Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Musa Musa, Zakir Musa

Musa Musa, Zakir Musa

موسیٰ موسیٰ۔ ذاکر موسیٰ

جس دن دنیا بھر کے جمہوریت پرست علمائ، جدید مسلم فلاسفر اور مرنجامرنج اسلامی جدوجہد کے داعیان کے منہ پر بھارت کی بیداغ جمہوریت نریندر مودی کی صورت میں"اکثریت کی آمریت" کے زوردار طمانچے رسید کر رہی تھی، اسی دن بہتر سال سے قائم اس مسلسل بھارتی جمہوری حکومت کے سپاہی، ملت اسلامیہ کے ایک ایسے نوجوان کو شہادت کی موت سے سرفراز کرنے کے لیے گھیرے ہوئے تھے جسکا نام صدیوں تک آسمان شہادت پر جگمگاتا رہے گا۔

پچیس سالہ ذاکر موسیٰ جس نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو قوم پرستانہ شرک سے آزاد کرکے خالصتاً اللہ کے دین کی سربلندی اور نفاذ کے نعرے سے مشروط کر دیا تھا اور پورا کشمیر آج اسکے اس نعرے پر لبیک کہہ اٹھا ہے۔ ذاکر رشید بھٹ۔۔ جو آج سے پچیس سال قبل جولائی، 1994 میں پلوامہ ضلع کے ایک قصبہ ترال کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوا۔

ایک ایسا نوجوان جس نے لڑکپن میں بھارت کی سطح پر کیرم بورڈ کے مقابلے میں کشمیر کی نمائندگی کی، شاندار سکولوں میں تعلیم حاصل کی مگر اسکی زندگی میں ایکدم ایک موڑ آیا، اسے 2010 میں پولیس پر پتھر پھینکنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ اسکا والد پولیس والوں کو سمجھاتا رہا کہ اس سولہ سالہ بچے نے ایسا نہیں کیا، لیکن پولیس اسے لے گئی۔ اسے خود پر تشدد کا دکھ نہ تھا لیکن والد کی تذلیل کا رنج تھا۔ اس واقعے کے بعد وہ ایک بدلا ہوا ذکر رشید تھا۔

ذہین طالب علم جو ریاست پنجاب کی یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ پڑھنے گیا تھا مگر دوران تعلیم جب 2013ء میں وہ چھٹیوں پر گھر آیا تو اپنے تمام دنیاوی خواب ترک کرکے کشمیر کی جدوجہد کو ایک نیا رنگ دینے والے برہان وانی کے ساتھیوں میں شامل ہوگیا۔ دونوں کشمیر کی سب سے بڑی جہادی تنظیم حزب المجاہدین کا حصہ تھے۔

برہان وانی نے کشمیری جہاد کو ایک ایسی مقبولیت بخشی کہ 8 جولائی 2016ء کو اسکی شہادت کے بعد پوری وادی میں ایسے ہنگامے پھوٹے کہ جن میں ڈیڑھ سو سے زائد کشمیری مسلمان شہید ہوئے اور پندرہ ہزار سے زائد زخمی۔ دس اضلاع میں دو مہینے تک کرفیو نافذ رہا۔ تقریبا 120 افراد پیلٹ گن کے زخموں سے بینائی سے محروم ہوگئے۔ برہان وانی کا پرچم اب ذاکر رشید بھٹ کے ہاتھ میں تھا۔ ایک قابل فخر ماں شہزادہ بانو کا قابل تقلید بیٹا۔

کیا عظیم خاتون ہے کہ جب اس شہید کی میت اسکے پاس لائی گئی اس نے بس اتنا کہا، "اسے زندگی کی ہر آسائش میسر تھی، کیا تھا جو اسکے پاس نہیں تھا، لیکن اس نے اللہ کے راستے پر چلنے کا انتخاب کیا، میں سمجھتی ہوں کہ اللہ نے مجھے اسے دیا ہی اس لیے تھا کہ وہ اس سے اپنے مشن کی خدمت لے"۔

ہزاروں لوگ اس شہید کے آخری دیدار کے لیے جمع تھے۔ عظیم ماں نے تابوت پر کھڑے ہو کر کہا، مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے، میں نے آخری دفعہ اس کا چہرہ 2016ء کے ہنگاموں میں شیروں کی طرح احتجاج کرتے دیکھا ہے۔ میری نظروں میں وہی چہرہ رہنے دو اور پھر اس باہمت ماں نے چند لمحوں بعد ہی شہید کے تابوت کو رخصت کر دیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جب وادی میں مظالم کی انتہا ہوگئی تو کشمیر کی دیواروں اور دکانوں کے بند شٹروں پر صرف ایک نام چمکنے لگا۔ ذاکر رشید بھٹ کا نام۔ جو اب ذاکر موسیٰ تھا۔

مئی 2017ء میں اس نے حزب المجاہدین سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنی تنظیم بنائی جسکا نام "انصار غزوہ ہند "رکھا۔ اسی دوران اس بیان نے کشمیر کی جدوجہد آزادی کو ایک بالکل نیا رخ دیا۔ اس نے کہا "ہم اس آزادی کے لئے لڑیں گے جو صرف شریعت کے نفاذ کے لیے ہوگی، جو اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ہوگی۔ ہم کسی قوم پرستانہ سیکولر ریاست کے قیام کی جدوجہد میں حصہ نہیں لینا چاہتے۔

ہم اس جدوجہد کا راستہ اختیار کر رہے ہیں جو اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ہوگا، ایک ایسی ریاست جو صرف کشمیر میں نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان میں بھی قائم ہوگی۔ ذاکر موسیٰ کے اس بیان نے سوسالہ قوم پرستانہ کشمیری آزادی کی تحریک پر لا تعداد سوال اٹھا دئیے۔ وہ رہنما جو قومی ریاستوں کے فریم ورک، اقوام متحدہ کے منافقانہ کردار اور آزادی کے بنیادی حق کے سیکولر تصور میں اسلام کی پینٹنگ لگا کر اپنی تحریک کو ستر سال سے مشرف بہ اسلام کیے ہوئے تھے، ان رہنماؤں سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔

ذاکرکے خلاف منفی پروپیگنڈے کی مہم شروع ہوئی۔ کشمیر میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ یہ سلسلہ چند روز ہی چلا۔ لیکن پھر لوگوں پر حق واضح ہوتا گیا کہ خون دینے والے کون اور دودھ دینے والے مجنوں کون ہیں۔ کشمیری عوام اس راز کو پا گئے کہ اللہ نے نصرت اور مدد کا وعدہ تو کسی کشمیری، پاکستانی یا افغان کے ساتھ نہیں کیا بلکہ اسکا وعدہ تو رنگ، نسل سے بالا مومنین کے ساتھ ہے۔ اب ذاکر موسی کشمیر کے ہر گھر میں بسنے لگا، ہر دل میں دھڑکنے لگا۔

انصار غزوہ ہند نے واٹسیپ اور فیس بک کی بجائے زیادہ محفوظ سروس ٹیلیگرام پر میڈیا گروپ "الحْرّ" بنایا جس میں ذاکر موسی اب ایک لمبے سے کشمیری چوغے میں ایک چھڑی پکڑے لمبی سی داڑھی رکھے نظر آتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اسامہ بن لادن کے سٹائل کو اپنا رہا ہے۔ اسکا گروہ کسی بھی جہادی گروہ کے خلاف گفتگو نہیں کرتا تھا۔ صرف قوم پرستانہ سیاسی قیادت سے نالاں رہتا۔

دسمبر 2018 میں جب انصار غزوہ ہند کے چھ مجاہدین شہید ہوئے تو حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نیکو کا آڈیو پیغام پورے کشمیر میں مقبول ہوا جو اس بات کا اعلان تھا کہ دونوں گروہوں میں کوئی اختلاف نہیں، دونوں اسلام کیلئے کام کر رہے ہیں۔ اسکے بعد مجاہدین کا صرف ایک ہی نعرہ تھا "شریعت یا شہادت"۔ 8 نومبر 2018ء کو گروپ نے کشمیری مجاہدین کی لئے ایک سیکورٹی گائڈ لائن جاری کی اورکہا کہ کشمیری مجاہدین کو دنیا کی ہر خفیہ ایجنسی سے الگ رہنا ہونا گااور صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیاں اسلام کے لئے نہیں بلکہ ملکی مفاد کے لئے کام کرتی ہیں اور وہ ایک نہ ایک دن مجاہدین کو ملکی مفاد پر قربان کر دیں گی۔ لیکن یہ گائڈ لائن ذاکر موسی کو شہادت کی موت سے نہ بچا سکیں۔

23 مئی 2019ء کو روزہ کھولنے سے بارہ منٹ قبل بھارتی فوج کی 42 راشٹریہ رائفلز نے اس گھر پر فائرنگ شروع کر دی جہاں ذاکر موسیٰ موجود تھا۔ لوگ کہتے ہیں اس دن اس نے افطاری نہیں کی اور مقابلے میں مصروف ہوگیا۔ دس گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا۔ گھر کو آگ لگ گئی۔ آگ بجھا کر سپاہی اندر داخل ہوئے، لیکن ذاکر کا سراغ نہ مل سکا۔ جب انہیں ذاکر کی لاش تک نہ ملی تو وہ واپس جانا شروع ہوئے، اتنے میں نعرے بلند ہوئے موسیٰ موسیٰ۔۔ ذاکر موسیٰ۔

ذاکر سمجھا کہ یہ وادی کے نوجوان ہیں جو اسے بچانے آئے ہیں، جبکہ دراصل وہ کشمیری پولیس والے تھے جو دھوکے کیلئے یہ نعرے لگا رہے تھے۔ ذاکر نعروں کی گونج میں چھلانگ لگا کر باہر آیا اور گولیوں کی بوچھاڑ اسکی شہادت کا انتظار کر رہی تھی۔ جنازے پر کھڑے ہوئے سائر احمد نے کہا، جب برہان وانی شہید ہوا تھا تو کشمیر ایک خاموش سی جدوجہد کر رہا تھا، لیکن اسکی شہادت کے بعد پورا کشمیرمسلح جہاد کا امین بن گیا تھا، جبکہ ذاکر موسیٰ تو اسوقت شہید ہوا ہے جب ہر روز ایک مجاہد شہید ہو رہا ہے۔ اسکے بعد تو جہاد اور تیز ہوگا۔

ذاکر اس راستے کا آخری قافلہ سالار نہیں، اللہ اسکا بہترین نعم البدل دے گا۔ اس کے جنازہ میں عوام کا ہجوم یہ بتا رہا تھا کہ کشمیر میں اب صرف ایک ہی نعرے کی گونج ہے "شریعت یا شہادت"۔ اس نعرے نے قوم پرستانہ آزادی کی تحریک کو اسی طرح ہی ڈبو دیا ہے جیسے مودی کی جیت نے جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے۔

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل

کس نے کہا ہے اس سے مسلماں کی موت مر

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan