Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Zehni Ghulam Log

Zehni Ghulam Log

ذہنی غلام لوگ

انگریز کو ہم پر حکومت چھوڑ کر گئے تین چوتھائی سے بھی زائد صدی گزر گئی مگر وہ ذہنی طور پر ابھی تک ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ابھی میں نے ایک سابق وفاقی وزیر اطلاعات کواس مچھلی کے انگریزی نام کی غلط ادائیگی پر برہم دیکھا جسے عمران خان جیل میں کھا رہے ہیں۔ سوال تو اس پر یہ ہونا چاہئے کہ ایک ایسا شخص جس کا پچھلے تیس برس سے کوئی معلوم کاروبار اور روزگار نہیں وہ ہر مہینے اہلیہ کے ساتھ جیل میں سات لاکھ روپے کے کھانے کیسے کھا رہا ہے مگر میں اس وقت سیاسی موضوع پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔ میر اموضوع انگریزی زبان ہے جس کا سمجھنا اور بولنا آج بھی علم اور دانش، فضیلت اور وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

انگریزی نہ جاننے والے کو جاہل اور بے وقوف، یہ احساس کمتری ہے مگر یہ احساس ہمارے نظام نے ہمیں دیا ہے جس میں تمام حکمران طبقوں تک پہنچنے کے لئے انگریزی پر عبور کو بنیادی شرط بنا دیا گیا ہے جیسے کہ سی ایس ایس کا امتحان۔ ابھی آج ہی آئینی عدالت کے ایک معزز جج نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لاہورا ور راولپنڈی کے ججوں کے فیصلے ایک جیسے ہیں لگتا ہے ان ججوں کی انگریزی کا مسئلہ ہے۔ میرا سوال ہے کہ اگر دو مختلف عدالتوں کے ججوں کے فیصلوں کی زبان ایک جیسی ہے تو کیا واقعی اس میں اصل مسئلہ انگریزی زبان کا ہے اور اگر واقعی مسئلہ انگریزی زبان کا ہے تو اسے دفع کریں، حکم دے دیں کہ تمام عدالتوں میں فیصلے اُردُو میں لکھے جائیں گے۔

اُردو کے نفاذ پر طویل سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ چکا مگر اُردو کا نفاذ کا فیصلہ بھی اسی طرح تعطل کا شکار ہے جس طرح سُود کے خاتمے کا۔ اس کی مخالفت بھی کوئی نہیں کرتا اوراس کو نافذ بھی کوئی نہیں کرتا۔ انگریزی اس وقت ہمارے معاشرے میں داخل ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر کا راج سنبھالا۔ انگریز نے انگریزی کو ہی رائج کرنا تھا تاکہ وہ اپنے احکام ہم تک پہنچا سکے اور غلاموں کی مجبوری تھی کہ وہ اپنے حاکموں کی بات سمجھنے کے لئے ان کی زبان سیکھیں مگر اب کیا مجبوری ہے۔

ہماری بیوروکریسی انگریزی میں تمام احکامات جاری کرتی ہے اور عدلیہ بھی اپنے فیصلے انگریزی میں لکھتی ہے مگر ہمارے حالات یہ ہیں کہ ہمارا ایک بھی انگریزی نیوز چینل نہیں ہے حتیٰ کہ سب سے بڑے اور معتبر انگریزی اخبار ڈان نے بھی اپنا نیوز چینل انگریزی سے اردو میں بدل لیا ہے کیونکہ عوام کو انگریزی کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ اس سے پہلے جیو نیوز نے بھی انگریزی میں چینل شروع کیا تھا مگر وہ بھی ناکام ہوگیا سو اب وہ ویب سائیٹ ہی انگریزی میں چلاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں فرفر انگریزی نہ بول پانے والوں کو جاہل اور احمق سمجھا جاتا مگر کیا کسی انگریز کو بھی آپ نے اس بنیاد پر جاہل سمجھا کہ اسے اردو یا ہندی نہیں آتی۔ ہم ہی کہتے ہیں کہ ہمیں مچھلیوں کے انگریزی نام بھی درست ادائیگی کے ساتھ آنے چاہئیں مگر کیا آپ نے کسی عربی یا چینی کو انگریزی نہ جاننے پر شرمندہ ہوتے دیکھا ہے۔

میں کسی وقت قائل تھا کہ بچوں کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جانے کے لئے انگریزی ضرور پڑھانی چاہئے مگر بہت سارے اہل علم نے میری غلط فہمی دور کی۔ پھر دہرا دیتا ہوں کہ اس وقت انگریزی اس لئے ضروری ہے کہ حاکموں اور فیصلوں کی زبان انگریزی ہے ورنہ جب ہم اپنے بچوں کو انگریزی میں کچھ پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں تو انہیں ایک ساتھ دو مشکلات سے دوچار کرتے ہیں یعنی پہلی مشکل کہ وہ معاملے کو سمجھیں اور دوسرے یہ کہ اس زبان کو بھی سمجھیں یا اس کا رٹا لگائیں جس سے محنت دوگنی ہوجاتی ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ سو میں سے پانچ، دس بچے تو یہ محنت کر لیتے ہیں اور چالیس، پچاس بچے باقاعدہ بھاگ جاتے ہیں۔ کون انکار کرے گا کہ میٹرک تک سکول سے بھگانے اور تعلیم میں عدم دلچسپی پیدا کرنے والا مضمون انگریزی ہے۔

میں نے ایک مرتبہ کہا کہ اس وقت طب سے تعمیرات تک تمام جدید علوم انگریزی میں ہیں لہذا ہمیں انگریزی سیکھنی چاہئے مگر میری دوسری غلط فہمی بھی اس دلیل سے دور ہوگئی کہ آپ ڈاکٹریٹ اور انجینئرنگ کی زبان اُردُو کر دیجئے اور ایک ہی برس کے اندر تمام انگریزی کتابوں کے اردو ترجمے مارکیٹ میں دستیاب نہ ہو گئے تو میرا گریبان پکڑ لیجئے گا کہ مارکیٹ اکانومی ردعمل دیتی ہے۔ جب اردو کتابوں کی طلب پیدا ہوگی تو پبلشرز راتوں رات بہترین ترجمے کروا لیں گے۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے اچھے کھاتے پیتے لوگ اپنے بچوں کو اولیولز اور اے لیولز کرواتے ہیں جس سے ان کی انگریزی بہت اچھی ہوجاتی ہے اور اسی انگریزی کی بنیاد پر وہ ایک اور ہی کلاس کا حصہ بن جاتے ہیں، وہ کلاس جو کہ میٹرک اور ایف اے کرنے والوں سے بہت مختلف ہوتی ہے اور پھر یہی کلاس نسل در نسل حکمرانی کرتی ہے۔ اس المیے کو پنجاب میں دوہرا سمجھیں کہ پنجابی اپنی مادری زبان کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہر وہ پنجابی جو چار پیسے کما لیتا ہے یا چار جماعتیں پڑھ لیتا ہے وہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں پنجابی بولنا ہی بند کر دیتا ہے۔ پہلے وہ اردو کی طرف آتا ہے اور اس کے بعد اس کا سفر انگریزی کا ہوتا ہے۔ اس ذہنی غلامی کو ایک ہی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقات کی زبان کو تبدیل کیا جائے، اسے انگریزی سے اردو میں لایا جائے کیونکہ یہ فطرت ہے کہ انسان اوپر کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمیں آپسی، معاملات میں اپنی قومی زبان کی طرف جانا ہوگا ورنہ ہم بہت ساری صلاحیتیں اور توانائیاں ضائع کرتے رہیں گے، ہاں، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے بیرون ملک جانا ہے یا ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کرنی ہے تو اس کے لئے ضرور انگریزی کو ایک زبان کے طور پر سیکھئے مگر ایسے ہی جیسے آپ چینی، ترکی، فرانسیسی یا عربی سیکھیں۔ یہ ایک اضافی معاملہ ہے مگر اسے اپنی معاشرت میں لازمی بنا دینا اپنی ننانوے فیصد آبادی کے ساتھ ظلم ہے جس نے کھیتی باڑی کرنی ہے، تجارت کرنی ہے یا حتیٰ کہ پاکستان میں پاکستانیوں پر ہی افسری اور ججی کرنی ہے۔ انگریزی کے اس بخار نے نوے فیصد سے زائد آبادی پر ترقی اور حکومت کے دروازے بند کر رکھے ہیں جو سراسر غیر آئینی ہے، سراسر انصافی ہے۔

میں اس پر ہرگز شرمندہ نہیں ہوں کہ مجھے فرفر انگریزی نہیں آتی کیونکہ میرے ماں باپ انگریز نہیں تھے بلکہ پاکستانی تھے لہذا اس وقت ضرور شرمندہ ہوں گا جب مجھے اُردو نہیں آتی ہوگی۔ اپنے والدین، اپنے معاشرے، اپنی زبان، اپنے وطن سے محبت کرنا سیکھیں اورجب آپ ان سے محبت کریں گے تو ان پر فخر بھی کریں گے۔

Check Also

Har Doctor Khuda Dost Nahi Hota

By Gul Bakhshalvi