یہ سوال لاکھوں نوجوانوں کے روزگار کا ہے
یہ بات نہیں کہ مجھے موٹرسائیکل رکشے بہت اچھے لگتے ہیں، بھلا یہ بھی کوئی اچھی لگنے والی سواری ہے، جس کی کوئی کل سیدھی ہی نہیں، سات سات بندے بٹھا لیتے ہیں، یوں بھی ہوتا ہے کہ پیچھے وزن زیادہ ہو تو آگے سے موٹرسائیکل یوں اٹھ جاتی ہے جیسے کبھی تانگوں میں جتے گھوڑے اٹھا کرتے تھے۔
بھلے وقتوں میں، جب ٹریفک بہت کم ہوا کرتی تھی، لاہور سمیت مختلف شہروں میں تانگے، ریڑھے چلا کرتے تھے مگر پھر ان کی وجہ سے ٹریفک بلاک رہنے لگی۔ تانگوں، ریڑھوں کو شہروں سے نکالا گیا تو ان کی جگہ پر موٹرسائیکل رکشے اور لوڈر آ گئے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان موٹرسائیکل رکشوں کو چلانے والے ہمارے عام سے ان پڑھ نوجوان ہیں، ہاں، کچھ پڑھے لکھے بھی ہیں جن کو کوئی نوکری نہیں ملتی۔ سرکاری طور پر اعداد وشمار جاری کئے جا رہے تھے کہ صرف لاہور میں 80ہزار موٹرسائیکل رکشے ہیں اور میرا اندازہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہوں گے یعنی کوئی لاکھ، سوا لاکھ تک۔
بات صرف لاہور ہی کی نہیں ہے، میں ضمنی انتخابات میں بہاولپور گیا تو وہاں کا بڑا مسئلہ یہی موٹرسائیکل رکشے تھے۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بچے دھڑا دھڑ پیدا ہو رہے ہیں، وہ جوان ہونے کے ساتھ ساتھ بے روزگار بھی ہو رہے ہیں۔ جب انہیں کچھ روزگار نہیں ملتا تو وہ اپنی موٹرسائیکل کی توڑ پھوڑ کروا کے اسے رکشہ بنا لیتے ہیں یا کرائے پر لیتے ہیں اور چلانا شروع کردیتے ہیں۔
میں نے دو موریہ پل کے قریب ایک چودہ پندرہ سال کے رکشہ چلاتے لڑکے کو روکا اور پوچھا کہ تم یہ خطرناک کام کیوں کر رہے ہو، تمہاری عمر بھی کم ہے اور تمہارے پاس لائسنس بھی نہیں ہوگا۔ اس کا جواب تھا کہ جب آٹا ڈیڑھ سو روپے اورگھی تین سو روپے کلو دو گے تو گھر کا خرچہ میرے کام کئے بغیر کیسے چلے گا، مجھے تو رکشہ چلانا ہی پڑے گاورنہ گھر والے کہاں سے کھائیں گے۔ ایک معاملہ اور بھی ہے اور یہ کہ لاہور میں میٹرو، اورنج لائن اور سپیڈو بس ضرور موجود ہیں مگر یہ تمام علاقوں کی تمام ضروریات پوری نہیں کرتیں۔
آپ شادباغ چلے جائیں، دوموریہ کی طرف نکل آئیں، جلو والی طرف دیکھ لیں، ملتان روڈ پر گھومیں یا چونگی امرسدھو والی سائیڈ پرلوگوں کی آمدو رفت کو دیکھیں تو یہ موٹرسائیکل رکشے دو، چار، چھ کلومیٹر تک کے لئے آپ کو مقامی سروس فراہم کرتے ہیں جس کا متبادل حکومت فراہم کرہی نہیں سکتی۔ اگر یہ موٹرسائیکل رکشے بند ہو گئے تو پھر لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑے گا سو یہ دوطرح کے مسائل ہوگئے، ایک یہ کہ یہ ڈرائیوروں کا روزگار ہے اور دوسرے یہ کہ عوام کو دستیاب بری یا بھلی ایک پبلک ٹرانسپورٹ، بھی ہے۔
پنجاب کے نگران وزیر ٹرانسپورٹ ابراہیم حسن مرادنوجوان بھی ہیں، پڑھے لکھے اور ویژنری بھی۔ میں ان کی آبزرویشن سے اتفاق کرتا ہوں کہ زیادہ تر موٹرسائیکل رکشہ ان رجسٹرڈ ہیں سو نہ ٹیکس نہ لائسنس۔ اس سے بھی اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک خطرناک سواری ہے اور دوسرے انہوں نے ہر چوک میں ٹریفک بلاک کی ہوتی ہے۔ ٹریفک بلاک ہوتی ہے، حادثات ہوتے ہیں، وقت ضائع ہوتا ہے سو پنجاب کی نگران حکومت نے تیس دنوں میں یعنی اگلا برس آنے تک لاہور سے موٹرسائیکل رکشے نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بظاہر یہ اعلان درست لگتا ہے کہ لاہور جیسے خوبصورت شہر میں یہ بدصورتی پیدا کرتے ہیں او رمسائل بھی مگر میرا سوال اس سے کچھ ہٹ کے ہے۔
میں نے وزیر ٹرانسپورٹ سے پوچھا، جب صرف لاہور میں یہ ایک لاکھ نوجوان بے روزگار ہوجائیں گے تو اس کے بعد یہ کیا کریں گے۔ چوریاں کریں گے یا ڈاکے ڈالیں گے۔ ہمارے رپورٹر عمر دراز نے اسی روز بہت سارے موٹرسائیکل رکشہ چلانے والوں سے بات کی تھی۔ وہ سب چیخ رہے تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم پاکستان میں پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جب ہمارے گھروں میں فاقے ہوں گے تو اس کے بعدلوٹ مار ہی کر یں گے، ہم روزانہ تھانوں میں ہوں گے اور اس کے بعد وہ ہمیں جان سے ماریں گے یا ہم انہیں۔ میں ان کی جذباتیت اور تکلیف کو محسوس کر سکتا ہوں، آپ بھی ایسا کرنے کی کوشش کیجئے کہ ایک بندے کا روزگار جا رہا ہو اوراس کے پاس کوئی متبادل بھی نہ ہو تو وہ کیا کرے گا۔ چیخے چلائے گا، شور مچائے گا، گریبان پکڑے گا، مارے گا یا مرجائے گا۔
میرا سوال تھا آپ شائع شدہ خبروں کے مطابق موٹرسائیکل رکشے بند کرنے جا رہے ہیں، میرے اندازے کے مطابق صوبے بھر میں کسی طور پر یہ پچیس لاکھ سے کم نہ ہوں گے اور پھر ان کے ساتھ جڑے ہوئے مکینک اور دوسرے لوگ، یعنی پچیس لاکھ سے کہیں زیادہ خاندان۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ موٹرسائیکل رکشوں کوبند نہیں کرنے جا رہے مگر ان کے پاس بتانے کے کچھ نکات تھے۔ پہلانکتہ یہ تھا کہ رکشے ان رجسٹرڈ چل رہے ہیں، کوئی حکومت غیر قانونی گاڑیوں کی نقل وحرکت کی اجازت نہیں دے سکتی، انہیں بہرحال رجسٹریشن کروانی ہوگی اور لائسنس بنوانے ہوں گے کیونکہ حکومت لائسنس پر سختی کر رہی ہے۔
دوسرے ان کی اکثریت غیر محفوظ ہے اور انہیں وکس، فٹنس سرٹیفکیٹ لینے ہوں گے۔ پنجاب موٹروہیکلز آرڈیننس اور موٹر وہیکل رولز کے مطابق تمام قسم کی پبلک سروس وہیکلزکوہر چھ ماہ کے بعد یہ سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہے۔ میرا یہ کہنا تھا کہ ایک اس عمل میں رشوت کو داخل نہ ہونے دیا جائے اور دوسرے ہمارے موٹرسائیکل رکشے زیادہ سخت قوانین پر پورے نہیں اتر سکتے تو اس کے جواب میں انہوں نے عندیہ دیا کہ ان رکشوں کے لئے شرائط میں نرمی بھی ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معیاری اور غیر معیاری رکشوں کی قیمت میں تیس، پینتیس ہزار روپوں کا ہی فرق ہے اوراس کے لئے حکومت سافٹ لون کی فراہمی پر بھی غور کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت سب سے پہلے ان مینوفیکچررز پر کریک ڈاون کر رہی ہے جو بغیر کسی محفوظ ڈیزائن کے محض آلٹریشن کرکے موٹرسائیکل رکشے تیار کر رہے ہیں۔ میں نے عوامی رکشہ یونین کے چیئرمین مجید غوری سے بھی پوچھا، انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم رکشہ ڈرائیوروں کی ٹریننگ کے لئے تیار ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ ان موٹرسائیکل رکشوں کی لیگل پوزیشن اور سیفٹی کے مسائل کودرست کرے لیکن انہیں بند کرنا بہت سارے دوسرے مسائل پیدا کر دے گا۔ اگر حکومت فوری طور پر سافٹ لون کی سکیم کا اعلان کرے، رجسٹرڈ مینوفیکچررز معیاری اور خوبصورت رکشے فراہم کریں تواس مسئلے کو کافی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔
میرے لئے یہ اعلان ہی کافی ہے کہ حکومت ان موٹرسائیکل رکشوں کو بند نہیں کر رہی اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ایک مہینے تک موٹرسائیکل رکشوں کی مفت رجسٹریشن کی بھی سہولت دے دی ہے لہٰذا میری موٹرسائیکل رکشہ چلانے والے دوستوں اور ان کی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ قانونی اور حفاظتی تقاضے پورے کریں، ان دونوں حوالوں سے سختی ہرگز غلط نہیں ہے۔