Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Jamhuriat Ka So Sala Safar, Hitler Se Narendra Modi Tak

Jamhuriat Ka So Sala Safar, Hitler Se Narendra Modi Tak

جمہوریت کا سو سالہ سفر: ہٹلر سے نریندر مودی تک

گزشتہ ستر سال سے یہ سب سنتے ہوئے کان پک گئے ہیں کہ وہ دیکھو ہمارے پڑوس میں ایک ملک بھارت ہے، ہمارے جیسے کپڑے پہنتے ہیں، ویسا ہی کھانا کھاتے ہیں، گانے سنتے ہیں، ہماری طرح کی رسم و رواج رکھتے ہیں، اکثریت نسلی طور پر بھی ایک نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہاں تک کہ ہمارے مزاج بھی ایک جیسے ہیں، مگر ان سب مشترکات کے باوجود، وہاں فوج حکومت کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار نہیں آتی، وہاں جمہوریت کا پہیہ چلتا رہتا ہے، وہاں سسٹم پٹری سے نہیں اترتا۔ پھریہ دانشور خود ہی اس سب کی وجہ بیان کرتے تھے کہ دراصل کانگرس اور اس کی ہندو لیڈر شپ نے ایک طویل جمہوری جدوجہد سے عوام کی تربیت کی ہے، اسلئے وہاں کے عوام بھی باشعور ہیں اور قیادت بھی سمجھدار۔ ایسے میں فوج کو بخوبی علم ہے کہ اگر ہم اقتدار پر قابض ہو گئے تو کوئی ہمیں زیادہ دیر وہاں رہنے نہیں دے گا۔

یہ سب منطق پیش کرنے کے بعد ہمارے یہ دانشور، سیاستدان حتیٰ کہ کچھ علماء بھی مسکراتے ہوئے ہماری جانب دیکھتے اور کہتے دیکھو جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پارٹی تھی مسلم لیگ، نہ کوئی تحریک چلائی، نہ جیلیں، نہ قیدیں کاٹیں، پولیس کے ڈنڈے اور تشدد بھی برداشت نہیں کیا اور ایک مختصر سی آئینی جدوجہد سے ملک حاصل کر لیا۔ اب ایسے ملک میں جمہوری استحکام اور جمہوری نظام کا تسلسل کیسے قائم رہ سکتا ہے۔

تم لوگ ایک بے جوڑ سا ملک لے کر بیٹھ گئے ہو اور سمجھتے ہو کہ اسلام کے نام پر قومیتوں کو اکٹھا رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے طعنے سنتے ہوئے، مضامین پڑھتے اور جلسوں میں مقررین کی شعلہ نوائی سے لطف اندوز ہوتے ہم سب کی ایک عمر گزاردی ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے میرا یہ "عظیم" دانشور طبقہ خاموش ہے، اسے سانپ سونگھا ہوا ہے۔ اسکے علم کے ذخیرے سے سب سے بڑی مثال "بھارت" ایسے غائب ہوگیا ہے جیسے کسی نے کمپیوٹر پر "ڈیلیٹ" کا بٹن دبا دیا ہو۔ انہیں کوئی دلیل سمجھ نہیں آرہی۔

ستر سال کی مسلسل اور بغیر کسی وقفے سے قائم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے آخر کار رنگ نسل زبان اور علاقائی قومیتوں کے نام پر منقسم بھارت کو جمہوری تسلسل کے ذریعے صرف اور صرف مذہب کے نام پر اکٹھا کرہی لیا۔ آج بھارت کا جمہوری ووٹر بھول چکا ہے کہ وہ تامل، راجپوت، بنگالی، چکما، جاٹ یا کوئی اور ہے۔ وہ اس عظیم" ہندو جمہوریت "میں صرف اور صرف ایک ہندو ہے۔ اسے جمہوری تسلسل نے مذہب کے نام پر متحد کردیا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ جمہوری نظام کی کوکھ سے ایک نفرت نے بھی جنم لیا ہے۔

اقلیتوں سے اس نفرت نے اتنا کمال حاصل کر لیا ہے کہ ہندو جمہوری ووٹرنعرہ زن ہے کہ اس ملک میں بسنے والے علاقائی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں اور مسلمانوں کو اسوقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ واپس ہندو نہ ہو جائیں اور باہر سے آنے والی ذاتوں کے لوگ تو ویسے ہی ناپاک ہیں۔ انکے وجود سے اس پاک اور پوتر بھارت کو نجات حاصل کرنا چاہیے۔

اب اس جمہوری تسلسل کی پیداوار قیادت اورعوام کی بھاری اکثریت کے امین، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے قائد نریندر مودی کے سائنسی، مذہبی اور تاریخی خیالات کا کمال دیکھیے۔ اسکی یہ تقریر اور گفتگو مندر، یاترا کے جلوس یا مذہبی اجتماع میں نہیں بلکہ ممبئی کے ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی ایک کانفرنس میں کی گئی۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو جمہوریت میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے اختیار کیا جاتا ہے اور یہ کامیاب بھی ہوتا ہے۔

مودی نیا نیا وزیراعظم منتخب ہوا تھا، اس نے ان میڈیکل سائنس کے اعلیٰ دماغوں کو خالص "منتخب جمہوری دانائی" (Elected democratic wisdom) کی سائنسی معراج سکھاتے ہوئے بتایا۔ "ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ ہندو بھارت نے میڈیکل سائنس میں ہزاروں سال پہلے جو ترقی کی اور جو ایجادات کیں تھیں، آج کی جدید دنیا اسکی طفولیت (Infancy) میں ہے۔

ہم نے مہا بھارت میں کرن کے بارے میں پڑھا ہوگا کہ وہ ماں کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوا تھا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ مہابھارت کے زمانے میں علم تناسل (Genetic Science) اسقدر ترقی کر چکا تھا کہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ہم ابھی تک فقط ٹیسٹ ٹیوب بے بی بنا رہے ہیں جس کے لئے اسے باہرٹیسٹ ٹیوب میں پال کر پیدا کرنے کے لئے واپس ماں کے پیٹ میں لے جانا پڑتا ہے"۔

وزیراعظم نریندر مودی مثالیں دیتا ہوا گنیش جی مہاراج کے تذکرے پرجا پہنچا۔ یہ وہ دیوتا ہے جسکا دھڑ انسان اور سر ہاتھی کا ہے۔ اسکی کہانی یوں ہے کہ شیو کی بیوی پاروتی تالاب میں نہانے لگی تو اپنی حفاظت کے لیے اس نے ابٹن سے ایک بچہ بنایا اور اسے اپنی شکتی دے دی۔ وہ ایک زندہ طاقتور محافظ بن گیا۔ ادھر شوہرشیو، بیوی سے ملاقات کی تڑپ میں وہاں پہنچا، بچے نے روکنا چاہا، اس نے تلوار سے اسکی گردن اڑا دی۔

شیو کی بیوی پاروتی بولی، اس میں تو میری ساری شکتی تھی اب اسے ڈھونڈ کر لاو۔ ایشور نے حکم دیا، جاو جو کوئی وجود مشرق کی جانب منہ کرکے لیٹا ہوا سب سے پہلے نظر آئے اسکا سر کاٹ کر اس پر لگا دو، شکتی واپس آ جائے گی۔ سب سے پہلے ایک ہاتھی کا بچہ سو رہا تھا، اسکا سر کاٹ کر لگا دیا گیا اور یوں دیوتا گنیش کا جنم ہوا۔

مودی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ تم آج پلاسٹک سرجری کے عروج کی باتیں کرتے ہو، کٹے ہوئے اعضاء جوڑتے ہو، جبکہ ہندو بھارت نے یہ کام صدیوں پہلے کیا تھا اور ایسا کمال کیا کہ انسان اور جانور کے اعضاء کو آپس میں جوڑ کر دکھایا جو شاید آپ ابھی تک سوچ بھی نہیں سکتے۔ میڈیکل سائنس سے مودی فلکیات تک جا پہنچا اور کہا کے دیکھو بھگوان رام چندر اپنی اڑنے والی رتھ پر سوار ہوکر لکشمن کے لیے ہمالیہ پہاڑ سے سنجیونی بوٹی لے کر آتا ہے۔

آج کے جہاز ابھی تک اس طرح کے رام چندر والے جہاز کی ابتدائی شکلیں ہیں۔ یہ گفتگو تو میڈیکل سائنس کے ماہرین کے سامنے ایک جمہوری وزیر اعظم کی تقریر میں کی گئی تھی، مگر جب وہ گجرات کا منتخب وزیر اعلیٰ تھا تو اس نے سکول کے بچوں کی ایک کتاب کا دیباچہ تحریر کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ بھگوان رام چندر جہاز اڑاتے تھے اور قدیم ہندو "Stem cell"یعنی انسان کے ان خلیوں کے بارے میں بھی جانتے تھے جو اپنے اندر خود نموئی (Self-growth) رکھتے ہیں۔ یعنی وہ آج کے دور سے بہتر طور پر کینسر کا علاج جانتے تھے۔

یہ عظیم جمہوری رہنما، ایک تسلسل کے ساتھ مسلسل جمہوری نظام رکھنے والے ملک میں واضح بھاری اکثریت سے ایک بار پھر برسر اقتدار آگیا ہے۔ اسکے گزشتہ بیس سالہ جمہوری کیریئر میں اسکے ان سائنسی مذہبی نظریات کو چیلنج کرنے کے لیے لاتعداد پی ایچ ڈی ایز والے بھارت میں سے کوئی ایک بھی سائنس دان اٹھ کر کھڑا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ مودی کی مخالف کانگریس پارٹی، بلکہ کہ کیمونسٹ پارٹی کے لوگوں نے بھی ان عظیم سائنسی معلومات کو چیلنج نہیں کیا۔

یہ ہے جمہوریت کی اکثریت کا خوف۔ یہی شدید ہندو تفاخر کے نظریات ہیں جن کی وجہ سے بھارت کا ہندو ووٹر اپنی ذات، رنگ، نسل اور زبان سے بالاترہو کر مسلمان نفرت کی بنیاد پر نریندر مودی کے پرچم تلے جمع ہو چکا ہے۔ 16 اکتوبر 1919ء کو ہٹلر نے میونخ میں اپنی پہلی تقریر کی تھی اور جمہوریت کے خوبصورت نظام میں نسلی برتری اور تعصب کا نعرہ بلند کیا تھا اور یوں وہ اپنی مسلسل جمہوری جدوجہد کی بدولت، 30 جنوری 1933ء کو یہودیوں سے نفرت اور جرمن قوم کی بالاتری کے نعرے کے ساتھ فتح سے ہمکنار ہوتا ہوا چانسلر بن گیاتھا۔ اسکے بعدکا وقت ایک تاریخ ہے، کشت و خون سے رنگین دہشت و ظلم سے بھری ہوئی۔

یہ ہے جمہوریت کا سو سالہ عظیم سفر۔ آپ اس جمہوری نظام کے پرچم تلے مذہبی اکثریت کی آمریت کونافذ کر لیں یا نسلی اکثریت کی آمریت کا جھنڈا گاڑدیں۔ نتیجہ اقلیت کی موت ہے اور اکثریت کی بقاء۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed