عمران خان کی ریاست مدینہ، پینسلوینیا ایونیو میں داخل
آخر کار وہی ہونے جارہا ہے جس کا ڈر تھا، ڈر نہیں بلکہ یقین تھا۔ پاکستان کے منظر نامے پر چھائے ہوئے معیشت دان، جنہوں نے اپنی تعلیم کے آغاز سے ہی ایڈم سمتھ (Adam Smith) کے افکار کی لوریاں سنی ہوں، جان مینارڈ کینز (John Maynard keynes) کے معاشی تصورات سے علم حاصل کیا ہو اور ملٹن فریڈمین(Milton friedman) کے مالیاتی نظام کی چھتری تلے سوچنا سیکھا ہو، وہ سب کے سب پاکستان جیسے غریب، پسماندہ اور دست نگر ملک کی معیشت کو مغربی استعمار اور کارپوریٹ معاشرت کے تخلیق کردہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے باہر لے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
15 اگست 1947 کو حلف اٹھانے والے پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ ملک غلام محمد سے لے کر موجودہ حفیظ شیخ تک اگر آپکو کسی وزارت کی مدت میں استحکام نظر آتا ہے تو وزارت خزانہ ہے۔ اس لیے کہ اس وزارت پر عالمی مالیاتی نظام کے منظور نظرہی بٹھائے جاتے رہے ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہیں، وزیراعظم ادھر سے ادھر ہوتے رہے لیکن، یہ معاشی پنڈت اپنی وزارت خزانہ سے نہیں ہٹائے جاتے تھے۔
ملک غلام محمد جس نے بعد میں گورنر جنرل بن کر پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی توڑی، اس عہدے پر چار سال تک براجمان رہا۔ بنیادی طور پر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، لیکن سول سروس کا تڑکہ لگا اور انگریز کی عملداری کا بیوروکریٹ بن گیا، وہیں سے وزیر خزانہ اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل بنا۔ اسکے بعد ایک اور بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو چار سال کے لیے وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ کیمسٹری میں ایم اے کرنے والا اور برٹش انڈیا کی سول سروس کے اکاؤنٹس گروپ میں آیا اور منظور نظر ہوگیا۔
چار سال وزیر خزانہ رہنے کے بعد 12 اگست 1955کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ اسکے بعد ایک اور بیوروکریٹ سید امجد علی کی قسمت جاگی۔ سید مراتب علی جیسے مشہور تاجر کے گھر پیدا ہونے والا، برٹش سول سروس میں آیا تو پاکستان بنتے ہی امریکہ میں سفیر لگا دیا گیا، وہاں سے وفاداری کی سند حاصل کرکے لوٹا تو پاکستان کے وزیر خزانہ کا عہدہ اس کا منتظر تھا، جہاں وہ تین سال تک رہا۔
مارشل لاء لگا تو ایوب خان نے اس لاڈلے کو اقوام متحدہ میں مستقل مندوب لگا دیا، اس لیے کہ اب ایک اور منظور نظر کی آمد کے ڈنکے بج رہے تھے۔ محمدشعیب، ورلڈ بینک کی ملازمت سے براہ راست وزارت خزانہ کی کرسی پر آ بیٹھا اور پھر 25 اگست 1968 تک آٹھ سال تک پاکستان کی معیشت کی ڈوریاں اسکے ہاتھ میں رہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان پر تین معیشت دانوں کا قبضہ تھا۔
محمدشعیب وزیر خزانہ، شرمیلا فاروقی کے دادا این ایم عقیلی جو سرکاری انویسٹمنٹ کمپنی Picic کے سربراہ تھے اور مرزا غلام احمد قادیانی کا پوتا ایم ایم احمد جو سیکرٹری خزانہ تھااور برٹش انڈیا کے زمانے کا بیوروکریٹ تھا۔ ان تینوں کا ایک مشترکہ نظریہ تھا کہ مشرقی پاکستان ایک بے پیندے کا برتن(Bottom less pot) ہے۔ اس لیے وہاں جو بھی خرچ کیا جائے گا ضائع ہو جائے گا، انہوں نے مشرقی پاکستان سے نجات کی راہ ہموار کی۔
محمدشعیب وہ شخص ہے جس نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی کینیڈا کی جنرل الیکٹرک کمپنی کیساتھ 137 میگا واٹ کے نیوکلیئر انرجی پلانٹ کے دستخط شدہ معاہدہ کو مسترد کردیا تھا یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان انرجی کے بحران کے راستے پر گامزن ہے۔ محمدشعیب وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا تو ورلڈ بینک کا نائب صدر بن گیا اور اسکے بعد ان تین کے ٹولے میں سے این ایم عقیلی کو تین سال کے لیے وزیر خزانہ کی کرسی پر براجمان ہونے کا موقع دیا گیا۔ یحییٰ خان کے اقتدار میں آنے کے بعد عقیلی کو گورنر اسٹیٹ بینک بنادیا گیا اور اس تین کے ٹولے کے تیسرے کردار ایم ایم احمد(قادیانی) کو یحییٰ خان نے اپنا چیف ایڈوائزر لگا دیا۔ اسی دور میں ون یونٹ کے خاتمے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔
ایم ایم احمد اس کمیٹی کا سربراہ تھا۔ یکم جولائی 1977ء کو ون یونٹ ختم کرنے کا اعلان کردیا اور یوں مغربی پاکستان کو چار صوبوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایسے چار بڑے بڑے یونٹ بنا دیے گئے جس سے اس ملک میں نفرت اور تقسیم کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی۔ یوں تو ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم کے نعرے کی بنیاد پر اقتدار میں آیا، لیکن اسکا وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن تھا۔ یہ شخص بنیادی طور پر ایک ہائیڈرالک انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ تھا۔
کولمبیا یونیورسٹی سے پڑھا ہوا، اور ایسا منتشر خیال آدمی جو مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کے ملغوبے سے معیشت چلانا چاہتا تھا۔ تین سال تک اس وزارت پر متمکن رہا اور سرمایہ دارانہ نظام کی آزاد معیشت کی بنیادوں کو نیشنلائز یشن کے عفریت سے گرا کر رکھ دیا۔
آخر میں بھٹو نے وزارت خزانہ کیلئے امریکی منظورنظر غلام اسحاق پر بھروسہ کیا اور معیشت اسکے سپرد کرکے علامتی طور پر سیاستدان رانا حنیف کو خزانہ کا قلمدان دے دیا۔ یہی غلام اسحاق خان 5 جولائی 1977 سے نو سال کے لیے 21 مارچ 1985 تک وزیر خزانہ بنا، وہیں سے چیئرمین سینٹ اور پھر ضیاء الحق کے بعد صدر پاکستان۔ اسکے بعد تین سال کے لیے محبوب الحق کو لایا گیا، مگر اسکی انقلابی تجاویز سے کوئی بھی متفق نہ تھا۔ وہ واپس اقوام متحدہ چلا گیا۔
ورلڈ بینک کا پالیسی ڈائریکٹر لیکن کسی حد تک منفرد سوچ رکھنے والا اس ملک میں نہ پنپ سکا اور اسکے بعد یہ ملک اگلے تیس سال کے لیے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے تیارکردہ معیشت دانوں، انہی کے منظور نظر بیوروکریٹوں اور انہی کی پالیسیوں کو اپنانے والے سیاستدانوں کا اکھاڑہ بن گیا، اور آج اس اکھاڑے میں وہ دھول اڑ رہی ہے، تصویر تک دکھائی نہیں دے رہی۔ ان تیس سالوں میں اس ملک پر تین کردار حکمران رہے ہیں۔
بینظیر اور اسکی پیپلز پارٹی، نواز شریف اور اسکی مسلم لیگ اور پرویز مشرف۔ لیکن ان تیس سالوں میں پاکستانی معیشت کا ہر محکمہ، وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک، پلاننگ کمیشن، بورڈ آف ریونیو حتی کہ نجکاری کمیشن تک ایسے بیوروکریٹوں اور ٹیکنو کریٹوں کے ہاتھ میں رہا ہے جنہیں اسکول میں قدم رکھتے ہی مغربی استعماری کارپوریٹ عالمی مالیاتی نظام کا ہی درس ملا تھا۔ انکی تعلیم، ٹریننگ، اور زندگی کے مفادات سب کے سب اس خون چوسنے والے سودی عالمی مالیاتی نظام سے وابستہ ہیں۔ یہ اس کے باہرسوچ ہی نہیں سکتے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عمران خان کی ریاست مدینہ کو بھی پینسلوینیا ایونیو، واشنگٹن پر موجود آئی ایم ایف کی عمارت کا راستہ دکھا دیا ہے۔ یہی ہونا تھا۔ پاکستان کے پاس اس سے نکلنے کے بہت سے راستے موجود تھے، لیکن عمران خان صاحب کو اس ٹیم نے معاشی بدحالی، مہنگائی اور دیوالیہ پن سے اتنا ڈر ایا ہے کہ جان پرکنز کی کتابوں کا حوالہ دینے والا عمران، انہی معاشی غارت گروں (Hitmen) کے شکنجے میں آچکا ہے۔ کاش کوئی اسے بتا دے کہ دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جس نے آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہوکر خوشحالی کی راہ اختیار کی ہو۔ سب کے سب بدحال ہوئے، قرض میں جکڑے گئے، بدترین معاشی بحران کا شکار ہوئے۔
عوام کا رونا تو اب بھی ہے اور اسکے بعد بھی رہے گا۔ لیکن اگر آپ ان ملکوں کی راہ اختیار کرتے جنہوں نے قرضوں کا آڈٹ کروایا، غیر اخلاقی قرضے دینے سے انکار کیا تو شاید کچھ عرصہ عوام اور روتے رہتے، لیکن اسکے بعد انکی زندگی پرسکون ہوتی، باعزت اور با غیرت ہوتی۔