اس دلدل سے نکلو عمران خان
جس وقت یہ سطور آپ تک پہنچیں گی۔ عمران خان متحدہ عرب امارات میں بسائے گئے عالمی اقتصادی استحصالی سودی نظام کے عماراتی جنگل میں آئی ایم ایف سے اپنی گفتگو کا آغاز کر چکے ہوں گے اور جس طرح کے حواری ان کے ساتھ ان مذاکرات میں گئے ہیں عین ممکن ہے وہ آئی ایم ایف سے ایک جامع پیکیج لینے میں کامیاب بھی ہو جائیں اور اسے اپنے لئے ایک فتح قرار دے دیں۔ اس لئے کہ یہ سب کے سب اپنی تعلیم، تربیت اور نقطہ نظر کے غلام ہیں۔
ان کی آنکھ اس مکروہ سودی نظام کی گود میں مالیاتی تصور کی لوریاں سنتے کھلی ہے، ان کی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا معاشیات کی وہ اصلاحات ہیں جن میں پورا عالمی مالیاتی اقتصادی نظام جکڑا ہوا ہے۔ لیکن جس معاشی پیکیج کو یہ اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیں گے، یہی ان کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ نہ صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہاں بلکہ دنیاوی اعتبار سے ہر معاشی زاویے سے بھی۔
اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات تو میں آخر میں کروں گا کہ کیونکہ ریاست مدینہ کے عمران کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات سمجھانے کے لئے اسے مغرب کی گلیوں سے گزارنا پڑتا ہے۔ اسے مغرب کی چکا چوند میں اخلاقی زوال اور خاندانی تباہی تو نظر آتی ہے لیکن موصوف کے ذوق مطالعہ میں اس معاشی چکا چوند کے پیچھے مکروہ ہاتھوں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے آہنی شکنجوں کا ادراک نہیں۔
ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے نزدیک یہ دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہے، ایک قرضہ دینے والے (Creditors)اور دوسرے قرضہ لینے والے(debtors)اور یہ دونوں ادارے بریٹن ووڈز(Bretton Woods)معاہدے کے تحت مقروض ملکوں میں ایسی پالیسیوں کی پرموشن اور تحفظ کے لئے بنائے گئے ہیں۔ جو قرض دینے والوں اور نجی سرمایہ دار کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کریں۔ کیونکہ دنیا بھر کے بینک اپنا سرمایہ نجی سرمایہ دار کمپنیوں میں لگاتے ہیں اور وہ دنیا بھر کے ممالک میں اپنے کاروبار کا جال پھیلا کر ان ملکوں سے منافع کما کر سود سمیت رقم ان دو درجن بینکوں کو سود سمیت واپس کرتی ہیں جو دنیا کی ان پینتالیس ہزار کارپوریشنوں کو سرمایہ کاری کے لئے مصنوعی کاغذی دولت فراہم کرتے ہیں۔
یہ ایک آکٹوپس کی طرح کا جال ہے جو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ذریعے 1960ء کی دہائی میں شروع کیا گیا۔ اس کا آغاز غریب ملکوں اور وہ بھی ایسے غریب ممالک جہاں معدنی و زرعی وسائل کی بہتات ہے، ان کو آمدن سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب دینا۔ اور یہ ترغیب بڑی رنگا رنگ ہوتی ہے جو شیخ چلی کے انڈوں کی طرح ہوتی ہے۔ یعنی تم موٹر وے بنائو گے تو گاڑیاں تیز رفتاری سے چلیں گی، تمام مال منڈیوں تک پہنچے گا۔
تمہاری زرعی اجناس اور صنعتی مصنوعات مارکیٹ حاصل کریں گی۔ اس طرح کے آئیڈیا کو بیچنے کے لئے ان ملکوں میں اپنے ٹوڈی حکمران مسلط کئے جاتے ہیں۔ موٹر وے کے لئے قرض دیا جاتا ہے، موٹر وے تو بن جاتا ہے لیکن پھر مڑ کر دیکھتے ہیں کہ اس کے دونوں طرف وہی ایک ہزار سال پرانی غربت و افلاس ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ صنعتیں کہاں ہیں، جہاں سے ٹرک نکل کر موٹر وے پر آئیں، زمینوں پر پیکنگ کابندوبست ہے اور نہ گریڈنگ کا، مال جیسا تیسا ہے قریبی منڈی تک ہی پہنچ سکتا ہے، کالج یونیورسٹیاں کہاں ہیں؟
جہاں سے نوجوان پڑھ کر صنعتوں میں کام کریں گے، جو ہیں وہ کھیت کھلیان چھوڑ کر باہر مزدوری کرنے چلے گئے اور جو پڑھ لکھ گئے انہیں باہر کی صنعتوں نے اچک لیا۔ آپ کے پاس چمکتی ہوئی موٹر وے رہ گئی اور منہ پھاڑے ہوئے خوفناک قرضہ۔ اس قرضے کو ادا کرنے کے لئے دنیا بھر کے ممالک میں اپنا خام مال بیچ کر ڈالر حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ اب آپ آ گئے شکنجے میں۔ اب ہر مالیاتی نظام آپ کے مال کے جتنے کاغذی ڈالر دینا چاہے آپ کو دے گا۔
1960ء کی دہائی میں جب ان غریب ممالک نے قرضے لے کر ایسے ہی منصوبوں پر خرچ کر لئے اور انہوں نے خام مال بیچ کر قرضہ ادا کرنا شروع کر دیا تو 1982ء میں ایک بحران کھڑا کیا گیا کہ ان غریب ممالک کی کرنسیوں کی قیمتیں گرا دی گئیں۔ اب اگر آم کی ایک پیٹی باہر بھیج کر ایک ڈالر زرمبادلہ ملتا تھا تو اب پچاس سینٹ ملنے لگا۔ یوں ان ملکوں میں وہ سکت اور استطاعت باقی نہ رہی کہ قرضوں کی قسط ادا کر سکیں۔
اب آیا ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف میدان میں اپنا سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام لے کر، یعنی ملکوں کے انتظامی ڈھانچے کو معاشی ضروریات کے مطابق ڈھالنا۔ یہ ہے وہ پروگرام جس کے تحت عمران خان اپنے تمام پیش روئوں نواز شریف، زرداری، بے نظیر کی طرح مذاکرات کے لئے گئے ہیں، اس پروگرام کے بظاہر دو فائدے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آئی ایم ایف آپ کے سٹیٹ بنک میں چند ارب ڈالر رکھ دیتا ہے جسے آپ دیکھ سکتے ہیں خرچ نہیں کر سکتے۔ لیکن دنیا سمجھتی ہے کہ آپ اب مالدار ہو گئے ہیں اس لئے آپ سے کاروبار ہو سکتا ہے۔
دوسرا فائدہ یہ کہ آئی ایم ایف کے اس پیکیج کے بغیر آپ کو دنیا کے بنک قرضہ نہیں دیتے اور قرضوں کا اصل گھن چکر یہی ہے کہ ورلڈ بنک وغیرہ سے دو فیصد شرح سود سے کم پر قرضہ لو۔ اللے تللوں پر خرچ کرو۔ پھر قسط دینے کے لئے پرائیویٹ بنکوں سے کئی گناہ زیادہ سود پر قرضہ لے کر ادا کرو۔ اس چکر اور بھول بھلیوں میں گزشتہ تمام حکومتیں مکڑی کے جال میں مکھی کی طرح پھنسی ہوئی تھیں اور اب عمران خان نے بھی اس میں قدم رکھ دیا ہے۔ یہ جو سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام ہے اس کے تحت سب سے پہلے کرنسی کی قیمت گرائی جاتی ہے تاکہ دنیا کے امیر ملک آپ کا مال سستے داموں خرید سکیں۔
دوسرا آپ سے یوٹیلیٹی مثلاً بجلی، گیس، پانی کی قیمتیں بڑھوائی جاتی ہیں تاکہ وہ کمپنیاں جنہوں نے بنکوں سے قرضہ لے کر یہاں سرمایہ کاری کی ہے وہ عوام کو دھڑا دھڑ لوٹ کر پیسے سود سمیت بنکوں کو واپس کریں۔ اس کے بعد آپ کو ایسی اصطلاحات کرنے کو کہا جاتا ہے کہ آپ پرائیویٹائزیشن کو تیز کریں۔ ملک میں تو سرمایہ ہوگا نہیں، دنیا کی وہ تمام کمپنیاں انہی بنکوں سے قرضہ لے کر آپ کی ملیں، کارخانے، ائر لائن، سٹیل ملیں وغیرہ وغیرہ خرید لیں گی۔ اب یہ چکر مکمل ہوگیا۔
آپ نے آمدن سے زیادہ خرچ کی عادل ڈالی، آپ پر قرضہ بڑھا، آپ ادا نہ کر سکے، آپ کے وسائل ان کمپنیوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ انہوں نے سرمایہ کاری کے نام پر یہاں کاروبار کیا، پیسہ کمایا اور سود سمیت ان بنکوں کو واپس کیا جہاں سے قرض لے کر سرمایہ کاری کی تھی۔ یوں وہ عالمی سودی نظام مضبوط ہوگیا جس کے خلاف اللہ اور اس کے رسولؐ نے جنگ کا اعلان کیا ہے۔ میں نے اس گھن چکر سے نکلنے کے طریق کار پر گیارہ کالم عمران خان صاحب کی خدمت میں تحریر کئے ہیں لیکن ان کی آنکھوں اور کانوں پر اسد عمر سے لے کر ہر اس معاشی صلاح کار کی مہر لگی ہوئی ہے جو اس سسٹم کا گرویدہ اور اس ملک کو اسی سودی نظام میں رکھ کر ترقی کے خواب دیکھتا اور دکھاتا ہے۔
یاد رکھو اگر اس نظام میں رہ کر نواز شریف اور بے نظیر ترقی نہ کر سکے، مہاتیر محمد کا ملائشیا قرضے میں ڈوب گیا تو عمران خان اور اس کے ساتھی کس باغ کی مولی ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے "سود کھانے والے، سود دینے والے، سودی دستاویز لکھنے والے اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی اور کہا یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (مسلم ابن ماجہ) جس قوم کے حکمرانوں پر بحیثیت مجموعی اللہ کا غضب اور رسول اللہﷺ کی لعنت برس رہی ہو وہ اس غربت کی دلدل سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں، عمران خان واپس پلٹ جائو ورنہ تمہارا بھی حشر وہی ہوگا جو پہلوں کا ہوا، تم بھی ناکام ہو جائو گے۔