وزیر اعظم محسن نقوی
پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی، جن کی وزارت اعلیٰ صرف بیس دن بعد ایک برس مکمل کر لے گی، محسن سپیڈ کے لقب سے مشہور ہو چکے۔ اس سے پہلے شہباز سپیڈ مشہور تھی جس کی چین سے ترکی تک دھوم تھی مگریہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ محسن سپیڈ نے شہباز سپیڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس بات نے اس وقت مزید زور پکڑا جب ایک تقریب میں شہباز شریف نے خود اس کا اعتراف کیا اور اب وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس پر رشک یا جلن کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے اپنے اخبار نے اسے رشک رپورٹ کیا ہے اور ہم نے جلن۔
میرے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب ایک بڑے تاجر رہنما نے مجھے کہا کہ محسن نقوی اگلا وزیر اعظم ہے۔ میں نے پوچھا، کیسے، وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے، جواب میں انہوں نے اپنی آنکھیں گھمائیں، ایک پراسرار مسکراہٹ چہرے پر لائے، بولے، دیکھ لینا، عام انتخابات کے بعد سب ہو جائے گا۔ میں پاکستان میں سب ہو جانے کے فارمولے سے ناواقف نہیں ہوں۔ تھوڑا کہا بہت جانئے، پنجاب کے محسن کے مقتدر حلقوں سے تعلقات اچھے نہیں بلکہ بہت، بہت اچھے ہیں۔ اس سے نالاں، اس کے بدخواہ صرف وہ ہیں جو بدنیت، بدخو، بداخلاق، نااہل، نالائق اور نکمے ہیں، جو صرف کرپشن کرنا جانتے ہیں یا گالی دینا، موخرالذکر بھی بدترین سیاسی اور سماجی کرپشن ہے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ محسن نقوی نے ایسی ترقی کی ہے جو کسی کا بھی خواب ہو سکتی ہے لیکن بہت ساروں کو یہ علم کیا گمان بھی نہیں تھا کہ بہترین روایات اور عادات کا حامل یہ نرم دم گفتگو نوجوان ایسا گرم دم جستجو ہے کہ یہ اپنی چند ماہ کی ایڈمنسٹریشن میں آدھے پاکستان کا چہرہ بدل کے رکھ دے گا، بلاشبہ لاہور پنجاب کا چہرہ ہے۔
میں نے کہا کہ مقتدر حلقوں سے محسن نقوی کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور وہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو بہت سارے پوچھیں گے کہ کیا آپ ان کے لائے پہلے وزیراعظموں سے مطمئن ہیں تو میرا جواب ہے، ہاں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، فوج نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جس نوجوان کا انتخاب کیا تھا وہ چاکلیٹی ہیرو تھا، آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ تھا، تقریر کا فن اور لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا جانتا تھا۔ تب سوشلزم کی دھوم تھی اور وہ سندھ کا فیوڈل لارڈ ہونے کے باوجود غریبوں کی بات کرتا تھا۔
میں جس خوبی پر زور دینا چاہ رہا ہوں وہ اس کی جدت پسندی تھی۔ یہی وہ دور ہے جس کا حوالہ جنرل عاصم منیر بھی دیتے ہیں کہ اس میں برق رفتار زرعی اور اقتصادی ترقی ہو رہی تھی۔ ہم سب اب مادر ملت فاطمہ علی جناح کے ساتھ ہیں مگر اس کے باوجود ایوب دور کی ترقی سے انکار نہیں کر سکتے۔ فوج کا دوسرا چناؤ لاہور کا صنعتکار محمد نواز شریف تھا حالانکہ وہ دور ضیاء الحق مرحوم کی رجعت پسندی کا تھا مگر ایک فیوڈل لارڈ کی پارٹی کے مقابلے میں ایک تاجر کا چناؤ جدت پسندی ہی تھی۔ وہ صنعتکار نوجوان اور اس کا چھوٹا بھائی دنیا کی جدیدیت سے بھرپور آگاہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بھی انڈسٹریلائزیشن اور موٹرویز جیسے تحفے دئیے۔
فوج کا تیسرا انتخاب پھر آکسفورڈ کا پڑھا ایک کھلاڑی تھا۔ ایک تاجر کے مقابلے میں ورلڈ کپ جیتنے والے کرکٹر کا چناؤ کسی طور پر بھی برا نہیں تھا مگر یہاں فروگذاشت یہ ہوئی کہ وہ صرف ورلڈ کپ جیتنے والا کھلاڑی نہیں تھا بلکہ اس کی شہرت پلے بوائے کی بھی تھی۔ سو اگر آپ مجھ سے مکالمہ کریں گے تو میں ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہوں فوج نے کبھی غلط بندے کا چناؤ نہیں کیا۔ وہ بہترین چوائس کو لے کر آئی اور پھر وہ چوائس ہی عوام کی چوائس ٹھہری جیسے بھٹو، نواز اور پھر عمران۔
بہت سارے لوگ سوال کرتے ہیں کہ محسن نقوی اتنا کام کیوں کر رہے ہیں بلکہ وہ سوال کرتے ہیں کہ وہ کام ہی کیوں کر رہے ہیں کہ وہ تو انتخابات کروانے کے لئے آئے ہیں، انتخابات کروائیں اور واپس جائیں مگر شائد وہ محسن نقوی کی انوویٹیو نیچر، کو نہیں جانتے۔ وہ ہر وقت کچھ نیا کرنے کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ان کے وزیراعلیٰ بننے پر بی بی سی نے رپورٹ کیا، جھنگ کے سید گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید محسن نقوی لاہور میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے کریسنٹ ماڈل سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ کی اوہائیو یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں سے صحافت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد امریکی نیوز چینل سی این این میں انٹرن شپ کی۔ سی این این نے انہیں بطور پرڈیوسر پاکستان کی کوریج کے لیے بھیجا جہاں ترقی پا کر انہوں نے کم عمری میں ہی ریجنل ہیڈ ساؤتھ ایشیا، بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
یہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ وار آن ٹیرر، کا دور تھا جس کی رپورٹنگ کوئی آسان نہیں تھی مگر محسن نقوی نے کارکردگی کے سب ریکارڈ توڑ دئیے اور پھر وہاں نہیں رُکے بلکہ 2009ء میں محض 31 برس کی عمر میں سٹی نیوز نیٹ ورک کی بنیاد رکھی (جس کا میں بھی حصہ تھا) اور صحافت کے پیشے میں اپنا سکہ جمایا۔ بعد میں قومی سطح کی خبروں کے لیے 24 نیوز، فیصل آباد کے لیے سٹی 41، جنوبی پنجاب کے لیے روہی ٹی وی کراچی کے لیے سٹی 21 اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے یو کے 44، نامی چینلز بنائے، لاہور کے روزنامے ڈیلی سٹی 42، کا بھی آغاز کیا۔
بی بی سی کہتا ہے کہ میڈیا چینل کے مالک ہونے کے طور پر ان کی شہرت ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا خیال رکھتے ہیں اور انہیں بہتر مواقع دینے کی کوشش کرتے ہیں اورمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ گواہی بھی دیتا ہوں کہ وہ نرم دل ہیں، منطقی ہیں، حق بات پر ڈٹ جاتے ہیں۔
بہت سارے لوگ سوشل میڈیا پر یہ سمجھتے ہیں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہی کامیابی کی ضمانت ہے اور میں اس کے برعکس اسے ناکامی کی گارنٹی سمجھتا ہوں۔ ہماری فوج مین ایٹ دئیر بیسٹ، کے نعرے کے ساتھ بہت زیادہ پروفیشنل ہے، انوویٹیو ہے، انرجیٹک ہے، ویژنری ہے اور ایسے ہی لوگ پسند آتے ہیں۔ پاکستان کی ایک سٹریٹیجک پوزیشن ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کے سیکورٹی سمیت دیگرامور میں اہمیت کی نفی نہیں کی جا سکتی سو پاکستان کی حکمرانی ایسے بندے کو ہی مل سکتی ہے یا ملنی چاہئے جو ان تقاضوں کو سمجھتا ہوں، ان پر پورا اترتا ہو۔
محسن نقوی نے سڑکوں سے ہسپتالوں تک جو تعمیر و ترقی کی مثال قائم کی ہے اور جس طرح عوامی مسائل کے حل کے لئے سامنے آئے ہیں اکیسویں صدی میں ترقی کی طرف بڑھتے پاکستان کو ایک ایسے ہی ایڈمنسٹریٹر اور مسائل کے شکار عوام کو ایسے ہی ان تھک وزیر اعظم کی ضرورت ہے۔ ان کی گیارہ ماہ میں وہ بنیاد بنی ہے جس پر کامیابی کی ایک نئی شاندارعمارت تعمیر ہوسکتی ہے۔ آپ پھر پوچھیں گے کہ محسن نقوی پاکستان کے وزیر اعظم کیسے بن سکتے ہیں تومیں اپنے دوست تاجر رہنما کی طرح نظریں گھمائوں گا، مسکرائوں گا اورکہوں گا بس دیکھتے جائو، وقت کا انتظار کرو۔