تہمینہ دولتانہ کو ٹکٹ نہیں ملی
مسلم لیگ نون میں نظرئیے، کمٹ منٹ، وفاداری اورمیرٹ کی موت پر پُرسہ قبول فرمائیے۔ ویسے بھی یہ جماعت کنگز پارٹی نہیں بنی بلکہ مکمل طور پر بادشاہوں کی جماعت بن چکی ہے۔ کبھی روایت تھی کہ سینئر صحافیوں کو پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں وغیرہ میں بطور مبصر بلایا جاتا تھا مگر اب ایسی بھی کوئی حرکت نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ نواز شریف جب سے وطن واپس لوٹے ہیں کن صحافیوں کو ملے ہیں کیونکہ مجھے بالمشافہ سننے کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہ بات نہیں کہ نواز شریف کو سننے والوں کو پھلوں کے ٹوکرے بھیجے جاتے ہیں کیونکہ میرا تجربہ اس سے بالکل سو فیصد مختلف ہے۔ پھلوں کے ٹوکرے تب جاتے ہیں جب آپ اس پارٹی کی قیادت پر ٹکا کے تنقید کرتے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف پر حملے کرنے والے ہی پھلوں کے ٹوکرے وصول پاتے ہیں۔
میں نوے کی دہائی کے آخری حصے میں چلا گیا ہوں۔ اس زمانے کے میرے کئی ساتھی، کارکن صحافی دنیا سے رخصت ہوچکے جیسے اشرف ممتاز اورخواجہ فرخ سعید۔ ہم سب نے بیگم کلثوم نواز کو پرویز مشرف کے خلاف ایسی دھواں دھار جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا کہ اس آمر مطلق کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ ہی نہیں رہا کہ وہ نواز شریف کو خاندان سمیت جلاوطن کردے۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے بطور چیف رپورٹر روزنامہ دن اس وقت کے چیف سیکرٹری کا ایک انٹرویو کیا، انہوں نے کہا مسلم لیگ نون میں دو ہی مرد ہیں، ایک کلثوم نواز اور دوسرا تہمینہ دولتانہ۔ یہ وہ وقت تھا جب لاہور کے آرائیوں کی شان میاں اجو، پنڈی کا مبینہ اصلی اور نسلی شیخ، گجرات کے چودھری تک پیٹھ دکھا چکے تھے تو بیگم کلثوم نواز کے ساتھ تہمینہ دولتانہ ہی ہوتی تھیں۔ اب تو ایک سو اسی ایچ ماڈل ٹاون میں نئی شاندار عمارت بن گئی مگر تب بھی باہر والا لان اسی طرح ہوا کرتا تھا۔
میاں نواز شریف جو اٹک جیل میں ہواکرتے ان کی طرح بیگم کلثوم نواز بھی کارکنوں سے ہر ہفتے اسی لان میں ملاقات کیا کرتی تھیں جسے مجلس تحفظ پاکستان کا نام دیا جاتا تھا۔ پھر وہ تحفظ پاکستان مارچ ہوا تھا جسے غلام حسین شاہد جیسے نظریاتی کارکن نے یوتھ ونگ کے پلیٹ فارم سے ارینج کیا تھا اور اسی دوران وہ واقعہ جب پرویز مشرف کی انتطامیہ نے لاہور کی نہر پر مسلم لیگ نون کے دونوں مردوں، کی گاڑی کو لفٹر سے اٹھا لیا تھا اور دس، بارہ گھنٹے جی او آر میں گاڑی کو قید رکھا تھا۔
وقت گزر جاتا ہے مگر کچھ لوگوں کے لہو میں وفاداری اس کا رنگ بن کے دوڑتی ہے اور تہمینہ دولتانہ اس کی بڑی مثال ہیں۔ میری ان سے پچھلے دس بارہ برسوں میں ان برسوں سے آدھی سے بھی کم ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ ضرور ہوا کہ کچھ نئے چہرے آ گئے مگر تہمینہ دولتانہ کو میں نے اچھے اور برے وقت میں ساتھ نبھاتے ہوئے ہی دیکھا۔ ابھی کچھ دن پہلے خبر آئی کہ ان کی پارلیمانی بورڈ میں مریم نواز سے کچھ سخت کلمات کا تبادلہ ہوا ہے۔ میں امید کر رہا تھا کہ مریم نواز کی طرف سے وضاحت آئے گی کہ وہ ان کی والدہ کی دوست، ساتھی ہیں، ان کی والدہ کی طرح ہیں مگر پھر ٹیکرز میں وضاحت بھی تہمینہ دولتانہ ہی کی طرف سے آئی۔
مجھے اس پر اس لئے افسوس ہوا کہ میں نواز شریف اور ان کی فیملی کو عمران خان کی طرح ہرگز نہیں سمجھتا۔ نواز شریف خاندانی تہذیب اور رکھ رکھاو والے ہیں۔ ان کے دور کے ترقیاتی کاموں کے علاوہ ان کی حمایت کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ ایک بہت بڑا چکر یہ دیا جا رہا ہے کہ انہیں صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشست پر ٹکٹ دیا گیا ہے اور وہ تیسرے نمبر پر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے صوبائی اسمبلی کے کاغذات جمع کروائے اور ٹکٹ اپلائی کیا۔ وہ وہاڑی سے الیکشن لڑنا چاہتی تھیں۔ اب اگر ان کے کاغذات ہی نہیں ہیں تو اس ٹکٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ویسے بھی تہمینہ دولتانہ کا مقام اور مرتبہ کسی طور پر بھی ایم پی اے والا نہیں ہے۔
میں مانتا ہوں کہ مسلم لیگ نون کو اس وقت سیٹوں کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہا جا رہاہے کہ مسلم لیگ نون وہاڑی میں دو گروپوں میں تقسیم ہے تو کیا ا س کا مطلب یہ ہے کہ پرویز مشرف کے بعد عمران خان کی آمریت میں بھی ساتھ نبھانے والوں کو جھنڈی دکھا دی جائے؟ تکلف برطرف، کیا باقی لوگوں نے میرٹ پر جیتنا ہے۔ جیسے انہوں نے جیتنا ہے ویسے ہی تہمینہ دولتانہ بھی جیت جاتیں جیسے عمران خان کے ساتھی آ ج سے پانچ برس پہلے جیتے تھے۔
مجھے مسلم لیگ نون کی ٹکٹوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر خبریں واقعی بہت دلچسپ آ رہی ہیں جیسے طلال چوہدری پانچ برس کی نااہلی کاٹنے کے بعد بھی ٹکٹ نہ ملنے کی خبروں میں ان رہے اور اس کے بعد سب سے پرجوش اور گرماگرم مقدمہ لڑنے والے، پی ٹی آئی کو اسی کے لہجے میں تگڑا جواب دینے والے عطاء اللہ تارڑ کے بارے بھی یہی کہا گیا مگر طلال اور عطا دونوں جوان ہیں، تگڑے مرد ہیں اور جب ایک پارٹی سو فیصد جیتنے والی پوزیشن میں ہوتی ہے تو اپنے تگڑے کھلاڑیوں کو کسی بھی دوسری پوزیشن پر اکاموڈیٹ کر لیتی ہے۔
ایک تضاد کو سمجھئے، نواز شریف کا سب سے بدترین سیاسی مخالف جو اس وقت ہر جگہ سے مار کھا رہا ہے اور کمزور ہو رہا ہے مگر ایک جگہ اب بھی ان سے تگڑا ہے اور وہ ہے میڈیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے میڈیا کے پلئیرز کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں مگر مسلم لیگ نون کا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ ایک تو خود بیانیہ دینے، بنانے بارے فارغ ہیں تو دوسرے اپنے تگڑے بولتے مجاہدوں کو خود ہی ذلیل اور شرمندہ کرکے رکھ دیتے ہیں کہ چلو اب صفائیاں دیتے پھرو۔ بانی پی ٹی آئی کے میڈیا کے لوگوں سے تعلقا ت تو ایک طرف رہے صر ف لاہور میں ہی ان کے 64 کے لگ بھگ ترجمان تھے اور ان ترجمانوں سے ان کی پے در پے ملاقاتیں ہوتی تھیں مگر دوسری طرف نواز لیگ ہے کہ وہ اپنے بولنے والوں کے بھی پر کتر رہی ہے، ان کی زبانوں پر چھالے ڈال رہی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ نواز شریف عوا م میں واقعی مقبول ہوں اور لاہور والا سروے بھی سو فیصد درست ہو مگر ان کی حالت روایتی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ٹھس ہے۔ وہ پروفیشنل لوگ جو میڈیا میں ان کا مقدمہ لڑتے ہیں، 21 اکتوبر سے آج تک ان سے ملاقات تک نہیں کی لیکن اگر ان کی جگہ عمران خان کو آج جیل سے نکال دیا جائے تو اس کا کم از کم آدھا وقت میڈیا کے لئے ہوگا مگر دوسری طرف ماڈل ٹاؤن سے آنے والی اطلاعات، وہ جان قربان کرنے کی حد تک ساتھ دینے والی تہمینہ بی بی کو ٹکٹ نہ دینا ہو یا لیگی لیڈروں کی جان لینے تک کے حالات پیدا کرنے والی انوشہ بی بی کو ٹکٹ دینا، وہاں بادشاہت آ چکی ہے۔