے بارڈر کی ملیشیا کا جرنیل مقرر کر رکھا تھا۔ لیکن عصمت کی اصل شہرت سپن بلدک میں قائم اس عقوبت خانے کی وجہ سے تھی، جسے وہ "قرار گاہ" کہتا تھا۔ یہاں اس نے کچھ کنٹینر رکھے ہوئے تھے، جن میں وہ چمن سے شہریوں کو اغوا کر کے لے جاتا، اذیتیں دیتا اور تاوان طلب کرتا۔
اس کے نمائندے پاکستان میں آباد اچکزئی قبیلے کے افراد تھے، جو لوگوں سے تاوان لے کر، اس تک پہنچاتے اور لوگوں کو چھڑواتے۔ 1988ء میں روس تو چلا گیا، لیکن عصمت جیسے وارلارڈ اور ظالم افراد کی بالادستی قائم رہی۔ مجاہدین کی آپس میں لڑائیوں نے، افغانستان میں ان گروہوں کو مختلف علاقوں میں اپنی ظالمانہ بادشاہت قائم کرنے کا موقع فراہم کیا۔ عبدالرزاق اچکزئی نے اپنی پوری زندگی اس ظلم، تشدد، اغوا و تاوان اور جرم کے ماحول میں گزاری۔ سپن بلدک اور قندھار میں ان لوگوں کے مظالم کی بازگشت پورے افغانستان، اور پاکستان کے سرحدی شہروں میں سنائی دیتی تھی۔
یہ 24جون 1994ء کو جمعہ کا مبارک دن تھا، جب پچاس کے قریب افراد ملا محمد عمر کی قیادت میں جمع ہوئے، اور قندھار کے اردگرد ایسے لاتعداد اڈوں اور عقوبت خانوں کے خاتمے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب پورا افغانستان ان جبہ کمندان، وار لارڈز اور خود ساختہ جرنیلوں کے ظلم سے سسک رہا تھا۔ راستے میں پہلی دیوار ضلع ڈنڈ اور پنچوائی کی سڑک پر قائم "داروخان" کی چیک پوسٹ آتی تھی۔ جہاں اس نے دو پھاٹک لگا کر، ہر گزرنے والے سے بھتہ خوری کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ یہ پہلا معرکہ تھا، جو صرف آدھے گھنٹے میں سر کر لیا گیا۔
اگلا بڑا ہدف کمانڈر صالح کی وہ خود ساختہ چیک پوسٹ تھی، جس کے ساتھ اس کا بہت بڑا عقوبت خانہ تھا۔ اس کے پاس تین جرگے بھیجے گئے وہ نہ مانا، اسے الٹی میٹم دیا گیا، اور وقت ختم ہونے کے بعد تین حصوں میں یہ پچاس کا گروہ منقسم ہو گیا۔ دو حصے ملا عبدالقدوس اور ملا ندا محمد کی سربراہی میں براہ ِراست اس کی طرف بڑھے۔ وہ ساتھیوں سمیت بھاگ نکلا، تو راستہ روکے ہوئے تیسرا گروپ ملا عبدالسلام ضعیف کی سربراہی میں موجود تھا، صالح پکڑا گیا۔ اب سپن بلدک کی باری تھی۔
11نومبر 1994ء کو صرف چالیس افراد نے اس مضبوط ترین مرکز پر حملہ کیا، اور صرف پندرہ منٹ کی جنگ کے بعد وہاں سفید پرچم لہرا دیا۔ اس اڈے سے لاتعداد پاکستانی مغوی اور پاکستان سے اغوا کی گئی، درجنوں گاڑیاں برآمد ہوئیں۔ اس وقت سپن بلدک سے تھوڑی ہی دور تختہ پل کے پاس، پاکستان سے جانے والے 35ٹرکوں کو کئی دنوں سے یرغمال بنایا ہوا تھا۔ قندھار کی جانب طالبان کی پیش قدمی شروع ہوئی، تو تختہ پل کا قابض بھاگ نکلا۔ صرف دو دن کے بعد 13نومبر کو گورنر قندھار ملا نقیب نے شہر طالبان کے حوالے کر دیا، اور امارات اسلامی افغانستان کی بنیاد رکھ دی گئی۔
اس ساری چند روزہ کارروائی میں جو چند ظالم کردار مارے گئے، یا جنہیں ظلم و دہشت اور قتل و غارت کے مقدموں پر سزا دی گئی، ان میں عبدالرزاق اچکزئی کا والد اور چچا بھی شامل تھے۔ یہ اس وقت صرف پندرہ سال کا تھا اور چھوڑ دیا گیا۔ یہ بھاگ کر پاکستان آ گیا۔ یہاں اس کی دوستی اور تعلق ان لوگوں کے ساتھ ہوا، جو پاکستان کے اندر مدتوں سے نفرت کی سیاست کے علمبردار تھے۔ وہ اپنی تقریروں، وال چاکنگ اور مجلسی زندگی میں چونکہ پاکستان اور فوج کو براہِ راست مطعون نہیں کر سکتے تھے، اس لیے پنجاب کو گالی دیتے تھے۔
شمالی اتحاد اور امریکہ نے اس کی مالی اور عسکری مدد کی، اور گیارہ ستمبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے بعد جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا، تو قندھار پر قبضے کے لیے گل آغا شیرازی کی سربراہی میں لشکر ترتیب دیا گیا، جس میں عبدالرزاق بھی شامل تھا۔ یہ وہی گل آغا شیرازی ہے، جس نے ایک لڑکے سے اپنی شادی کے کارڈ تقسیم کئے تھے اور تقریب منعقد کی تھی۔ عبدالرزاق اچکزئی، امریکی افواج کا چہیتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ، اقوام متحدہ کی Comitte on tortureکمیٹی برائے تشدد نے عبدالرزاق کو تشدد، قتل اور لاپتہ افراد کا مجرم قرار دے کر اس پر مقدمہ چلانے کے لیے کہا، لیکن امریکہ نے اسے لیفٹیننٹ جنرل کی پوسٹ پر قائم رکھا۔ وہ قندھار کا قصاب مشہور تھا اور مسخ شدہ لاشوں کا ذمہ دار کہا جاتا تھا۔ عبدالرزاق اچکزئی کی موت پر امریکہ تو خاموش ہے، لیکن بھارت اور ایران کا میڈیا اسے ایک ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے۔ پیٹر مارسیڈن petar marsdenکی تحریریں یاد آ رہی ہیں۔
یہ شخص 1989ء سے 2005ء تک، برطانوی امدادی ایجنسیوں کا افغانستان میں کوآرڈی نیٹر رہا ہے۔ اس نے دو کتابیں تحریر کیں۔ پہلی Talban, Ascent to powerاور دوسری Afganistan aid, Armies Empires۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ تمام ظالم کمندان، قندھار میں طالبان کی فتح کے بعد کابل میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ پیٹر مارسیڈن نے ان عقوبت خانوں کی ایک ایسی تصویر کھینچی ہے کہ، آدمی خوف سے تھر تھرا اُٹھتا ہے۔ عبدالرزاق، جس نے سترہ سال کی عمر میں بندوق اٹھائی۔ اسی تشدد کے گُر سیکھتا آگے بڑھا، اس پر بائیس دفعہ قاتلانہ حملہ ہوا۔
وہ ان تمام قوتوں کا محبوب تھا جو پاکستان سے بغض رکھتی ہیں۔ جو آج اس کا غائبانہ جنازہ پڑھتے ہیں، اور دو ملک ایسے ہیں جو اسے ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن شاید وقت کا پہیہ کسی اور سمت روانہ ہو گیا ہے۔ امریکی جنرل جیفری شدید زخمی ہے، لیکن حیرت ہے کہ امریکیوں نے طالبان سے مذاکرات بہتر بنانے کے لیے، قطر کے ذریعے طالبان کی بڑی شخصیت ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان سے رہا کروایا ہے۔ پاکستان دشمنوں کی بیس سال کی محنت ضائع ہونے والی ہے۔