ووٹ کی عزت کیا ہے؟
سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ، شاعر عاطف توقیر نے مسلم لیگ نون کے لاہور کے بلاول بھٹو کے مقابلے میں امیدوار عطاء اللہ تارڑ پر طنز کیا، کہا، عطا بھائی، وہ ووٹ کو عزت دو والا گانا نہیں چلاتے ان دنوں؟ سنا نہیں بہت عرصے سے۔ کسی روز چلا ہی دیں۔ ، مسلم لیگ نون کو آج کل اس حوالے سے خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا جا تا ہے اور اس میں بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں حالانکہ یہ وہی بلاول بھٹو زرداری ہیں جن کے والد نے پی ڈی ایم کی میٹنگ میں کہہ دیا تھا کہ ان سے کوئی امید نہ رکھی جائے کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے۔
جی ہاں، اسی پیپلزپارٹی کے سربراہ ہیں جس نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر پہلے سینیٹ پھر چئیرمین سینیٹ کے الیکشن اغواء کئے تھے اور جمہوری قوتوں کو شکست دے کر ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگائے تھے، وہی پیپلزپارٹی جس نے پراجیکٹ عمران کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے پہلے مہرے کا کردارادا کیا تھا اور بلوچستان کی نواز لیگ کی حکومت ختم کی تھی۔ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی، بے نظیر بھٹو کے این آر او لینے تک اور ذوالفقار علی بھٹو کے آمریت کے آٹھ سال تک وزیر ہونے تک۔ یہاں تک نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے اس وقت کے عمران خان بن کے پاکستان توڑنے تک۔ جانے دیجئے، بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔
میں نے سوچا، یہ ووٹ کو عزت کیا ہے۔ ووٹ بنیادی طور پر وہ شے ہے جو ووٹر سے جڑی ہوئی ہے۔ ووٹ بے جان ہوتا ہے جبکہ ووٹر جاندار ہوتا ہے۔ لہٰذاووٹ کی اصل عزت ووٹر کی عزت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ حکومتوں، فوجوں، عدالتوں اور افسروں وغیروں وغیروں کو بھی ووٹر کو عزت دینی چاہئے۔ ایک اور کنفیوژن شروع میں ہی دور کر لیجئے کہ ووٹ کو عزت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی فوج کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق کہیں، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہائوس پر حملے کر دیں، شہداء کی یادگاریں شہید کریں۔
ووٹ کو عزت دو کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کے منہ کو لگا م ہی نہ ہو، جو آپ چاہیں کہتے، جو چاہیں کرتے پھریں، یہ ووٹ کو عزت نہیں بلکہ خود سری ہے۔ یہ آزادی بھی نہیں بلکہ مادر پدر آزادی ہے اور کسی بھی ریاست میں مادر پدر آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جتنی بڑی آزادی ہوتی ہے اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی ذمے داری بندھی ہوتی ہے۔ مجھے آپ کے گھر کے جانے کی آزادی ہے تو میری ذمے داری ہے کہ آپ کی خواتین کی عزت کروں، ان کے سامنے نظریں جھکا کے رکھوں۔ پرانی مثال دُوں، آپ کو ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے مگر وہ ہاتھ میری ناک کو چھوئے، یہ آزادی نہیں حملہ ہے۔
بات سمجھ آ رہی ہے یا نہیں۔ ووٹ کو عزت دینا اصل میں ووٹر کو عزت دینا ہے کیونکہ ووٹر کے بغیر ووٹ کا کوئی وجود نہیں ہے اور ووٹر کو عزت دینا کیا ہے۔ میں ایک ووٹر ہوں اور مجھے اپنے ووٹ کے بدلے میں اپنے شہر میں اورنج لائن، میٹرو بس اور سپیڈو جیسی پبلک ٹرانسپورٹ ملتی ہے تو یہ میرے ووٹ کو عزت ہے، مجھے بطور ووٹر عزت ہے۔ ایک ووٹر کے بچوں کو دانش سکول ملتے ہیں، اس کے بچوں کو میرٹ پر لیپ ٹاپ ملتے ہیں تو یہ بھی اس کی عزت ہے۔ ایک ووٹر کی گلی پکی ہوتی ہے اور اسے دوسرے شہر جانے کے لئے موٹر وے ملتی ہے تو یہ بھی ووٹر ہی کی عزت ہے۔
میں ایک ووٹر ہوں اور اگر میرے ووٹ کے جواب میں مجھ پر بزدار جیسی بدبودار حکمرانی مسلط نہیں کی جاتی، گوگیوں کی کرپشن کو تحفظ نہیں دیا جاتا تو یہی میرے ووٹ کی عزت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پی ٹی آئی نے آدھے سے زیادہ پاکستان میں ملنے والے ووٹوں کی بدترین توہین کی جب اس نے تاریخ کی بدترین حکمرانی اس پر عذاب کی طرح نازل کی۔ یہ ووٹ کی تذلیل تھی کہ ووٹر کے شہر کے سڑکوں پر گڑھے تھے، گلیاں اور محلے کچر ا کنڈی بنے ہوئے تھے۔ اگر آپ کو ووٹ کو عزت دینے کی فلاسفی سمجھ آ گئی ہو تو ٹھیک، ورنہ مجھے مزید سمجھانے میں بھی عار نہیں۔
میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ووٹ کو عزت کیا ہے۔ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ جسے ووٹ ملیں وہ ملک سے پرویز مشرف کے دور سے عذاب بن جانے والی دہشت گردی کو آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ختم کرے اور بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کو اپنی محنت اور کوشش سے زیرو پر لے کر آئے۔ ووٹ کی عزت یہ نہیں کہ بیرون ملک سے دہشت گردوں اور جنگجوئوں کو واپس لایا جائے اور ووٹ کی عزت یہ بھی نہیں کہ پانچ سو ارب کے گردشی قرضے کو پچیس سو ارب پر لے جایا جائے۔ ملکی قرضوں میں تین برسوں میں ستر برس میں لئے ہوئے قرض کا ستر فیصد بڑھا دیا جائے۔ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ میرے ملک میں گوادر پورٹ بنے، سی پیک آئے، ان دونوں کا بننا ووٹ کی عزت ہے ان دونوں کا رکنا نہیں۔
میرا ملک دنیا کی بیس بہترین معیشتوں میں شامل ہونے جا رہا ہو، جی ڈی پی چھ فیصد تک پہنچ رہی ہو، مہنگائی ستر برس کی کم ترین شرح پر آ چکی ہو، پاکستان کا ایک برس میں کرپشن پرسیشن انڈیکس دس دس درجے کم ہونا ووٹ کو عزت ہے، اس میں دس دس درجے اضافہ ووٹ کو عزت نہیں ہے۔ اب بھی نہیں سمجھے کہ ووٹ کی عزت کیا ہے تو پاکستانیوں کے ووٹ کی عزت یہ ہے کہ اس کے دشمن ملک کا انتہا پسند وزیراعظم بس پر بیٹھ کر لاہور آجائے اور مینار پاکستان پر جا کے کہے کہ پاکستان اس کی مہر سے نہیں چلتا۔
اس کا لاہور کے گورنر ہاوس میں اعلان لاہور کرنا اور مسئلہ کشمیر باہمی رضامندی سے حل کرنے کا اعلان کرنا ہی ووٹ کی عزت ہے۔ میرے مقبوضہ کشمیر کا بھارت کی طرف سے اٹوٹ انگ بنا لینا اوراس کے جواب میں کچھ نااہلوں، نکموں اور نالائقوں کا ہرجمعے کو دھوپ میں آدھا آدھا گھنٹہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہونا ہرگز ووٹ کی عزت نہیں ہے۔ ترکی، سعودی عرب، چین، ایران جیسے دوستوں میں پاکستان کی عزت ہونا ہی ووٹ کی عزت ہے کیونکہ ووٹ ووٹر سے جڑا ہوا ہے اورووٹر ہی اصل پاکستان ہے۔
وہسنے، جسے سننا اور سمجھنا ہے، جس کا دماغ بند نہیں ہے، جس کے دل پر مہر نہیں ہے، سینہ جہالت، منہ گالی سے بھرا نہیں ہے۔ اپنی فوج اور اپنی عدلیہ کے ساتھ آئین، قانون اور جمہوریت پر اکٹھے ہونا ہی ووٹ کی عزت ہے۔ اپنے اداروں سے برسرپیکار ہونا اور نو مئی جیسے بلنڈر کرنا ہرگز ووٹ کی عزت نہیں ہے۔ ووٹ کی عزت تہذیب اور اخلاقیات میں ہے، جھوٹ، بدتمیزی اور یوٹرن میں نہیں ہے۔
کاش ہمارے دانشور اور سیاستدان یہ سمجھیں کہ میری اور آپکی عزت، سہولت اور خوشحالی ہی ووٹ کی عزت ہے، پاکستان کا استحکام اور ترقی ہی ووٹ کی عزت ہے۔ آپ اسے چند بڑھکوں، دعووں، نعروں، گالیوں اور لڑائیوں میں ڈھونڈ رہے ہیں، چہ عجب!