سقوطِ کشمیر کے چار مجرم
شریکے، میں یہی ہوتا ہے کہ زمین پر قبضہ اسی کا ہوتا ہے جو زیادہ تگڑا ہوتا ہے، جس کی پنڈ میں زیادہ سنی جاتی ہے، جو تھانے کچہری میں زیادہ چست، زیادہ چالاک ہوتاہے۔ جب تک دونوں فریق تگڑے ہوتے ہیں وہ لڑائی بھی کرتے ہیں اور بات چیت کے ذریعے تنازع حل کرنے کی باتیں بھی لیکن جیسے ہی ایک فریق کمزور پڑتا ہے، اس کا پانی روک لیا جاتا ہے، اس کے ڈھور ڈنگر پکڑ لئے جاتے ہیں، اس کی فصل کاٹ کر لی جاتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947 سے شریکا چلا آ رہا ہے۔ کانگریس کے جواہر لعل نہرو سے لے کر بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی اور نریندرا مودی تک نے کشمیر کا اس وقت تک باہمی مشاورت سے حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا جب تک ان کے خیال میں پاکستان تگڑا تھا، مقابلہ کر سکتا تھا، چار یار دوست بلا سکتا تھا، مُکا مار کے دانت بھی توڑ سکتا تھا۔
کشمیر پر ہم نے جنگیں بھی لڑی ہیں اور شملے سمیت معاہدے بھی کئے ہیں۔ میں چشم دید گواہ ہوں، میں دن، اخبار کا چیف رپورٹر تھا جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں بیٹھ کے پاکستان آئے تھے۔ میری مینار پاکستان ان کے ساتھ آئے ہوئے ان کے وزیر خارجہ سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور پھر رات کو گورنر ہاؤس میں ایک پرتکلف ڈنر میں ہونے والے اعلانِ لاہور، میں بھارت کے وزیر اعظم نے پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی دستاویز پر دستخط کئے تھے۔ اسی بھارتی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اس کی مہر سے نہیں چلتا مگر پھر کارگل ہوگیا تھا جس نے سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔
مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی ہم کمزور نہیں تھے۔ چناب فارمولے سمیت مسئلہ کشمیر کوحل کرنے کے کئی طریقے سامنے آتے تھے مگر سب کے سب باہمی نوعیت کے تھے یعنی پاکستان اور بھارت کے اتفاق کے ساتھ۔ آصف علی زرداری کے پہلے اور نواز شریف کے تیسرے دور تک بھی معاملہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ نواز شریف کے دور میں پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ یہ کچھ ہی عرصے میں جی ٹوئنٹی کا رکن ہوگا یعنی دنیا کی بیس بہترین معیشتوں میں سے ایک۔
اس کی جی ڈی پی گروتھ سے سٹاک ایکسچینج میں اضافے تک سب کچھ قابل اطمینان تھا۔ دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ ختم ہو رہی تھی۔ موٹرویز اور میٹروز بن رہی تھیں۔ سی پیک ایک خواب سے حقیقت میں ڈھل رہا تھا۔ پاکستان کے چین، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای سمیت دنیا کے بیشتر ممالک سے بہترین تعلقات چل رہے تھے کہ عمران پراجیکٹ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔
یہ 5 اگست 2019 کا سیاہ دن تھا۔ پاکستان میں قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید اپنے پسندیدہ پلے بوائے عمران خان کو ایک برس پہلے ہونے والے انتخابات ہائی جیک کرکے وزارت عظمیٰ پر بٹھا چکے تھے اور صرف اس ایک برس میں پاکستان دنیا میں تنہا ہوچکا تھا۔ اب ہم واپس اسی شریکے کی طرف آتے ہیں۔ وہی نریندرمودی جو افغانستان سے اپنے جہاز کا رخ اچانک پاکستان کیطرف موڑ لیتا تھا اور بغیر کسی پیشگی پروگرام کے لاہور پہنچ جاتا تھا اور اسے اپنی خیرسگالی کے طور پر پیش کرتا تھا۔ اسی مودی نے شریکے میں دیکھا کہ اس کا دشمن کمزور ہو رہا ہے۔ اس کے دانے مُک رہے ہیں۔
اس کے یار دوست اسے چھوڑ رہے ہیں اور اب اگر وہ متنازع زمین پر قبضہ کرے گا تو اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ مُودی ہر خوف سے آزاد ہو چکا تھا۔ میں دو روز پہلے بھارتی سپریم کورٹ کے دئیے ہوئے فیصلے پر ہرگز حیران نہیں ہوں۔ کسی بھی ملک کی عدالتیں اسی ملک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ بھارت کا مفاد اسی میں ہے وہ کشمیر پر قبضہ کرے جبکہ ہمارا مفاد اس میں ہے کہ اس کی متنازع حیثیت بھارتی آئین میں بھی برقرار رہے تاکہ ہم استصواب رائے کی اس منزل تک پہنچ سکیں جس کا وعدہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں میں بھارت نے کر رکھا ہے۔
بہت سارے کہتے ہیں کہ عمران خان کا کیا قصور اور میں کہتا ہوں کہ کسی بھی سقوط کا ذمہ دار اس وقت کا حکمران ہی ہوتا ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر فصلیں اچھی نہ ہو رہی ہوں اور کارخانوں میں چلتے ہوئے پہئے رک رہے ہوں تواس کی ذمہ داری بھی حاکمِ وقت پر ہی آتی ہے دوسری طرف اچھا حاکم رحمت اور برکت لے کر آتا ہے۔ حکایات سعدی بتاتی ہیں کہ اناروں میں اسی وقت رس کم ہو جاتا ہے جب ایک حکمران بدنیت ہو جاتا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کا ذمہ داریحییٰ خان ہے تو پھر ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ سقوط کشمیر کا ذمہ دار عمران خان ہے۔
مُودی نے درست اندازہ لگایا کہ اس کے شریک، کچھ نہیں کرسکیں گے۔ وہ اس تمثیل کی طرح ہوں گے جس میں ایک بندر کو شیر کی جگہ جنگل کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ جب جنگل میں تنازع پیدا ہوا تو وہ ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ اسی طرح اس وقت کے حاکم نے کہا کہ دشمن نے ہماری شہ رگ پر قبضہ کر لیا ہے اب تم سب ہر ہفتے آدھا گھنٹہ دھوپ میں کھڑا ہوا کرو۔ مجھے نہیں علم کہ وہ اس کے ذریعے کشمیر حاصل کرنا چاہتا تھا یامحض وٹامن ڈی، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ سے او آئی سی تک ہر جگہ ناکام رہا۔
سقوط کشمیر پر بھی ایک کمیشن بنایا جائے جس میں اس وقت کے فیصلہ سازوں یعنی عمران خان، شاہ محمود قریشی، قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کو طلب کیا جائے۔ ان پر سقوط ڈھاکہ کے بعد مملکت خداداد کے دوسرے بڑے نقصان کی فرد جرم عائد کی جائے کیونکہ عمران پراجیکٹ کو لانچ کرنے اور اس کے ذریعے آنے والوں نے پاکستان کی سماجی اور معاشی تباہی ہی نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی جدوجہدا ور قربانیوں کو بھی تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے بعد وہاں کی سپریم کورٹ نے مودی اور وہاں کی اس جیسی ہٹ دھرم حکومتوں کو جواز فراہم کر دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کے بار بار کے وعدوں سے بھی مکر جائیں۔ ایک نااہل اور کمزور حکومت نے مسئلہ کشمیر پر بھی پاکستان کوکئی عشرے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ افسوس عمران پراجیکٹ کے نقصانات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور نجانے کب تک ہم اس مہم جوئی کے سنگین نتائج کو بھگتتے رہیں گے۔
میں نواز شریف کی بہت ساری باتوں سے اتفاق نہیں کرتا مگر اس بات میں وزن نظر آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ عمران خان جیسا کوئی عذاب، ملک پر مسلط نہ کرنے کی یقین دہانی کروانی ہوگی۔